تاریخ گواہ ہے کہ جب الفاظ صف آرا ہوتے ہیں تو محاذوں پر کھڑے سپاہیوں کے حوصلہ بلند ہو جاتے ہیں۔ تاریخ نے ہمیشہ ان قلم کاروں کو عزت بخشی ہے جو الفاظ کو زبان کی زینت بناتےاور قوم کے ضمیر کو جگانے کا وسیلہ بناتے ہیں۔ ایسے افراد جو درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ تحریر کے ذریعے نئی نسل کی فکری تربیت بھی کرتے ہیں۔ وہی اصل میں قومی معمار ہوتے ہیں۔ ان کی خدمات وقت کے دھارے میں جذب ہو کر قوم کی فکری بنیادیں مضبوط کرتی ہیں اور ان کا نام تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف سے رقم ہوتا ہے۔
عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ بلوچستان ایک پسماندہ اور دور افتادہ صوبہ ہےجہاں تعلیمی و فکری سرگرمیاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں محدود ہیں۔ تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بلوچستان وہ زرخیز مٹی ہے جس نے ایسے اہلِ قلم، صاحبانِ شعوراور بافکر شخصیات کو جنم دیا ہے جو علمی و ادبی میدان میں نہ صرف فعال ہیں بلکہ ان کی فکری پرواز، قومی شعور اور ادبی ذوق کسی بھی ترقی یافتہ صوبے سے کم نہیں۔ان کا قلم ثابت کرتا ہے کہ ذہنی قابلیت، فکری بلوغت اور قومی وابستگی جغرافیہ یا سہولتوں کی مرہونِ منت نہیں بلکہ یہ اندر کی آگ سے پھوٹنے والے وہ چراغ ہیں جو ہر ماحول میں روشنی دیتے ہیں۔انہی قلم کے مجاہدوں میں ایک روشن نام نوجوان لکھاری ،مصنف جناب “حفیظ اللہ خان” کا ہے۔جنہوں نے تعلیم و تدریس کے میدان سے آگے بڑھ کر قلم کے ذریعے حب الوطنی کا پیغام عام کیا۔
اقبال نے خوب کہا ہے:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
جناب حفیظ اللہ خان سے پہلا تعارف محترم ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم کے توسط سے ہوا جو خود نظریۂ پاکستان کے سچے داعی اور علمی حوالوں سے مالامال شخصیت تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف ان کی علمی خدمات کو سراہابلکہ زندگی کے آخری لمحات تک ان کا ذکر فخر سے کرتے رہے۔
خان صاحب پیشے کے لحاظ سے معلم ہیں۔ وہ قلم کو بھی ایک امانت سمجھتے ہیں۔ان کا قلم دینیات، تعلیم، اخلاق، سائنسی، کردار سازی، حب الوطنی شعور پر یکساں مہارت سے روشنی ڈالتا ہے۔ ان کے موضوعات متنوع ہیں مگر مرکز ایک ہی ہے۔پاکستان اس کی نظریاتی اساس اور اس کی نئی نسل کی تعمیرہے۔
ان کے قلم کی زرخیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔حالیہ دنوں میں ان کی دو اہم تصانیف منظرِ عام پر آئیں۔ایک پاک بھارت جنگ کے تناظر میں لکھی گئی تحقیقی کتاب “آپریشن بنیان مرصوص “اور دوسری “محبتِ وطن کی داستان” جس پر یہ کالم تحریر کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں ان کی کتاب “پاک بھارت جنگ میں اسرائیل کہاں کھڑا ہے؟” ایک منفرد اور بروقت تجزیہ ہے جس میں بین الاقوامی سیاست کو قومی زاویے سے دیکھا گیا ہے۔
“محبتِ وطن کی داستان” ایک ایسی تحریر ہے جو محض معلوماتی یا نعرہ بازی پر مبنی نہیں بلکہ فکری سطح پر قاری کو جھنجھوڑتی ہے۔ کتاب کا اسلوب سادہ لیکن دل پر اثر کرنے والاہے۔ مصنف نے بڑے خیالات کو چھوٹے جملوں میں یوں سمیٹا ہے کہ ہر لفظ قاری کے ذہن میں دیر تک گونجتا ہے۔ ان کے ہاں بچوں کے ذہنوں میں حب الوطنی کا بیج بونے کی سوچ بھی ہے نوجوانوں کو کردار، سچائی اور خودداری کا درس دینے کی فکر بھی اور عام شہری کو وطن سے جڑنے کا شعور دینے کی تڑپ بھی۔
کتاب کے ابتدائی ابواب میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ کیا ہم واقعی اس وطن سے محبت کرتے ہیں جس کا ہم دم بھرتے ہیں؟ کیا ہمارے نعرے، ہماری عملی زندگی سے مطابقت رکھتے ہیں؟ صفحہ بہ صفحہ قاری اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہی اس کتاب کی کامیابی ہے یہ صرف متأثر نہیں کرتی بلکہ محاسبہ بھی کرواتی ہے۔
یہ تحریر درسی کتابوں کے دائرے سے نکل کر دل و دماغ کی گہرائیوں میں اترتی ہے۔ خاص طور پر جب مصنف ایک استاد کی حیثیت سے حب الوطنی کے عملی تقاضوں کا ذکر کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے جیسے ایک معلم صرف سبق نہیں، سلیقۂ زیست بھی سکھا رہا ہے۔
کتاب کے بعض حصے تو ایسے ہیں جہاں حیرت کے ساتھ خوشی بھی ہوتی ہے۔ خصوصاً یہ جان کر کہ بلوچستان جیسے علاقے سے تعلق رکھنے والا یہ استاد جو اس وقت امریکہ نیو جرسی کے چارٹر کمیونٹی اسکول میں ان لائن تدریس کے فرائض انجام دے رہا ہےاوراپنے وطن کی مٹی کے لیے اتنی پراثر اور پختہ تحریر لکھ رہا ہے۔ یہ حقیقت اس مٹی کی زرخیزی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ سعادت قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور کو حاصل ہے کہ اس نے “محبتِ وطن کی داستان” جیسی فکر انگیز اور بیدار کن کتاب کو زیورِ طباعت سے آراستہ کیا۔ فاؤنڈیشن ہمیشہ سے اُن تحریروں کو ترجیح دیتی ہے جو قوم کے فکری سرمائے میں مثبت اضافہ کریں اور اس کتاب کی اشاعت بھی اسی تسلسل کا خوبصورت مظہر ہے۔