ایٹمی دھماکوں کے کریڈٹ کا حقدار کون ۔۔۔ تحریر : صوفی محمد ضیاء شاہد

28مئی 1998ء کا دن ہماری تاریخ کا ایسا شاندار دن تھا جس روز اسلامی دنیاکے سب سے پہلے ایٹم بم کا تجربہ کیا گیا اور اس کا سہرا کسی ایک شخصیت کے سر نہیں جاتا ہے بلکہ اس اھم دفاعی کامیابی کے پیچھے ذوالفقار علی بھٹو ، سیٹھ عابد، کرنل قذافی، شاہ فیصل، ڈاکٹر عبدالقدیر اور ان کے ساتھی سائنسدان اور جنرل ضیاءالحق کے سر جاتا ہے۔ اور یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ اگر اس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف کو امریکہ سے بھرپور مالی پیکج مل جاتا تو وہ کبھی بھی دھماکے نہ کرتے۔ اور دوسری بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ آل پاکستان سیاسی جماعتوں کے ایمرجنسی بلائے گئے اھم اجلاس کے اختتام پر جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے نواز شریف کو للکار کر کہا تھا کہ اگر 30 مئی تک دھماکے نہ کیے تو ہم قوم کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ پاکستان کے سینئر صحافی روزنامہ نوائے وقت کے ایڈیٹر مجید نظامی نے کہا تھا کہ نواز شریف اگر آپ نے دھماکے نہ کیے تو قوم تمہارا دھماکہ کر دے گی۔ یہ وہ قومی پریشر تھے جن کی وجہ سے دھماکے کرنا پڑے۔ ورنہ سیاسی قیادت کے دلوں کی باتیں منظر عام پر آ چکی تھیں۔
یہ عوامی پریشر اور افواج پاکستان کی سرپرستی تھی جس وجہ سے ایٹمی دھماکے کرنا پڑے۔
اور ایٹمی دھماکے کرکے ملک کو ہمیشہ کیلئے ناقابل تسخیر بنا دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اب ن لیگ ہر سال مئی میں ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے۔ ایک ویڈیو انٹرویو میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انکشاف کیا کہ پاکستان 1984 میں ایٹمی پاور حاصل کر چکا تھا 1984 میں تو نواز شریف سیاست میں بھی نہیں آیا تھا۔ تو پھر ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لینے کے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کا مقصد کیا ہے۔ یہ سب جدوجہد نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ تاریخ اور حقائق سے آنکھیں چرانا عقلمندی نہیں ہے ۔ چاند چڑھتا ہے تو ہر کوئی دیکھ لیتا ہے ۔
شعور وآگہی کی وجہ سے نوجوان نسل تاریخی حقائق سے آگاہ ہے۔ اب جھوٹے نعرے لگا کر کسی کو گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ ممبئی کے دھماکوں کو پاکستان کے ذمے ڈالنے والے 28 مئی کے ایٹمی دھماکوں کو اپنی کارکردگی ثابت کرنے کے لیے قومی خزانے کو بھی نہیں بخش رہے ۔ کروڑوں روپوں کے سرکاری اشتہارات میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، سیٹھ عابد، ضیاء الحق جیسی اہم شخصیات کو بھی کھڈے لائن لگا دیا۔ جنرل ضیاء الحق کی گود میں پلنے والوں نے تو بے وفائی کی انتہا کر دی ہے۔ کارگل کی جنگ کے بارے میں افسوس کرتے ہوئے ویڈیو سے کیسے انکاری کی جا سکتی ہے۔ لوٹ مار کے لیے رب اور بھگوان کو ایک ماننے والے بھلا پاکستان کے ساتھ کیسے مخلص ہو سکتے ہیں۔ جن کے کاروبار لندن میں، اولاد لندن میں، علاج لندن میں، بنگلے لندن میں، وہ بھلا پاکستانی قوم کو کیا دیں گے۔ وہ تو صرف مل ملا کر اتفاق کر کے اتحاد کر کے پاکستان کو لوٹنے کے لیے آتے ہیں۔ اب رھا یہ سوال کہ ووٹ کو عزت دینا بھی ان کا نعرہ ہے تو قوم نے دیکھ لیا کہ اب ووٹ جس کو بھی ڈالا جاۓ اس کا رزلٹ ووٹ کی کاسٹ پر نہیں ہو گا۔ غریب قوم کے پاس ایک ووٹ کا حق تھا سو وہ بھی ختم ہو گیا۔ اب قوم ووٹ ڈالے یا نہ ڈالے رزلٹ طاقتور کی مرضی سے آنا ہے۔ سرحدوں کی پاسبانی پاک فوج نے کرنی ہے ۔ جب تک پاک فوج اور عوام ایک ساتھ ہیں یہ ملک کو لوٹنے والے پاکستان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں