گدا گر ( افسانہ )۔

تحریر : محمد نواز

شہر کی بغل میں مشرقی سمت جھوگیوں کا ایک شہر آباد تھا ،جہاں تک نظر جاتی تھی رنگ برنگی جھوگیاں ہی جھوگیاں نظر آتی تھیں ۔ رنگ برنگی اس لیے تھی جھوگیوں کی اوپر کی چھت ان رنگ برنگے پرانے کپڑوں سے بنی تھی جو ان جھوگیوں میں رہنے والی عورتیں شہر کے پاپوش علاقوں سے مانگ تانگ کر لاتیں تھی۔ان پرانے کپڑوں سے ایک دو ہفتے کا فیشن رچاتی ،زیب تن کرتیں جب دھونے کی باری آتی تو ان کپڑوں کو پیوندلگا کر چھت بنا لی جاتی ۔دور سے نیلی، پیلی، کالی ،سرخ اور غلابی رنگ کی چھتیں سورج کی چلماتی دھوپ میں لشکارے مارتی جیسے ان جھوگیوں کی چھتوں کے اوپر کپڑے کی بجائے قوس قضا اتر آئی ہو ۔چھتوں کے اوپر قوس قضا بکھری تھی مگر ان کے اندر زندگی ایڑھیاں رگڑے اپنی منزل کی طرف رواں تھی ۔انتہائی کمسپرسی میں گزارتے ان جھونپڑیوں کے باسی زندگی سے جنگ لڑ نے میں سر گرداں تھے ۔

شہر میں رہنے والوں کو یوں لگتا تھا سورج مشرق کی بجائے ان جھوگیوں سے ابھرتا ہے،اس لیئے شہر میں بسنے والے وہ لوگ جو صبح سویرے سورج کو ان جھوگیوں سے اگتے دیکھا کرتے تھے جھوگیوں کو چڑتے سورج کی سر زمین بھی کہتے تھے ۔سورج نکلنے کے ساتھ ہی جھوگیوں کے باسی چھوٹے بڑے ،جوان ،عورتیں مرد سب جھوگیوں سے نکل جاتے۔ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں پورے شہر میں پھیل جاتے ۔شہر کی گلیوں ،سڑکوں ،میونسپل کمیٹی کی جانب سے بنائے جانے والے گوڑا دانوں اور کچر ا کنڈیوں سے ناقابل استعمال اشیاءجن کو شہر والے بے کار اورفضول جان کر پھینک دیتے ہیں جمع کرتے اور لا کر اپنی جھوگیوں کے سامنے ڈھیر لگا دیتے ،دن کا جو حصہ بچ جاتا اسے مصرف میں لاتے ہوئے چھوٹے بڑے ان کچرے کے ڈھیروں کے گرد بیٹھ جاتے اور ان سے کاغذ ،پلاسٹک ،اور لوہے کی اشیاء الگ الگ کر کے بوریوں میں بند کر دیتے ،کسی گاﺅں میں رہنے والی عورتیں جب کپاس کی چنائی کر لیتی ہیں تو دائرے اور چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بیٹھ کر کپاس کے ٹینڈے جو ابھی ادھ کھلے ہوتے ہیں علیحدہ کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ ایک دوسری سے دل کی باتیں بھی، کچھ ایسا ہی انداز ان جھوگی باسیوں کا بھی تھا ۔سارا کچرا جب الگ ہو جاتا تو ہفتہ پندرہ دن کے بعد ایک ٹرک آتا اور ان سے جمع کیا سارا کچرا لے جاتا ۔

” اماں ۔۔۔۔۔ یہ کیا ہے “؟ مانی نے اپنی ماں سے پوچھا جو اس وقت کچرے کے ڈھیر پر بیٹھی کچرے کو الگ کر رہی تھی ۔ ” مجھے کیا پتا یہ کیا ہے؟ ماں نے کچرے کو الگ کرتے جواب دیا ۔’ ’ ماں اس میں فوٹو بنے ہوئے ہیں “ ” کاہے کے فوٹو “ بلی ،کتا ، کوا ،کبوتر ،چڑیا ،طوطا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ ماں اس میں شیر کی فوٹو بھی بنی ہے “ اچھا ۔۔۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔۔۔ تیرا باپ کہتا تھا شہر والے لوگ اس کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہتے ہیں ؟ ہائے ہائے یہ دماگ (دماغ) اب ٹھیک طرح سے کام بھی نہیں کرتا ۔گلاں یاد ہی نہیں رہتی۔ بھولنے کی بیماری ہو گئی ہے مجھے ۔ تیرا باپ بھی کہتا ہے اب میں باتیں بھولنے لگی ہوں ۔تھوڑے دن پہلے تیرے باپ نے مجھے دس روپے دیئے تھے وہ میں کہیں رکھ کے بھول گئی ،ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے۔ تیرے باپ سے کہا بھی تھا شہر میں کسی حکیم کو دیکھا دے کہتا حکیم پیسے بہت مانگتے ہیں ۔میں بھی چپ ہو رہی “ ” ماں میں جب بڑا ہو جاﺅں گا نا اور میرے پاس بہت سارے پیسے آجائیںگے، پورے ایک سو روپے تو میں تم کو حکیم کو زرور ( ضرور ) دیکھانے لے جاﺅں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ماں تم نے بتایا نہیں اس کو کیا کہتے ہیں ؟“ کی۔۔۔۔ کی۔۔۔۔ کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اس کو شہر والے فوٹو والی کتاب کہتے ہیں “ ” اس کو کیا کرتے ہیں ماں “ ” یہ جو شہر میں بڑے پیسے والے لوگ ہیں نا ان کے بچے اس سے پڑھتے ہیں “ ” ماں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ پڑھنا کیا ہوتا ہے ؟ ”” مجھے کیا پتا ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں کون سا پڑھی ہوئی ہوں جو مجھے پتا ہو کہ پڑھنا کیا ہوتا ہے ؟ چل جلدی ہاتھ چلا ۔تیرا باپ آتا ہو گا ۔اسے بھوک لگی ہو گی ابھی مجھے اس کیلئے روٹی بھی مانگنے جانا ہے “ ماں یہ فوٹو والی کتاب میں رکھ لوں ۔۔۔۔۔ ہاں ہاں رکھ لے، پر جلدی کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ مانی نے وہ فوٹو والی کتاب اپنی گود میں رکھ لی اور جلدی جلدی کچرا علیحدہ کرنے لگا۔ کچرے سے اسے کئی باراسے ایسی اشیاءمل جاتی تھیں جسے دیکھ کر اس کا دل مچلنے لگتا ،وہ ماں سے پوچھ کر اسے اپنے پاس رکھ لیتا تھا۔ ایک بچوں کے کھیلنے کی کار جس کے دو پہیے ٹوٹے ہوئے تھے،ایک کھلونا بلی جس کا بٹن دبانے سے میوں میوں کی آواز نکلتی تھی۔ایک پچکی ہوئی گیند جس سے وہ کھیلتا تھا۔ سورج شہر کی عمارتوں کے پیچھے اپنی آخری کرنیں چمکا کر ڈوب چلا تو ماں نے مانی کو آواز دی جو اپنے کھلونوں سے کھیل رہا تھا ۔مانی میں تیرے باپ کیلئے شہر سے روٹی مانگنے جا رہی ہوں چل تو بھی میرے ساتھ ، ماں وہ کیوں ؟ مانی نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی ،اب تو بڑا ہو گیا میرے ساتھ جائے گا تو مانگنے کا ڈھنگ آ جائے گا ۔ چل ۔۔۔۔۔۔۔۔ آ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “ مانی ماں کے ساتھ ہو لیا ۔آج مانی کا ماں کے ساتھ پہلا دن تھا شہر کے راﺅسا سے اپنے اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کیلئے روٹی مانگنے کا ۔مانی کی عمر دس یا بارہ سال تھی مگر باتیں اپنی عمر سے بڑی کرتا تھا ۔ماں نے اسے کئی بارکہا تھا مانی کم بولا کر لیکن وہ اس سے باز نہ آتا ۔جو چیز اسے نئی دیکھتی اس کے بارے میں ضرور پوچھتا ۔”ماں روٹی کیسے مانگتے ہیں “ مانی نے ماں سے پوچھا ” ابھی تم کو پتہ چل جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جیسے جیسے کہوں گی ،تم بھی میرے پیچھے پیچھے بولنا اور اسے اچھی طرح سے یاد کر لینا ، آخر تم کو بھی مانگنے کا ڈھنگ آنا چاہیے “ ماں ،ابا روٹی مانگنے کیوں نہیں آتا؟“ ” مانی تو بہت بولتا ہے چپ کرکے میرے ساتھ چل “ ” بتا نا ماں ابا ہمارے لیئے روٹی مانگنے کیوں نہیں آتا“ مانی دوڑ کر ماں کے سامنے آن کھڑا ہوا اور ماں کو راستے میں ہی روک لیا ” تیرا ابا مرد ہے نا ،ہماری جھوگیوں میں مرد روٹی مانگنے نہیں جاتے، جب مرد شادی کرتا ہے تو عورت سے وچن لیتا ہے کہ وہ عمر بھر اپنے خوند ( خاوند ) اور بچوں کو مانگ کر کھیلائے گی “ ” ماں پھر مجھے کیوں ساتھ لے جا رہی ہے میں بھی تو مرد ہوں “ ” چپ کر جا بہتی زبان نہ چلا ، چل آبادی آگئی ہے میں صدا لگاتی ہوں ، تم میرے پیچھے پیچھے صدا لگانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ دے ناں تے اک روٹی دا سوال اے ، کوئی ہے جو اللہ کے نام پے روٹی دے دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ مانی کی ماں ایک دروازے کے سامنے کھڑی صدا لگا نے لگی اس نے یہ عمل دو تین بار دہرایا مگر اندر سے کوئی روٹی لے کر نہ آیا اور نہ ہی کسی نے کوئی جواب دیا مانی اپنی ماں کے پہلو میں کھڑا یہ سب حیرانی سے دیکھ رہا تھا ماں نے ایک بار پھر صدا لگائی ،مگر اس بار بھی صدا درو دیوا ر سے ٹکرا کر واپس لوٹ آئی ،مانی نے اسی باز گشت کی پیروی کی اور آواز لگائی” اللہ دے ناں تے اک روٹی دا سوال اے ، کوئی ہے جو اللہ کے نام پے روٹی دے دے“ مانی کی آواز میں اک سوز تھا ایک درد تھا ماں نے مانی کی صدا سنی تو حقہ بقہ مانی کی طرف دیکھ کر بولی ” مانی تو اتنی سر میں صدا لگاتا ہے مجھے پتا ہی نہ تھا “ ” ماں بھکاری کا بیٹا بھی بھکاری ہی ہوتا ہے “ مانی کی پر سوز آواز نے خاتون خانہ پر اثر کیا دروازہ کھلا ایک گرج دار آواز سماعتوں سے ٹکرائی” تم روز ہمارے ہی دروازے پر آن کھڑی ہوتی ہو تمھیں شہر میں اور کوئی گھر نظر نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چل جا معاف کر ، آ جاتی ہو منہ اٹھا کے ، ہم اپنے بچوں کا پیٹ پالیں یا تم بھکاریوں کا “ چل چھوڑ درازہ اگلے گھر سے لے لو “ ” ہم بھکاری ہیں بی بی ،ہم کو سو بار بھی دھدکارو کی تو پھر تیرے در پر آ جائیں گے ،اس امید سے کہ اب کی بار شاید خیرات مل جائے “

ماں مانی کو لے کر اگلے در پر آگئی اور لگی صدا لگانے ایک صدا ماں لگاتی اور اس کی تقلید کرتے ہوئے دوسری صدا مانی لگاتا ماں کی نسبت مانی کی صدا میں زیادہ سوز تھا ، مانی نے ماں سے ٹھیک کہا تھا کہ وہ آخر کار ایک بھیکاری کا بیٹا ہے ۔ کہا جاتا ہے بچہ اس دنیا میں توارث سے جیسے خصوصیات لے کر پیدا ہوتا ہے اس کے بال، چہرے کے خدو خال، جسمانی بناوٹ ، قدو قامت ماں باپ سے مستعار لیئے ہوئے ہیں بالکل اسی طرح بچہ ماں باپ سے کچھ معاشرتی عادات بھی لے کر اس دنیا میں آتا ہے ۔بادشاہ کا بیٹا بادشاہ ،اور فقیر کا بیٹا فقیر وں والی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے ۔ بالکل اسی طرح مانی کے اندر بھی گدا گرو ں والی خصوصیات موجود تھیں ۔جس کا آج وہ اظہار کر رہا تھا۔

مانی کی سوز والی آواز کام کر گئی ایک چھوٹا سا بچہ ہاتھ میں روٹی اور روٹی کے اوپر تھوڑا سا سالن لگائے باہر آیا اور مانی کے ہاتھ میں پکڑا کر فوراً واپس پلٹ گیا ۔ مانی روٹی تھامے ماں کی طرف دیکھنے لگا جیسے ماں سے روٹی کھانے کی اجازت مانگ رہا ہو۔روٹی کو دیکھ کر مانی کے منہ میں بھی پانی بھر آیا ” لا دے روٹی دیکھوں تو سہی کیسی ہے ؟“ ماں نے جھٹ سے روٹی پکڑ لی اور لپیٹ کر زنبیل میں رکھ لی ۔مانی کا دل چاہا رہا تھا کہ ماں اس کو وہ روٹی کھانے کو دے دے مگر ماں نے یہ کہہ کر روٹی زنبیل میں رکھ لی کہ پہلی روٹی ہمیشہ سے اس کے باپ کیلئے ہوتی ہے “ اگلے گھر سے آدھی روٹی ملی تو ماں نے کھانے کیلئے وہ مانی کو دے دی ۔مانی ہاتھ میں پکڑے روٹی کے بڑے بڑے نوالے بنا کر کھانے لگا گویا صبح کا بھوکا ہو۔

پوری آبادی گھومنے کے بعد مانی اور اس کی ماں کو صرف چند روٹیاں ہی مل سکیں ۔صرف اتنی روٹیاں جن سے ان کا بمشکل گزارا ہو سکتا تھا ۔

اتنی بڑی آبادی میں سے صرف چند روٹیاں ملنا کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔ایک وقت تھا جب لوگوں کے پاس زرق کی کمی لیکن دل کشادہ تھے آج رزق کی کشادگی ہے مگر دل تنگ ہو گئے ہیں ۔اللہ کے نام پر بھی دینا کٹھن کام لگتا ہے ۔مانی اور اس کی ماں جب جھوگیوں میں واپس آئے تو اندھیر ا چھا چکا تھا اور اس کا باپ جھونپڑیوں کے درمیان قبیلے کے دوسرے مردوں کے ساتھ تاش کی بازی لگا رہا تھا ۔جھوگی واسی مردوں کا یہ دستور ثانی تھا شام کو جھوگیوں کے درمیان میں پھٹی پرانی وہ چٹائیاں جسے وہ کچرا کنڈیوں سے اٹھا کر لائے تھے جنہیں شہر کے لوگوں نے بے کار سمجھ کر پھینک دیا تھا پھر سے قابل استعمال بنا کر اپنے مصرف میں لاتے ہوئے بچھا کر بیٹھ جاتے تھے ۔تاش کے پتے ہاتھوں میں پکڑے دائرے میں بیٹھے تاش کے یہ کھلاڑی ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ کوئی تاش کے بہت بڑے کھلاڑی ہوں اور آئندہ سال عالمی سطح پر ہونے والے تاش کے مقابلوں میں چیمپئن بننے کا جذبہ رکھتے ہوں ۔کہاں جاتا ہے کہ تاش کے کھیل میں شیطان بھی شامل ہوتا ہے وہ مسلسل کھیلنے والوں کو اکساتا رہتا ہے اسی لیئے کھیلنے والوں کے درمیان اکثر اوقات جھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے کے واقعات بھی وقوع پذیر ہو جاتے ہیں ،ابھی پچھلے ہی ہفتے مانی کے باپ کی ایک جھوگی واسی جو رشتے میں اس کا چچا زاد تھا ،سے تاش کھیلنے پر توں توں میں میںہو گئی تھی غصے میں آکر مانی کے باپ نے اس کا سر پھاڑ دیا تھا ۔قبیلے کے بڑوں نے بعد میں ان دونوں کے درمیان صلح کر ا دی تھی اس صلح کے عوض مانی کے باپ کو پانچ ہزار کا تاوان بھی ادا کرنا پڑا تھا ۔

” ابا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اماں روٹی مانگ کر لے آئی ہے آ کر کھا لو “ مانی نے تاش کے پتے کھیلتے ہوئے اپنے باپ کو کہا ۔” چل دفع ہو جا آتا ہوں“ مانی کا باپ غصے سے بھرا ہوا جھوگی میں داخل ہوا اور بیوی پر برس پڑا ” کتنی بار بکواس کی ہے جب میں پتوں کی بازی پر بیٹھا ہوا ہوتا ہوں مجھے نہ بلایا کر ۔۔۔۔۔۔۔ تیری کھوپڑی میں میری یہ بات کیوں نہیں پڑتی ؟ تیری وجہ سے میں آج پھر بازی ہار گیا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لا دے کیا لائی ہے کھانے کو ؟“

مانی کی ماں نے وہی پہلے ملنے والی روٹی خاوند کے سامنے رکھ دی جو اس وقت جھوگی میں زمین پر بچھی چٹائی پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ ” یہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ “ روٹی دیکھتے ہی خاوند کے تیور بگڑ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ” ایک روٹی وہ بھی سوکھی اور اس پہ دال کا ایک چمچ ، اٹھا لے میں نے نہیں کھانی ایسی روٹی “ اس نے بیوی کو بالوں سے پکڑ کر جو جھنجھوڑ کر پھینکا تو بیچاری جھوگی میں پڑے اس ٹرنک پر جا گری جواس کی مرحومہ ماں نے مانگ تانگ کر اس کے جہیز کیلئے بنایا تھا ۔اس کی جب شادی ہوئی تھی تب یہ ٹرنک کپڑوں سے بھرا ہوا تھا مگر اب اس ٹرنک میں پرانے کپڑوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔روٹی اٹھانے کیلئے اٹھی ہی تھی کہ خاوند نے پھر بازو سے پکڑا اور گرج دار آواز میں بولا ” پورے شہر سے تجھے ایک گھر بھی ایسا نہیں ملتا جہاں اچھا کھانا بنا ہو،کیا شہر میں کسی نے تجھے ماس ( گوشت ) نہیں دیا ۔ رحمے کی زنانی اسے روز ماس لا کر کھلاتی ہے اور تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو لگتا ہے سارا ماس تو خود کھا جاتی ہے اور بہانہ کرتی ہے کہ کسی نے دیا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو لگتا ہے تم کو مانگنا ہی نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر میں اتنے رئیس زادے رہتے ہیں ہر روز ماس پکا کر کھاتے ہیں تو ان کے گھروں میں کیوں نہیں جاتی ، غریب لوگوں کے محلوں میں جاﺅ گی تو دال ہی کھانے کو ملے گی ، چل دفع ہو میرے لیئے ماس لا میرا ماس کھانے کو من کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چل جا۔۔۔۔ نا ۔۔۔۔۔۔۔۔ “

مانی جھونپڑی کے باہر کھڑا سب سن رہا تھا۔ باپ کے نکل جانے کے بعد وہ جھونپڑی میں آیا ۔جہاں اس کی ماں اپنے سر کے اس حصے کو سہلا رہی تھی جہاں ٹرنک پر گرنے سے اسے چوٹ آئی تھی ۔ مانی نے ماں کے سر پر ہاتھ لگایا تو مارے درد کے اس کی آہ نکل گئی ۔

” ماں ۔۔۔ تو فکر نہ کر میں ابا کیلئے ما س لے آتا ہوں ۔اب مجھے مانگنا آتا ہے “ ” اس اندھیرے میں کہاں جائے گا ؟کس سے مانگ کر لائے گا ماس تجھے کیا پتا کس نے پکایا ہو گا ماس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شہر والے ہم بھکاریوں کو دینے کیلئے تھوڑا ماس پکاتے ہیں وہ تو اپنے لیئے پکاتے ہیں ،ہمیں تو وہ چیزیں دیتے ہیں جوان کے کھانے سے بچ جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شہر کے لوگ پیسے کے امیر ہوتے ہیں اور دل کے ہم سے بھی بڑے بھکاری ہیں ،وہ خدا جوان کو صبح شام کھانے کو طرح طرح چیزیں دیتا ہے اسی کے نام پر سب سے گھٹیا چیز ہم گدا گروں کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں خدا ان سے خوش ہوگیا ۔اب تو میں نے سنا ہے شہر والوں کے پاس ٹھنڈی مشین ہے جس میں کھانے پینے کی اشیاءمہینوں پڑی رہنے سے بھی خراب نہیں ہوتیں ، پھر وہ بھلا ہم کو ماس کیوں کھانے کو دیں گے ، مانی تم نا جاﺅ اس وقت، کل میں کسی امیر زادی کی منت سماجت کر کے تیرے ابا کو ماس لا دوں گی “ ” ماں ۔۔۔۔ وہ دیکھ شہر کی روشنیاں مجھے نظر آ رہی ہیں ، میں شہر خدا کے پاس جاﺅں گا اور کہوںگا ، اے خد ا تو شہر والوں کو کھانے کیلئے ماس دیتا ہے ہم جھوگی واسیوں کو کیوں نہیں ؟ ماں میں ابا کیلئے خدا سے ماس لے آتا ہوں ۔ ماں نے مانی کو پکڑ کر سینے سے لگا لیا اور لگی رونے ۔

رات بھر مانی سونہ سکا ۔چٹائی کا بستر جواس کیلئے کم خواب سے کم نہ تھا آج کانٹوں کابستر لگنے لگا تھا ۔اس کے ذہین میں باپ کی لڑائی اور ماں کی بے بسی غلام گردش میں ٹہلنے والے غلام کی طرح گردش کر رہی تھی ،ماں کے ساتھ گدا گری کرتے ساری آبادی اور صرف چند روٹیاں سونے نہ دے رہی تھی۔ابھی رات باقی تھی وہ اٹھا اور شہر کی طرف چلا گیا ۔کہتے ہیں گداگر کبھی اندھیرے سے نہیںڈرتا ،بلکہ اندھیرا گدا گروں سے ڈرتا ہے ۔مانی کو اندھیرے کا خوف نہ رہا وہ جلد از جلد شہر سے ماس لا کر اپنے ابا کو کھانے کو دینا چاہتا تھا ،اس کا خیال تھا جب اس کا باپ صبح اٹھتے ہی ماں سے ماس مانگے گا ۔اگر ماں نے ماس نہ دیا تومارے گااوروہ ایسا ہر گز نہیں چاہتا تھا ۔یہی سوچ کر وہ منہ اندھیرے ہی شہر کی طرف نکل گیا،اس کا خیال تھا باپ کے اٹھنے سے پہلے پہلے وہ ماس لے آئے گا ۔ شہر کی طرف جانے والی سڑک پر اندھیرے اور روشنی کا ملاپ ہو رہا تھا ۔کہیں اندھیرا چھا جاتا اور کہیں روشنی اپنا لبادہ اوڑھ لیتی۔ سڑک کنارے چلتے مانی سے ہوا اٹکیلیاں کرنے لگی ایک جھونکا آتا اور مانی کا چوغہ نما قمیض اوپر اٹھا دیتی ۔

مانی نے سوز سے پر آواز میں صدا لگائی ”ہے کوئی جو مجھے اللہ کے نام پر کھانے کو ما س دے دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسلسل صدا لگاتا شہرکی گلیوںمیں چلتا گیا ،کسی ایک گھر کا دروازہ بھی مانی کیلئے واہ نہ ہوا۔کسی ایک شہری نے بھی مانی سے یہ نا پوچھا کہ سورج نکلنے سے پہلے ہی وہ شہر کی گلیوں میں اللہ کے نام پر ماس کھانے کو کیوں مانگ رہا ہے ،کسی نے اس سے یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ رات اس کے ابا نے ماں کو کیوں مارا تھا ؟ ماں کی رات بھر کراہنے کی آواز نے اسے بھی بے چین رکھا تھا ۔وہ یہ سوچ کر جھوگی سے ماں کو بتائے بنا ہی نکل آیا ہے کہ باپ کیلئے ماس لے کر ہی جائے گا ۔شہر بھر کے لوگ خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے ۔

مانی ، باپ کیلئے شہر کے رﺅسہ سے ماس مانگ رہاتھا اور جھوگیوں میں سوتے جھوگیوں واسیوں پر قیامت صغرا بر پا ہوگئی ۔سورج نکلنے سے پہلے ہی آگ کی چنگاری جھوگیوں کے سامنے پڑے کاغذ ،پلاسٹک اور کچرے کے ڈھیروں کے ساتھ ساتھ جھوگیوں کے شہر کو بھی جلا گئی۔آن کی آن میں ساری جھوگیاں خاکستر ہو گئیں ۔جھوگیوں میں سوئے اکثر جھوگی واس جل کر موت کی آغوش میں چلے گئے باقی آگ کی لپیٹ میں آ گر جھلس گئے۔آگ پر قابو پانے کیلئے شہر سے فائر برگیڈ کے آ نے تک آگ ننگے بھوکے جھوگی واسیوں سے اپنا پیٹ بھر چکی تھی ۔مانی جب ماس لے کر جھوگیوں میں واپس آیا تو ان جھلسی ،سڑی لاشوں میں اس کے ابا اور اماں کی لاش بھی پڑی تھی جن کو لوگ جھوگیوں سے اٹھا اٹھا کر باہر لا رہے تھے ۔مانی کی ماں نے اسے ایک اچھا گداگر بنا دیا تھا ۔اسے مانگنے کا ڈھنگ آ گیا تھا ۔اسے صدا لگانی آ گئی تھی ۔وہ شہر کی گلیوں میں دن بھر کاغذ اور کچرا اکٹھا کرتا اور سرشام ”اللہ کے نام پر ایک روٹی کا سوال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ کی صدائیں لگاتا ۔ ایک روٹی کے ملتے ہی واپس اپنی جھوگی میں پلٹ آتا۔

گدا گر ( افسانہ )۔“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں