افسوس! تم استاد ہو ۔۔۔ تحریر : ارم غلام نبی

میں اس دور کے معیارِ تعلیم سے خوف زدہ ہوں ، اب مجھے ایک مزدور اور ایک استاد میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
میں جب چھوٹی تھی تو میرے والدین کہتے تھے استاد بڑے ادب و احترام کے حامل ہوتے ہیں، ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کرنا ورنہ گناہ ملے گا، تم ناکام ہو جاؤ گے ، استاد سے بے ادبی سے بات نہ کرنا ، تمہیں سبق نہیں آئے گا۔
میری استانی کہتی تھی جو استاد کی عزت نہیں کرتا ناکامی اس کا مقدر بن جاتی ہے(پھر ایک لمبی کہانی سننے کو ملتی)۔ میں اکثر اپنے ٹیچرز کی وہ باتیں اپنی بکس میں لکھ لیا کرتی تھی۔
اور اگر دینِ اسلام کی روح سے بھی دیکھا جائے تو ایک معلم کا عزت و احترام اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔
مجھے بتایا جاتا تھا کہ پڑھے لکھے ، علم والے انسان بہت عزت کے حقدار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی معاشرہ بڑی عزت کرتا ہے۔
میرے دل میں کہیں نہ کہیں استاد کے شعبہ سے محبت پیدا ہونے لگی۔ میں اکثر سکول کے بعد اپنے اردگرد بچوں کو جمع کرتی اور ان کو پڑھاتی حتی کہ مجھے تب اُردو بھی پڑھنی نہیں آتی تھی۔ میں لوگوں سے سنا کرتی تھی، معلمیت ایک پیغمبری پیشہ ہے۔
اور پھر کیا ، میں نے اسے پانے کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ (میرا اشارہ گورنمنٹ ٹیچر بننے کی طرف ہے)
مگر آج جب میں اس عہدے پہ فائز ہو (ایک پرائیویٹ ٹیچر کی صورت) تو مجھے لگتا ہے کہ میرے والدین غلط کہتے تھے اور میرے ٹیچرز مجھے جھوٹی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔
میں اس شعبے میں آئی تو مجھے پتا چلا کہ استاد کی تو کوئی عزت ہی نہیں ہوتی۔
استاد تو ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
معلمیت تو مزدوری کی ایک دوسری شکل ہے۔
یہ بات ایک طرف مگر اب تو طالب علم کیا ، آس پاس موجود پڑھے لکھے لوگ تک عزت نہیں دیتے۔
یہ انسانوں کو کیا ہو گیا ہے؟
روکے ! میں آپ کو ایک مثال سے سمجھاتی ہوں ۔
اپریل کی ایک خوبصورت صبح ایک ٹیچر اپنے وقت کا خیال کرتے ہوئے پانچ منٹ پہلے اپنے سٹاپ پر آ کر کھڑا ہو جاتا ہے ، پھر وین آتی ہے اور اسے سکول پہنچا دیتی ہے۔ وہ اپنے معمول کے مطابق پندرہ بیس منٹ پہلے سکول پہنچ جاتا ہے۔ پھر ایک دن وہ اپنی کلاس میں جا ہی رہا ہوتا ہے کہ اچانک اسے سکول میں کام کرنی والی خاتون، رکنے کا اشارہ دیتی ہے جس کی وجہ سے وہ وہی رک کر اس کی بات سننے لگتا ہے پھر وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہے اور اسے کچھ دیکھانے کی نیت سے دوسرے ٹیچر کے پاس لے جاتی ہے۔ اب وہ استاد ادب کے مارے اسے روک بھی نہیں سکا۔ (یہ حالات مختلف بھی ہو سکتے ہیں ، مین پوائنٹ کسی وجہ سے دو منٹ لیٹ ہونا ہے) ابھی پانچ منٹ باقی تھے کہ وہ جلدی سے کلاس کی جانب بڑھتا ہے کہ اتنے میں سکول کی کوآرڈینیٹر اسے دیکھتے ہی بڑے سخت لہجے میں کہتی ہے! آپ کو سنائی نہیں دیتا ، بل ہو چکی ہے اور آپ ابھی تک کلاس میں نہیں پہنچے ( یہ بات آرام سے بھی کی جاسکتی تھی مگر آج میڈیم زرا پہلے ہی غصے میں تھی ، اس لیے سامنے والی کی سیلف ریسپکٹ گئی بھاڑ میں )۔ اب یہ بات ٹیچر کو بھی بہت بری لگی اور ان دونوں میں مختصر سے سی بحث ہو گئی(سامنے صوفے پہ دو ٹیچرز بھی موجود تھے جو یہ سب دیکھ رہے تھے)
اس کے بعد استاد اپنی کلاس میں چلا جاتا ہے مگر اب اس کی مینٹل ہیلتھ وہ نہیں رہتی جو وہ گھر سے لے کر آیا تھا۔ (دو ٹیچرز کے سامنے کسی تیسرے سے ایسے بات کرے گے تو بات تو بری ہے)
اب وہ سارا دن سوچتا رہتا ہے کہ میں ایک ٹیچر ہوں ، انہیں ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ میں خود کو قابلِ عزت سمجھتا ہوں ، میں نے اتنی تعلیم اس لیے تو حاصل نہیں کی تھی، وہ مجھے آرام سے بھی کہہ سکتی تھی۔ کہیں نہ کہیں اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں مگر وہ انہیں چھپا لیتا ہے۔ ایک بات یاد رکھیں انسان کو اپنی عزت بہت پیاری ہوتی ہے۔ وہ اگر کہیں گر جائے نا ، تو پہلے ادھر ادھر دیکھتا ہے کہ کہیں کسی نے مجھے گرتے ہوئے دیکھ تو نہیں لیا۔
اب وہ استاد اپنا سارا دن بڑی بے قراری اور اذیت میں گزارتا ہے۔ اب اس کی مینٹل ہیلتھ بگڑ چکی ہے مگر اس نے بچوں کو کام اچھے سے کروانا ہے۔ چاہے خود اندر سے غم سے اہلکان ہو رہا ہو۔
اس مثال سے آپ لوگ کیا سمجھے ؟ کیا آج کل ہمارے معاشرے میں بلکل اسی طرح ٹیچرز کی سیلف ریسپکٹ کو مختلف طریقوں سے ٹھیس نہیں پہنچائی جا رہی ؟
بدقسمتی سے کچھ ہی ٹیچرز ایسے ہیں جو سیلف ڈیفنس جانتے ہیں ، جو منہ توڑ جواب دے کر خود کو ذہنی اذیت سے بچا لینے میں ماہر ہیں۔مگر زیادہ تر تو اپنی مینٹل ہیلتھ کھو ہی دیتے ہیں۔
اُس معاشرے میں ایک طالب علم استاد کو کیا عزت دے گا جہاں خود پڑھے لکھے انسان استاد کو عزت دینا پسند نہیں کرتے۔ ان میں سے زیادہ تر تو حسد کا شکار ہو کر دوسرے کی جڑیں کاٹنے لگتے ہیں۔
ایک اور چیز جو ہمارے معاشرے کو دیمک بن کر لگ گئی ہے ، وہ یہ ہے کہ آپ نے تعلیم حاصل کرنے کی خاطر کتنی راتیں جاگ کر گزاری ، یہ کوئی نہیں دیکھے گا ، آپ کتنی کم سیلری میں کام کر سکتے ہیں؟ یہ سوال آپ سے ہر جگہ پوچھا جائے گا۔ معذرت کے ساتھ ان پرائیویٹ اداروں کو ایک بہت ہی قابل ٹیچر بہت کم سیلری میں چاہیے ہوتا ہے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔۔۔
ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ بادشاہوں کے بیٹے جھونپڑوں میں رہنے والے استادوں سے علم حاصل کرنے کے لیے کئی کئی ماہ اور کئی کئی سال ان کے گھروں میں رہا کرتے تھے۔اور وہاں ان کے پاؤں بھی دھویا کرتے اور ان کی خدمت کر کے علم حاصل کرتے اور علم بھی ایسا کہ دنیا انہیں ابھی تک یاد رکھے ہوئے ہے۔ مگر ایک آج کا استاد ہے جیسے عزت ملنا تو دور کی بات بلکہ وہ یہ دعا کر کے گھر سے نکلتا ہے کہ یا اللہ آج بھی عزت رکھ لینا کہیں سٹوڈنٹس زیادہ زلیل نہ کر دیں۔
اور یہ چند باتیں جو اسے ہر دوسرے دن یاد دلائی جاتیں ہیں۔

آپ کرسی پر نہیں بیٹھ سکتے ، بیٹھ کر تعلیم دی نہیں جا سکتی۔ (بجائے اس کے کہ آپ کہے بچوں کا راؤنڈ لگانے کے بعد اگر تھک جائے تو ایک دو منٹ کے لیے بیٹھے اور پھر کھڑے ہوکر بچوں کا راؤنڈ لیں )

خیال رہے کہ لیکچر سے ایک سیکنڈ کے لیے بھی لیٹ نہیں ہونا ورنہ آپ کام چھوڑ استاد کہلاے گے۔

یہ بات یاد رکھیں آپ اتنے قابل نہیں جتنی آپ کو سیلری دی جارہی ہے۔

ایک سال کا agreement کرے گے اور اس ماہ کی سیلری سیکورٹی کے طور پر رکھے گے ، آپ کو ماننا پڑے گا کیونکہ آپ کو جاب کی ضرورت ہے ، ہمیں ٹیچر کی نہیں۔
آپ نے یہ کام خراب کر دیا ہم آپ کو سکول سے نکال رہے ہیں ، آپ کل سے نہ آئے۔ (بندہ پوچھے اب agreement کدھر ہے؟ )
اوہو! مجھے تو اسی سبجیکٹ کا ٹیچر دو ہزار کم سیلری میں مل رہا ہے ، میں ایسے کرتا ہوں ، اسے نکال دیتا ہوں اور دو ہزار کم والا رکھ لیتا ہوں۔
آپ ایک ماہ میں ایک چھٹی کر سکتے ہیں ، زیادہ کی تو سیلری کاٹ لیں گے (کیا وہ کاٹی جانی والی سیلری اُس ٹیچر کو دیتے ہیں جس نے اس کے نہ آنے پر دونوں کلاسیں پڑھائی تھی ؟؟ پھر وہ رقم خود کیوں رکھتے ہیں؟)
کسی بھی سکول کے رول پڑھ لیں ، آپ کو ایک بھی رول ٹیچر کے حق میں نظر نہیں آئے گا۔ تین چار صفات کے رولز میں یہ بات شامل کیوں نہیں کرتے کہ ہم بھی ایک سال تک ٹیچر کو نکالنے پر اختیار نہیں رکھے گے۔ جب چاہے کسی کا بھی روزگار بند کر کے اس انسان کو ذہنی اذیت دینے کا حق اپنے پاس کیوں رکھتے ہیں؟ (میں یہ سب کچھ اپنے لیے نہیں لکھ رہی بلکہ میرا مدعا ہر اس انسان کے آواز بلند کرنا ہے جو اس عہدے پر فائز ہے)
یہ سب رولز ایک طرف ، کچھ کمیاں اُن ٹیچرز میں بھی ہیں جو اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھاتے ، جو زلیل ہونے کے باوجود منہ توڑ جواب نہیں دیتے کہ کہیں ہمارا روزگار نہ چھن جائے۔ اللہ کی قسم ! رزق کا وعدہ اللّٰہ نے کر لیا ہے ، تم اس سے دور بھاگ کر کسی غار میں بھی چھپ جاؤ تو وہ وہاں بھی تمہارا رزق تمہیں پہنچا دے گا۔
اللّٰہ کے سوا کسی سے مت ڈرو۔ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا بھی عبادت ہے۔ اتنی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مظلوموں کی سی زندگی مت گزاروں۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں