پنجاب حکومت کا عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق ۔۔۔ تحریر : صوفی محمد ضیاء

پنجاب کی اوّل وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے عوام کی سہولت کے لیے برتھ سرٹیفکیٹ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی فیس ختم کر دی ہے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے یہ عوام کے ساتھ بہت بڑا بھونڈا مذاق کیا گیا ہے۔ واہ جی واہ ۔ کتنا بڑا عوامی مسئلہ حل کر دیا ہے۔ عوام تو اس سہولت کے بعد سکون کی نیند سو جایا کریں گے۔ اس وزیر اعلیٰ کو عوام کو تاریخ کی بہت بڑی سہولت دینے پر مبارک باد دینی چاھیے۔ بی بی زمینی حقائق کچھ اور ہی ھیں ۔ گھروں میں روز بچےّ پیدا نہیں ہوتے اور نہ ہی گھروں میں روز فوتگیاں ہوتی ہیں ۔ جو آپ نے پیدائش اور وفات کے اندراج کی فیس معاف کر کے بہت بڑا کارنامہ گردان رہی ہو ۔ اگر عوام کی خدمت کرنی ہے تو چچا بھتیجی مل کر پٹرول 100 روپے لیٹر کرو ۔ یہ تو تم ھرگز نہیں کرو گی ۔ چینی 180 روپے کلو مل رہی ھے ۔ عوام کی سہولت کے لیے چینی 50 روپے کر کے دکھاو ۔ تم چچا بھتیجی چینی کی قیمت 50 روپے کلو نہیں کر سکو گی۔ وہ اس لیے کہ چینی کا تمہارا اپنا کاروبا ہے ۔ بھلا اس عوام کے لیے چینی کو سستا کر کے اپنا نقصان کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
چلو پھر آپ دونوں مل کر غریب عوام کے لیے گھی 150 روپے کلو کر دو ۔ یہ بھی عوامی خدمت کا ایک پہلو ہے ۔ لیکن لگتا نہیں ہے کہ آپ دونوں چچا بھتیجی یہ گھاٹے کا سودا کرو گے۔
میڈیسن کی قیمتیں روز بڑھا دی جاتی ہیں۔ میڈیسن کمپنیوں کو قیمتیں بڑھانے کا یہ اختیار بھی حکومت نے ہی دیا ہے ۔ اس اختیار دینے کے عوض میں حکومت کو کیا کچھ ملتا ہے۔ بھولی بھالی عوام کو تو اس بات کا علم تک نہیں ہے۔ عوام کو تو یہ علم ہے کہ جو میڈیسن کل 100روپے کی لی تھی آج اس کی قیمت 400 روپے ہے۔ اب بھلا عوام کیسے مطالبہ کرے کہ اے چچا بھتیجی میڈیسن کی قیمتوں کو لگام دو۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا ۔۔
ویسے بھی آپ غربت کو کیا جانیں۔ منہّ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے کو کیا معلوم غربت کس بلا کا نام ہے ۔ 26 کروڑ عوام آپ چور لٹیرے حکمرانوں کی عیاشیوں کے لیے ماچس کی ڈبی سے لے کر کفن تک ٹیکس دیتے ہیں۔ اس لیے تو آپ لوگوں کے گھر لندن میں، کاروبار لندن میں، علاج لندن میں، بچوں کی تعلیم لندن میں۔ بس حکمرانی کرنے کے لیے لوٹ مار کرنے کے لیے پاکستان آتے ہو ۔ اب تو باری باری حکومت کرنے کا ڈرامہ بھی عوام کے سامنے کھل چکا ہے۔ موجودہ مسلط حکمران دن رات پاکستان کے وسائل اور خزانے کو لوٹتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد پروگرام کے مطابق دوسرا گروپ پاکستان پر مسلط ہو جائے گا۔
ممبران قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں لاکھوں روپے اضافہ کرتے ہوئے نہ شرم آئی اور نہ ہی کسی بین الاقوامی ادارے سے پوچھنا پڑا ۔ جب غریب عوام کے لیے بات ہو یا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کا مطالبہ ہو تو اپنے آقاوں کا ڈر لگنے لگتا ہے کہ اب ورلڈ بنک سے پوچھنا پڑے گا ۔ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے لیکن حکمرانوں کو کیا پتہ یہ کیا ہوتی ہے ۔
مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوؤں کے باوجود ایک ہفتے کے دوران 14 اشیاء مزید مہنگی
ایک ہفتے میں 14 اشیاء مہنگی ہوئیں جبکہ 27 کی قیمتوں میں استحکام رہا،
حکومت مسلسل دعوے کر رہی ہے کہ معیشت سنبھل رہی ہے اور عوام کو ریلیف مل رہا ہے۔ لیکن حقیقت عام آدمی کی زندگی میں نظر آتی ہے، جہاں مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ لگتا ہے جیسے یہ مسئلہ حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔
ملک میں ہر طرف بحران کا راج ہے۔تمام بحرانوں کے بیچ وہ مسئلہ جو سب سے زیادہ عام آدمی کو نگل رہا ہے، وہ مہنگائی ہے۔
روزمرہ ضروری اشیاء جیسے آٹا، دال، گوشت، سبزیاں، گھی، چینی، دودھ اور تیل ان سب کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ آمدنی نہیں بڑھی، لیکن ہر چیز کی قیمت ضرور بڑھی ہے۔ مزدور، کلرک، ریڑھی والا، ریٹائرڈ بزرگ، سب ایک طرف لاچار ہو گئے ہیں۔ تنخواہ آنے سے پہلے مہینہ ختم ہو جاتا ہے۔
اب تو راشن اور چینی کی قطاریں بھی انسانیت کو شرما رہی ہیں۔ مہنگائی غریب عوام کا جینا حرام کر دیا ہے غریب دن بہ دن غریب تر اور حکمران امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں ۔
مہنگائی ھر گھر کا مسئلہ ہے یہ روزمرہ زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کر رہی ہے۔ اسکول کی فیس، ہسپتال کی دوا، کرائے اور بل ہر چیز انسان کو کنگال کر رہی ہے۔ اور حالات اس قدر خراب ہیں کہ لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔
حکمران طبقے کو چاہیے کہ کاغذوں، تقریروں سے باھر نکل کر حقائق کے مطابق عوام کی خوشحالی کے لیے اقدامات اٹھانے چاہیئں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں