وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب رمدے نے بجٹ 2025 26 پیش کیا ہے سب سے پہلے ان وزیر خزانہ کا تعارف کروا دیا جائے تاکہ قارئین کو علم ھو کہ ان وزیر خزانہ کا نواز شریف فیملی سے کتنا گہرا تعلق ھے۔ اور دیکھنے میں تو الگ الگ فیملی لگتی ھیں درحقیقت یہ دونوں فیملی ایک ہی ھیں۔ نواز شریف کی کوئی بھی حکومت ھو وزیر خزانہ کی فیملی کلیدی عہدوں پر ھو گی۔
ھالینڈ سے درآمد شدہ ڈچ شہری وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب رمدے پیشے کے اعتبار سے بینکار ہیں وہ مارچ 2024 میں وزیر خزانہ بننے سے پہلے حبیب بنک لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر تھے۔ انکی قابلیت میں یہ بھی شامل ہے کہ یہ کمالیہ سے ن لیگی سابق MNA چوھدری اسد الرحمان اور جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمان رمدے کے بھتیجے ہیں انکے والد چودھری محمد فاروق رمدے پاکستان کے دو دفعہ اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں، جبکہ ان کی بھابھی عاٸشہ رضا فاروق رکن قومی اسمبلی اور رکن سینیٹ اور وفاقی وزیر بھی رہ چکی ہیں۔
موجودہ بجٹ جس میں دفاع کے لیے 2550 ارب روپے جو کہ بجٹ کا 14.5 فیصد ہے۔ تعلیم کے لیے 56.6 ارب روپے ہے جو کہ بجٹ کا 0.32 فیصد ہے صحت کے لیے 14.3 ارب روپے جو کہ بجٹ کا 0.08 فیصد ہے۔ بجٹ میں دفاع کے لیے جو رقم مختص کی گئی ہے اس پر کوئی بھی پاکستانی تبصرہ نہیں کر سکتا کیونکہ دفاع تو ہر پاکستانی کے لیے ضروری ہے اور یہ دفاع کا جو بجٹ جن کو دیا جاتا ہے ان کے بارے میں بات کرنا بالکل ممنوع ہے .تعلیم کے لیے 56.6 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو انتہائی شرمناک پہلو ہے زندہ قوم تعلیم اور صحت پر خاص توجہ دیتی ہیں۔ بجٹ میں صحت کے لیے 14.3 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو کہ بجٹ کا 0.08 فیصد ہے حکمرانوں کے نزدیک تعلیم اور صحت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ حکمرانوں کے بچوں کے لیے تعلیم بیرون ملک اور صحت کی سہولیات بھی بیرون ملک ہوتی ہیں اب رھی خرچہ کرنے کی بات تو ان سیاست دانوں کو مملکت خداداد پاکستان کے وسائل اور 26 کروڑ عوام کا خون نچوڑنے کر اتنا مال اکٹھا کر لیا ہے کہ ان کی آنے والی سات نسلوں کو بھی کوئی مالی فکر نہیں ہے عام پاکستانی کی زندگی سے ان حکمرانوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
پاکستان میں چار قسم کے لوگ رھتے ھیں۔ ان سب کے لیے الگ الگ قانون ھیں۔ ایک وہ حکمران ٹولا جن کے سیاست دان والدین نے اس ملک کے وسائل بے دریغ لوٹ کر اپنی کئی نسلوں کو کھرب پتی بنا کر خود دنیا چھوڑ گئے ھیں۔ ان کی اولادیں منہّ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ھوئے۔ موروثی سیاست کے اپنے بنائے ھوئے قانون کے مطابق ان کی اولاد ہی ممبر صوبائی اسمبلی ممبر قومی اسمبلی وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بنیں گے۔ پاکستان کا قانون ان کا ماتحت ھے۔ ریکارڈ پر موجود ھے کہ فیصلے ان سے پوچھ کر کیے جاتے ھیں۔ رات کے کسی وقت بھی عدالتیں لگ سکتی ھیں۔ نادرہ ادارہ کے افسران انگوٹھا لگانے کے لیے جہاز کی سیڑھیوں پر پہنچ کر انگوٹھے لگاتے ھیں۔ عدالتوں کی دی ہوئی سزائیں بھی جہاز کی سیڑھیوں سے اترنے سے پہلے ختم ھو سکتی ھیں۔ ان اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ھونے کے لیے نورا کشتی کی جائے گی۔ اور طے شدہ پروگرام کے مطابق باری باری اقتدار کے مزے لوٹیں گے۔ پاکستانیوں کی دوسری قسم وہ ھے جو ان موروثی سیاسی بچوں کے جوتے اٹھائیں گے ان کو جھولوں میں سیر کرائیں گے۔ ان کے پیمپر بدلیں گے۔ بوٹ پالش کریں گے۔ ان کے کتوں کو نہلائیں گے۔ یہ سیاسی نوکر چاکر لوگ اپنے اپنے آبائی علاقوں میں جاگیر دار وڈیرے کہلاتے ھیں۔ تھانہ چوکی سب ان کے ماتحت ھوتا ھے۔ یہ وڈیرے کسی بھی اپنے مخالف کو قتل کروا سکتے ھیں۔ کسی مخالف کی زمین پر قبضہ کر سکتے ھیں۔ کسی بھی کمزور انسان کی بیوی یا بیٹی کو اٹھا سکتے ھیں اپنی ہوس ختم کرنے کے بعد اس کی لاش بھی غائب کر دیں گے۔ انہیں قانون نام کی کوئی چیز پوچھ نہیں سکتی۔ تیسری قسم وہ ھے جو ان سیاست دانوں کے سہولت کار ھیں ان کے بڑے بڑے جلسوں کا اہتمام کرتے ھیں۔ پارٹی فنڈ کے نام پر ھوش اڑا دینے والی رقم دیتے ھیں۔ پارٹی کے سربراہان ان کے لیے ملک کی قانونی مشینری کو مطلع کر دیتے ھیں کہ یہ یہ صاحبان ھمارے خاص بندے ھیں۔ ان کا خاص خیال رکھا جائے۔ پھر یہ خاص بندے کسی بھی مخالف آدمی کو اپنی گاڑیوں کے نیچے کچل سکتے ھیں۔ کسی بھی پلازے کسی بھی بنگلے یا کسی بھی قیمتی پلاٹ پر قبضہ کر سکتے ھیں۔ کسی بھی قبضہ کی گئی زمین پر ہاوسنگ سوسائٹی کا اعلان کر کے پاکستانیوں سے کھربوں روپے فراڈ کر کے بیرون ملک شفٹ ہو سکتے ھیں۔ اور دلچسپ بات یہ کہ چند سال بیرون ملک رھنے کے بعد پھر پاکستان آ کر کسی اھم سرکاری عہدے پر بھی براجمان ھو سکتے ھیں۔
چوتھی قسم ان پاکستانیوں کی ھے جو اس وقت 45 فی صد خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رھے ھیں۔ یہ وہ پاکستانی ھیں جن پر علاقہ کا ہر وہ شخص خدائی کرتا ھے جس کا کسی نہ کسی برسراقتدار پارٹی سے تعلق ھے۔ ھر شخص ایسے پاکستانی کو ٹھوکر مار گزرتا ھے۔ علاقے کے مہا بدمعاش بگڑے ریئس زادے کسی کی بھی بیٹی بیوی کو اٹھا کر لے جا سکتے ھیں۔ قانون کی کیا مجال ھے کہ وہ ان کو آنکھ کھول کر بھی دیکھ سکے۔ ان چاروں قسموں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ھے کہ حکمران ٹولہ ہر وقت پاکستانی عوام کو فلاں ریلیف فلاں ریلیف دیے جانے کا راگ الانپتے رھتے ھیں لیکن وہ سب ہوائی باتیں کرتے ھیں ۔ حقیقت کا علم ھونے کے باوجود وہ جھوٹ پر جھوٹ بول کر دکھی عوام کو دھوکہ دیتے ھیں۔
بجٹ میں سولر پینل پر 18 فیصد ٹیکس اور پٹرولیم لیوی میں 78 روپے تک اضافہ تجویز کیا گیا ہے یہ وہ فیصلے ہیں جو غریب عوام کو براہ راست نہ صرف متاثر کرنے کے لیے بلکہ زندہ درگور کرنے کا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے سولر پینل پر ٹیکس اور مہنگی بجلی عوام کا خون نچوڑنے کے مترادف ہے پٹرولیم میں اضافے سے مہنگائی کی مزید بڑھ جائے گی خبریں یہ بھی ہیں کہ سولر پینل حکومتوں حکمرانوں کا اپنا کاروبار ہے اس لیے وہ سولر پینل کے ذریعے پاکستان میں کاروبار کر کے مزید منافہ کمائیں گے ویسے بھی پاکستان مسلط حکمرانوں کے لیے ایک تجارتی مرکز ہے یا وہ دل کھول کر کاروبار کرتے ہیں اور گزشتہ 77 سال سے خوب منافع کما رہے ہیں تمام مسلط حکمرانوں کے کاروبار رہائشیں اور فیملی بھی بیرون ملک ممالک میں شفٹ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو کاروبار کرنے کے لیے پاکستان اتے ہیں اور لوٹ مار کر کے مال بنا کر واپس چلے جاتے ہیں اب پیروکاروں کو نوازتے ہیں لمبی لمبی لچھے دار تقریریں کرتے ہیں غریب عوام کے دکھ درد کا حوالہ دیتے ہیں اور پاکستانیوں کے نصیب سنوارنےکے لیے ایسی اداکاری کر کے عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں کہ سمجھا جاتا ہے کہ ان سے بڑھ کر ھمارا کوئی ھمدرد نہیں ھے۔ حالانکہ یہ سب ڈرامہ بازی اور اداکاری کے جوہر دکھا رھے ھوتے ھیں ۔
یہ اداکاری پچھلے 77 سال سے جاری ہے یہ لوگ فلمی اداکاروں سے زیادہ بہتر انداز میں اداکاری کرتے ہیں ان کے پیروکار یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی اداکار لوگ ہمارے نصیب جگانے کے لیے کتنے فکر مند ہیں اس وقت اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرتے ہیں مائک توڑ دیتے ہیں اپنے کپڑے پھاڑ دیتے ہیں قسمیں اٹھا دیتے ہیں اچھل کود کر تقریریں کرتے ہیں لیکن پیروکاروں کی زندگیاں تو 77 سالوں میں بھی نہیں بدلی البتہ ان اداکاروں کی خاندانوں کی زندگیاں بادشاہوں سے بڑھ کر بدل گئی ہیں شاہانہ زندگیاں ہو گئی ہیں کل تک ایک دوسرے کو گالی گلوچ کرنے والے لٹیرے حکمران ایک دوسرے کو غدار کا سرٹیفکٹ دینے والے غدار لٹیرے اب متحد ہو کر 26 کروڑ عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں یہ عوام ہی بھولی بھالی ہے کہ ان کو کچھ سمجھ نہیں آتا کل یہ دونوں پارٹیوں کے پیروکار ایک دوسرے کو لڑ لڑ کر جانی دشمن تک بن گئے لیکن ملک لوٹنے کے لیے حکمران اکٹھے ہو گئے 40 سال کے اقتدار میں رہنے کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو ایک پارٹی جو 40 سال سے اقتدار پر مسلط ہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ حکومت مزدور دشمن سرکاری ملازمین کے دشمن ہے عوام کی دشمن ہے سے کاشتکار کی دشمن ہے انہوں نے ہم پاکستانی مزدور اور سرکاری ملازمین اور کاشتکاروں کی زندگیاں عذاب میں بدل دی ہیں۔۔۔۔
موجودہ بجٹ میں ریٹائر ہونے والے ملازمین کی مراعات سے کٹوتی اور 17 اے جیسے قانون کو ختم کرنے کا ظالمانہ اقدام کیا گیا ہے بہت ظالمانہ اقدام جس کو مدتوں تک یاد رکھا جائے گا۔ اس ظالمانہ اقدام کا اثر پاکستانی عوام پر بہت زیادہ برا گزرے گا۔ مہنگائی 600 فیصد بڑھ گئی ہے لیکن سرکاری ملازمین کے لیے 10 فیصد اور پینشنرز کے لیے صرف سات فیصد اضافے کی منظوری دی گئی ہے جو بہت شرمناک پہلو ہ حکمرانوں کی شرم و حیا ختم ھو گئی ھے۔ جو شرم ھوتی جو حیا ھوتی ھے ان لوگوں کو کیا معلوم یہ کیا ہوتی ہے۔ جو کہ سرکاری ملازمین کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں یہ حکمران ٹولہ اپنے مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے جب چاہیں جب چاہیں قومی اسمبلی میں بل پاس کر کے منٹوں میں بیل منظور کروا لیتے ہیں کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم 26 کروڑ عوام میں صرف یہ ممبران قومی اسمبلی ہی غریب ترین طبقہ ہے۔اللہ رب العزت نے اس ملک کو قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے لیکن وہ تمام قدرتی وسائل ان حکمرانوں کے کنٹرول میں ھیں۔ سب جانتے ہیں مثال کے طور پر رب العزت کی طرف سے اگر ایک کنٹینر دودھ قدرتی وسائل کی صورت میں دے دیا جاتا ہے تو یہ حکمران اس کنٹینر سے ایک ڈرم اپنے زیر سایہ کرپٹ بیوروکریٹس کو دے دیتے ہیں کہ وہ ڈرم عوام میں تقسیم کر دیا جائے تاکہ عوام کی زندگیاں الفاظوں میں خوشحال ہو جائیں تو یہ کرپٹ بیوروکر یٹ اس ڈرم سے ڈراپ کے ذریعے ایک ایک قطرہ عوام کے منہ میں ڈالتے جائیں گے اور فوٹو سیسش کریں گے اور بے شرمی سے اور بددیانتی سے یہ نعرہ لگاتے جائیں گے کہ یہ حکومت نے عوام کو خوش کرنے کے لیے عوام پر ایک ایک ڈراپ کی قربانی دی ہے ذرا غور کیجئے اب 26 کروڑ عوام ان حکمرانی حکمرانوں کی عیاشیوں کو پورا کرنے کے لیے ماچس کی ڈبی سے لے کر کفن تک کی خریدداری پر ٹیکس دیتی ہے اور یہ ظالم حکمران یہ ٹیکس جگا گیری کی ذریعے وصول کرتے ہیں بجلی گیس کے بلوں میں جگہ ٹیکس لگا کر ہر ماہ کھربوں روپے اکٹھے کرتے ہیں میڈیسن کا شعبہ عام پاکستانی کی نظروں سے اوجل ہے میڈیسن کمپنیوں کے ذریعے حکمران واپڈا اور گیس سے بھی بڑھ کر لوٹ مار کر رہی ہے میڈیسن کمپنیوں کو مکمل با اختیار بنا دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہیں میڈیسن کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک میڈیسن کی قیمت ایک دن جو 100 روپے ہوتی ہے تو دوسرے دن اس میڈیسن کی قیمت 500 روپے کر دی جاتی ہے میڈیسن کمپنیوں کو بااختیار بنانے کے بعد حکمرانوں کو کیا ملتا ہے یہ بھولی بھالی عوام سوچ بھی نہیں سکتی۔
وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقاریر تجاویز میں سینٹ کے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمینز قومی اسمبلی کا سپیکر، ڈپٹی سپیکر کے مشاہیر تنخواہوں میں تقریباً 600 فیصد اضافہ کیا ہے اس سے پہلے وزرہ کے تنخواہوں اور مراد میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا ہے یہ معاشی لحاظ سے ایک پسماندہ قوم کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے اور حکومتی وزیر دفاع خواجہ اصف نے بجا طور پر اسے معاشی فحاشی تعمیر کیا ہے فحاشج کے معنی خود بے حیائی کے ہیں 26 کروڑ عوام کے ساتھ اس سے بڑا بھونڈا مذاق کیا جا سکتا ہے ہالینڈ سے امپورٹڈ وزیر خزانہ نے عجیب بھونڈی دلیل دی ہے کہ ان حضرات کے تنخواہوں میں گزشتہ نو سال سے اضافہ نہیں کیا گیا تھا جبکہ سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا جاتا ہے ان سے کوئی پوچھے آپ ان بادشاہوں کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کر لیتے ہیں اور 600 فیصد اضافہ عوام کے خزانے پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے ان حضرات کی جو 13، 13 لاکھ روپے تنخواہ دی گئی ہے یہ تو دنیا بھر کی مراعات پہلے ہی حاصل کرتے ہیں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی ان کی فیملیوں کو ان مراعات سے نوازا جاتا ہے۔ اس کا کیا جواب ہے اور دیکھا گیا ہے کہ اسلام آباد میں قومی سطح پر ہونے والی انٹرنیشنل پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ صحافیوں کے جواب دینے میں ناکام رہے ہیں بلکہ بعض اوقات تو غصےّ کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ ایسے سوالات کیوں کیے جاتے ہیں۔
اس وفاقی بجٹ میں وزیراعظم کی سرکاری رہائش اور رہائش اس کے لیے اخراجات 72 کروڑ سے بڑھا کر 86 کروڑ روپے کر دیے گئے ہیں بجٹ میں وزیر اعظم ہاؤس کی گاڑیوں کے لیے نو کروڑ باغیچے کے لیے چار کروڑ اور صرف وزیراعظم کی ڈسپنسری کے لیے 15 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں وزیراعظم کا عطیہ دینے کے لیے 22 کروڑ رکھا گیا ہے یعنی کہ وزیراعظم جو صدقہ خیرات دیں گے وہ بھی قوم کے خزانے کسے دیں گے اور شرم آنی چاہیے کوئی حیا ہونا چاہیے لیکن ان لوگوں کو کیا پتہ یہ شرم حیا کیا ہوتی ہے بجٹ کو سادہ زبان میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ 26 کروڑ عوام دن رات محنت مزدوری کر کے کمائیں گے اور اور یہ مسلط ڈولا یہ یہ لٹیرے حکمران اس خزانے کو اور غریب عوام کی کمائی ہوئی کمائی ہوئی دولت سے کھائیں گے اور اپنی نسلوں کے لیے دوسرے ملکوں میں اپنے کاروبار بنائیں گے اپنی رہائشیں بڑھائیں گے اور اپنے اپ کو وہاں بادشاہانہ زندگی گزاریں گے امیروں کی مراعات میں اضافہ اور غریب کی ٹینشن میں اضافہ کیا گیا ہے۔
ایک انٹرنیشنل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی 44.7 ابادی تقریباً 10 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ان کے پاس پینے کے لیے صاف پانی نہیں اور رہنے کے لیے چھت نہیں یہ سب کچھ کیسے ہوا اس کے ذمہ دار پاکستان پر مسلط حکمران ہیں اس رپورٹ کے بارے میں جب اسلام اباد میں کانفرنس کے دوران کسی صحافی نے وزیر خزانہ سے سوال کیا تو وزیر خزانہ نے ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے سوال کا جواب ہی گول کر دیا ہے۔
ایک سادہ سا سوال ہے کہ وزیر خزانہ 37 ہزار میں ایک مزدور کے گھرانے کا بجٹ بنا کر دکھائے کہ جس کے دو بچےّ اور میاں بیوی چار افراد ہیں وہ ان 37 ہزار میں گھر کا بجٹ کیسے چلائیں گے۔ جب وزیرخزانہ سے مزدور کی تنخواہ نہ بڑھانے سے متعلق کسی صحافی نے سوال کیا تو وزیر خزانہ نے بہت بھونڈا مگر سچا جواب دیا کہ صنعتکاروں اور سرمایہ داروں نے مزدور کی تنخواہ میں اضافہ نہ کرنے کا کہا ھے اس لیے مزدور کی تنخواہوں کو نہیں بڑھایا گیا۔ اندازہ کریں کہ یہ چور راستے سے مسلط ھونے والی حکومت کس طرح غریب عوام کا استحصال کر رہی ھے لیکن اپنے خاص اہداف لازمی اور توجہ سے حاصل کرتی جا رہی ھے۔
اگر ضعیف پنشنرز کے بارے میں وزیرخزانہ سے سوال کیا جائے تو وہ ایسا جواب دیں گے کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جائیں گے کہ یہ وزیر خزانہ کوئی لطیفہ سنا رہا ہے جبکہ ان مسلط لٹیروں سیاست دانوں وزیروں کے ذاتی ماہانہ بجٹ جو ہیں وہ کروڑوں روپے میں ہیں ان کو کیا علم کہ پاکستان میں ایک مزدور کی زندگی ایک غریب کی زندگی کیسے گزر رہی ہے وہ کیسے سسک سسک کر تڑپ تڑپ کر زندگی گزار رہے ہیں ہاں البتہ یہ حکمران لٹیرے یہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران یہ وزرا بجلی گیس میڈیسن اور پٹرولیم مصنوعات اور دیگر ذرائع سے انہی غریب عوام سے کیسے ٹیکس وصول کر کے خزانہ بھر کر اپنی زندگیاں عیاشیوں میں گزار رہے ہیں۔ مزدور کی تنخواہ 37 ہزار روپے مقرر ہوئی تھی جبکہ صورتحال یہ ہے کہ مزدور کی تنخواہ 37 ہزار پر عمل درامد ہی نہیں کیا گیا کوئی ضلع بھی مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جہاں پرائیویٹ اداروں میں ملازمین کو 37 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے یہ 37 ہزار روپے کا جو فارمولا تھا یہ پچھلی حکومتوں کا تھا اب اس بجٹ میں وزیر خزانہ نے مزدور کی تنخواہ میں اضافے کا کوئی ذکر تک نہیں کیا ہے۔
ہمارے حکمران یہ ہیں ہمارے اوپر مسلط وہ لٹیرے حکمران جو مختلف شعبوں کے لوگوں کی پریشر پر عوام کو وسائل دیتے ہیں اور جب مسائل دینے ہوں تو خود بنڈل بنا بنا کے مسائل عوام پر مسلط کرتے ہیں عجیب منطق ہے کہ مزدور کی تنخواہ بڑھانے کے لیے پہلے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں سے مشاورت کی جاتی ہے۔
حکومت کا ایک کارنامہ دیکھیے کہ یہ لٹیرے حکمران جو ملک پر مسلط ھو کر دنیا جہان کی مراعات حاصل کرتے ھیں۔ خزانے لوٹتے ھیں۔ اپنی جائیدادیں بناتے ھیں۔ نسل در نسل حکمرانی کرتے ھیں انہوں نے اس بجٹ میں بیوہ سے پنشن لینے جا حق ھی چھین لیا ھے ۔ اس بین الاقوامی اقدام پر وزیر خزانہ جو پاکستان کا کوئی قومی اعزاز دینا چاھیے۔
ایک انٹرنیشنل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی 44.7 ابادی تقریبا 10 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ان کے پاس پینے کے لیے صاف پانی نہیں اور رہنے کے لیے چھت نہیں یہ سب کچھ کیسے ہوا اس کے ذمہ دار پاکستان پر مسلط حکمران ہیں اس رپورٹ کے بارے میں جب اسلام اباد میں کانفرنس کے دوران کسی صحافی نے وزیر خزانہ سے سوال کیا تو وزیر خزانہ نے ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے سوال کا جواب ہی گول کر دیا ہے۔
مزدور کی تنخواہ 37 ہزار روپے مقرر ہوئی تھی جبکہ صورتحال یہ ہے کہ مزدور کی تنخواہ 37 ہزار پر عمل درامد ہی نہیں کیا گیا کوئی ضلع بھی مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جہاں پرائیویٹ اداروں میں ملازمین کو 37 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے یہ 37 ہزار روپے کا جو فارمولا تھا یہ پچھلی حکومتوں کا تھا اب اس بجٹ میں وزیر خزانہ نے مزدور کی تنخواہ میں اضافے کا کوئی ذکر تک نہیں کیا ہے اسلام اباد میں ایک پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے سوال کیا کہ اپ نے مزدور کی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا تو وزیر خزانہ کا ایک بونڈا سا جواب سن لیں کہ مزدور کی تنخواہ کے اضافے کے سلسلے میں سند کاروں اور سرمایہ داروں نے ا ناراضگی کا اظہار کیا ہے انہوں نے منع کیا ہے اس لیے ہم نے مزدور کی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا یہ ہیں ہمارے حکمران یہ ہیں ہمارے اوپر مسلط وہ لٹیرے حکمران جو مختلف شعبوں کے لوگوں کی پریشر پر عوام کو وسائل دیتے ہیں اور جب مسائل دینے ہوں تو خود بنڈل بنا کے مسائل پر مسلط کرتے ہیں عجیب منطق ہے کہ مزدور کی تنخواہ بڑھانے کے لیے پہلے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں سے مشاورت کی جاتی ہے۔
حکومت کا ایک کارنامہ دیکھیے کہ یہ لٹیرے حکمران جو ملک پر مسلط ھو کر دنیا جہان کی مراعات حاصل کرتے ھیں۔ خزانے لوٹتے ھیں۔ اپنی جائیدادیں بناتے ھیں۔ نسل در نسل حکمرانی کرتے ھیں انہوں نے اس بجٹ میں بیوہ سے پنشن لینے کا حق ھی چھین لیا ھے۔ اس مثالی ظالمانہ اقدام پر وزیر خزانہ جو پاکستان کا کوئی قومی اعزاز دینا چاھیے۔ آخر میں سن لیجیے ایک عدالت اوپر بھی لگنی ھے جہاں کوئی وکیل نہیں ھو گا کوئی دلیل نہیں سنی جائے گی۔ تیرا کیا کرتا سب سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ اور تم کو صرف تمہارا اعمال نامہ دکھا کر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ وہ عدالت تیری دنیا کی عدالت نہیں ھو گی۔ وہاں تمہارا مال تمہاری دولت تمہاری اولاد تمہارا دنیاوی اثر ورسوخ کچھ کام نہیں آئے گا۔