سیاست کے دو مختلف انداز

image

کل جب لاہور ایک بار پھر سیاسی سر گرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا تو سوچا کہ کچھ خبریں ہی دیکھ لیتا ہو جیسے ہی ٹی وی آن کیا تو نیوز چینل پر آدھی آدھی سکرین پر دونوں جماعتوں کے جلسوں کا منظر نامہ دیکھایا جا رہا تھا چند منٹ کے بعد اشتہارات شروع ہو گئے اور اشتہارات دیکھ کر مجھے لگا کہ شائد ملک میں عام انتخابات شروع ہو گئے ہیں کیونکہ عام انتخاب کی طرع پھر سے ایک بار مسلم لیگ ن کی اشتہاری مہم کا آغاز ہو چکا تھا اور موضوع تھا سیاست کے دو مختلف انداز ایک دوسرے کے آمنے سامنے جس میں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی تصویریں دیکھائی جا رہی تھی پہلے لاہور کے حلقہ سے ہی شروع کر لیتے ہیں ایک طرف ایاز صادق جو کہ دو سال سے زیادہ عرصے تک دھاندلی سے جیت کر عوام کے پیسے پر آیا شی کرتا رہا دوسرے جانب علیم خان ایک پڑھا لکھا نوجوان جس نے محنت کی کمائی سے ہزاروں بے گھر لوگوں کو چھت کا سہارا دیا ایک وہ جس نے اپنے پوتے کو ایچیسن کالج میں بغیر میرٹ کے داخلہ نہ دینے پر کالج کے پرنسپل کو گھر میں بند کروا دیا استاد کسی بھی قوم کے معمار ہوتے ہیں ماں باپ کے بعد بچوں کی تعلیم و تربیت میں انکا بڑا اہم کردار ہو تا ہے اور انکو بچوں کا روحانی باپ بھی کہا جاتا ہے وہ شخص جو انکی قدروقیمت نہیں جانتا وہ ملک و قوم کی خاک خدمت کرے گا اور ایک وہ جس نے یتیم ، لاوارث اور غریب بچوں کو مفت تعلیم اور انکی پرورش کرنے کا بھیڑا اٹھایا ہوا ہے
اب بات کرتے ہیں جہانگیر ترین اور صدیق بلوچ کی
سب سے پہلے تو معصوف نے جعلی ڈگری پر الیکشن لڑا حلقہ کی عوام اور ملک کے ساتھ اس سے بڑی نا انصافی کیا ہو گی اور پھر سونے پہ سو ہاگا کہ الیکشن میں بھی ڈگری کی طرع جعلی ووٹ اور اس کے مقابلے میں ایک ایماندار اور ملک و قوم سے مخلص شخص ہے جس کا سارا کاروبار پاکستان میں ہے حکومت میں رہنے کے باوجود بھی آج تک کرپشن یا بد عنوانی کا کوئی بھی الزام نہیں جو کروڑوں روپے سالانہ ٹیکس دیتا ہے اور ترین فاؤنڈیشن ہزاروں بچوں کو مفت اچھی تعلیم فراہم کر رہا ہے اگر دوسرے لوگوں کا موازنہ بھی کرو گا تو بات بہت لمبی ہو جائے گی اس لئے وزیر اعلی صا حبان پر آتا ہو ایک انداز انکا جو پچھلے تیس سال سے پنجاب میں بار بار حکومت کر رہے ہیں اور گزشتہ سات سال سے مسلسل حکومت میں ہیں اور پنجاب کے لوگوں کے حالات دن بہ دن خراب ہوتے جا رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ماڈل ٹاؤن میں سو لوگوں کو پوری دنیا کے سامنے گولیاں ماریں جن میں حاملہ عورتیں اور بچیں بھی شامل تھے اور آج تک کسی کو بھی انصاف نہیں ملا پولیس کے ادارے کو انتقامی کاروائی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے انکا ایک وزیر رشوت لیتا ہو یا سرعام دکھایا گیا لیکن زبانی جمع خرچ کے کوئی ایکشن نہ لیا گیا یہاں ہسپتالوں میں غریبوں کو دوائی نہیں ملتی اور تو اور ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ بچوں کو چوہے بھی کاٹ جاتے ہیں وزیر اعلی کا بیٹا غریبوں کے روزگار پر قبضہ کرنے پر تلا ہوا ہے تھانہ کچہری اور پٹواری کی سیاست کی جاتی ہے اور دوسری جانب کے پی کے میں پہلی بار حکومت ہے اور آج ہر ایک زباں زد عام ہے کہ وہاں پر پولیس کا نظام بہت حد تک بہتر ہو گیا ہے بھرتیاں قابلیت کی بنا پر کی جاتی ہیں صوبے میں امن و امان کی صورت کافی حد تک کنٹرول میں ہے دہشت گردی کے واقعات میں کافی کمی آئی ہے جس میں پولیس کا بڑا اہم کردار ہے پٹواری کلچر کا خاتمہ ہو چکا ہے ایسا احتساب کمیشن کے حکومت کا وزیر گرفتار تعلیم کے نظام میں واضع فرق ایک نصاب جس میں امیر اور غریب کا بچہ برابری کی سطح پر اوپر سکتا ہے سکولوں ہسپتالوں میں مفت دوائیاں ڈاکٹرز کی تعداد میں اضافہ اور ایسی بے شمار خدمات ہیں جو صرف دو سال کے مختصر سے عرصہ میں سر انجام دی

اب اس کے بعد ایک طرف نواز شریف جو کہ تیسری بار وزیراعظم بنا وہ بھی کبھی جنرل ضیاء کی گود میں بیٹھ کر اور کبھی الیکشن میں دھاندلی کا تاج سر پر سجا کر قومی اسمبلی میں آیا جو کہ صرف حکمرانی کے لئے پاکستان آتا ہے نہیں تو زیادہ تر تو بیرون ملک دوروں پر ہی رہتا ہے ملک بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے وہ کبھی جدہ چلے جاتے ہیں تو کبھی عید کرنے لندن اور پھر فیملی کے ساتھ سیر کرنے نیو یارک اور عوام کا عربوں روپیہ اپنی بادشاہت میں لگا رہا ہے جہاں بھی جاتا ہے اپنے بیٹے کو کاروباری معاہدہ طے کرنے کے لئے ساتھ ہی لے جاتا ہے دشمن ملک بھارت کا دورہ ہی دیکھ لیں اور اتنا نا اہل ہے کہ اس وقت ڈمی وزیراعظم بنا ہوا ہے وہی زرداری جس کے خلاف کرپشن کی باتیں کرتا تھا اسی کو دعوت کھلائی جا رہی ہے

لیکن اس کے بر عکس وہ شخص جس نے ہمیشہ دنیا میں پاکستان کا نام فخر سے بلند کیا پاکستان کرکٹ ورلڈ کپ لیکر آیا ایک ایسا ہسپتال بنایا جو کہ ستر فیصد سے زیادہ کینسر کے مریضوں کا مفت میں علاج کرتا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی ترقی یا فتہ ملک میں بھی نہیں ملتی پاکستان کے پسماندہ اور دیہاتی علاقے میں ایک ایسی یونیورسٹی قائم کی جو غریب بچوں کو برطانیہ کی یونیورسٹی کی ڈگری دیتی ہے اور پشاور میں ایک اور پہلے سے بھی بڑا شوکت خانم تعمیر کے مراحل میں ہے جو پچھلے اٹھارہ سال سے پاکستان میں کرپشن ، بے روزگاری ، موروثی سیاست ،تھانہ کچہری اور حکمران طبقے کے ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ کے کھڑا ہے مشکل وقت بھی دیکھا لیکن اللہ پر بھروسہ اور ایمان رکھا جس کا سب کچھ پاکستان میں ہے جس نے دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دیا جو ایک سو چھبیس دن تک جاری رہا لوگوں کو ایک نیا سیاسی شعور دیا نوجوان اور پڑھے لکھ طبقہ کو آگے لیکر آیا ۔

یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں لکھتے لکھتے شائد کئی دن مہینے گزر جائے لیکن وقت کم ہے اب لاہور کے لوگو ں نے کل یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کونسے انداز سیاست کے ساتھ ہیں کیا انکو وہی فرسودہ گلہ سڑا ہو نظام چاہئے جو کئی دہایوں سے ان پر مسلط کیا گیا ہے یا اس سے آزادی چاہیے جہاں پر ایک روشن مستقبل انکا انتظار کر رہا ہے سیاست کے انداز تو واقع ہی دو ہیں اب فیصلہ لاہور کا اور پورے پاکستان کا کہ وہ کس انداز کو گلے لگاتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں