چائے کی پیالی

image

ہم سب کے بہت سے دوست احباب ہوتے ہیں ان میں اکثر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف نظریات کے قائل لوگ بھی ضرور ہوتے ہیں لیکن ہم پھر بھی انکی غمی خوشی میں بھی شریک ہوتے ہیں بلکہ پاکستان میں بہت سے سرمایہ دار جو کہ سیاسی جماعتوں پر قابض ہیں ان میں بہت سے لوگ آپ کو ایسے بھی ملے گے جو مختلف سیاسی جماعتوں سے نہ صرف تعلق رکھتے ہو گے بلکہ انکے پاس جماعت کا کوئی بڑا عہدہ بھی ہو گا لیکن پھر بھی وہ ایک دوسرے سے نہ صرف ملے گے بلکہ کاروبار اور رشتہ داریاں بھی کرے گے۔
اس کے بر عکس مقامی سطح پر کارکنان کو آپس میں لڑوایا جاتا ہے نفرت میں لوگوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں اور دشمنی نسل در نسل بھی چلنا شروع ہو جاتی ہے ۔اور اگر کوئی درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والا اور اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے آجائے تو یہ اثرو رسوخ رکھنے والا طبقہ اس کو معاف نہیں کرتا اور اس کے لئے سازشیں کرنا شروع کر دیتا ہے ۔
پاکستان میں لوگ نظام کی تبدیلی کے لئے عمران خان کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے خان صاحب کا دھیان پتا نہیں کہا ں ہے آپ فیض الحسن چوہان کا واقع لیں اور اس کے بعد پنڈی میں بلدیاتی الیکشن کے نتائج دیکھ لیں اوکاڑہ کے ضمنی الیکشن میں وہاں سے اپنے ہی ممبر اسمبلی کی مشاورت اور اعتماد کے بغیر ٹکٹ جاری کرنا خان صاحب کا اوکاڑہ میں جلسہ بھی کرنا لیکن پھر بھی نتائج دیکھیں تو ضمانت ہی ضبط ہو گئی اور پھر جیتنے والے کو خان صاحب کی طرف سے مبارک باد لیکن وہ اتنا ہی اچھا تھا تو پہلے نظر کیوں نہیں آیا۔
پیر محل کے ضمنی الیکشن میں مقامی قیادت ریاض فتیانہ کی مشاورت کے بغیر چوہدری سرور کا ایک ایسے بندے کو ٹکٹ دینا جو کبھی تحریک انصاف کا ممبر بھی نہیں تھا اور اگلے ہی دن اس نے مسلم لیگ نواز کے امیدوار کی حمائت کا اعلان کر دیا اس سارے معاملے کے پیچھے کہانی یہ نکلی کہ چونکہ ریاض فتیانہ کی حمزہ شہباز سے ملاقات ہوئی ہے اور اس نے معملات طے کر لئے ہیں ن لیگ کے امیدوار کو جتوانے کے لئے۔ ریاض فتیانہ کا کہنا تھا کہ انکی ملاقات حمزہ شہباز سے ایک دفتر میں ہوئی جہاں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کسی کام کے سلسلے میں گئے تھے حمزہ شہباز نے انھیں چائے کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کر لی۔ لیکن کیا چائے پینے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپس میں مک مکا ہو گیا ہے اگر ایسا ہوتا تو تحریک انصاف کا امیدوار تو دستبردار ہو چکا تھا ریاض فتیانہ بھی اپنے امیدوار کو دستبردار کروا لیتا تو ن لیگ بلا مقابلہ ہی وہاں سے جیت جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا انھوں نے وہاں پر مقابلہ کیا انکی امیدوار سونیا علی رضا الیکشن تو ہار گئی لیکن لگ بھگ چھتیس ہزار ووٹ لئے جو کہ حکومت کے خلاف آزاد حیثیت میں بڑی کامیابی تھی ۔
لیکن تحریک انصاف کی طرف سے پھر وہی امر دہرایا گیا کہ ریاض فتیانہ کو جماعت سے نکال دیا گیا۔
کیونکہ میرا تعلق بھی اسی شہر سے ہے س لئے حالات واقعات سے واقف ہوں 2013 کے انتخابات میں کمالیہ سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں تحریک انصاف کا کوئی امیدوار ہی نہیں تھا اور اب گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں ریاض فتیانہ نے حکومت کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ چالیس فیصد امیدوار بھی کامیاب۔ ہوئے جسکی وجہ سے تحریک انصاف کا پیغام کمالیہ کے ہر گاؤں اور محلے میں پہنچا۔ لیکن شائد فتیانہ صاحب ایک چائے کی پیالی کی قیمت ادا نہیں کر پائے جسکی وجہ سے انھیں جماعت سے ہی فارغ کر دیا گیا کیونکہ وہ ایک درمیانے طبقہ سے تعلق رکھنے والا انسان ہے اگر خان صاحب آپ ایسے ہی کرتے رہے تو شائد آپ کا وزیر اعظم بننا نا ممکن سا دیکھائی دیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں