*پینتیس برس کا یہ سفر آسان نہ تھا مصیبتیں، قید و بند — سچائی، خدمت اور عزم کا عہد*
از قلم : (محمد احسان مغل)
تاریخِ پیدائش: 27 اکتوبر 1990
*زندگی کی کہانی — کانٹے، روشنی اور عزم*
سب سے پہلے اللّٰہ کا شکر ادا کرتا ہوں، جس نے مجھے 35 سالہ عزت کی زندگی عطا فرمائی، اس کے بعد کالم پڑھنے والے آپ تمام احباب کی خدمت میں اسلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، زندگی کی راہ کبھی ہموار نہیں ہوتی، یہ کبھی خوشیوں کے رنگ بکھیرتی ہے تو کبھی دکھوں کی بارش میں بھگو دیتی ہے، مگر اصل انسان وہی ہے جو ہر طوفان کے بعد خود کو پھر سے سنبھالے، اٹھے اور چلتا رہے، میں جب اپنی زندگی کے پینتیس برس مکمل ہونے پر ماضی کی طرف دیکھتا ہوں، تو مجھے وقت کے نہیں، بلکہ حوصلے، صبر اور سچائی کے نقوش نظر آتے ہیں، ہر موڑ، ہر زخم اور ہر تجربہ نے مجھے ایک نیا سبق دیا، کہ انسان گرتا تو ہے، مگر تب تک نہیں ہارتا جب تک ہار مان نہ لے، اللّٰہ کا یہ بھی شکر ادا کرتا ہوں، اس پاک پروردگار نے میرے اندر ہار ماننے کی صلاحیت ہی نہیں پیدا کی،
*ابتدائی سفر — خواب، جدوجہد اور تلخ حقیقتیں*
میرا سفر 2010-11 سے شروع ہوا، جب میں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد خوابوں کے ساتھ عملی زندگی میں قدم رکھا۔ کاروبار کیا، محنت کی، دن رات ایک کیا، مگر جلد ہی حقیقت نے دکھایا کہ کامیابی صرف ارادے سے نہیں، قربانی سے ملتی ہے، کبھی حالات نے دیوار بن کر روکا، کبھی قسمت نے دھوکا دیا، اور کبھی اپنوں نے پیٹھ دکھائی، مگر میں نے ہمت نہیں ہاری، میں نے ہر ٹھوکر سے سبق لیا اور خود کو مضبوط تر بنایا، یوں ہی وقت گزرتا رہا،
*الزامات، مقدمات اور صبر کی آزمائش*
پھر زندگی نے کچھ رخ بدلہ اور زندگی میں ایک موڑ پر میرے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے، کردار کشی کی گئی، دباؤ ڈالا گیا، اور سچ بولنے کی سزا دی گئی، اور یہ سب کچھ کرنے والے بھی اپنے تھے، جو کے زمین کے ٹکروں کے بھوکے تھے، جنہوں نے مجھ پر جھوٹے مقدمات درج کروائے، میری نظر میں جائیداد کی مال و دولت کی کوئی وقعت نہیں، میرا مقصد صرف حق اور سچ پر ڈٹنا اور انصاف لینا تھا اور اپنے پر بنائے تمام مقدمات کو جھوٹا ثابت کرنا تھا، میں نے عدالتوں کے چکر کاٹے، جھوٹے مقدمات کا الحمداللّٰہ ڈٹ کر سامنا کیا، مگر ضمیر کے آگے کبھی نہیں جھکا، میں نے سمجھا اور سیکھا کہ سچ بولنے والا اکیلا ضرور رہتا ہے، مگر ہارتا کبھی نہیں، کیونکہ جیت ہمیشہ سچائی کی ہی ہوتی ہے، اور کئی سالوں تک جھوٹے مقدمات کا سامنا کرتا رہا، قید و بند کاٹی لیکن اپنے حق اور سچ پر ڈٹا رہا، وقت گزرتا رہا کئی سالوں کی جدو جہد کے بعد الحمداللّٰہ سچ کی فتح ہوئی لیکن تب جا کر جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بہت کچھ کھو چکا تھا، لیکن پھر بھی گر کر اٹھنا اور پھر چلنا یہ ہی تو مردانگی ہے، شاید یہ لفظ میری تربیت میں شامل تھے، اسلئے میں آگے بڑھا اور نئے سرے سے زندگی جینے کا فیصلہ کیا،
*احساس کا جنم — عوام کے دکھ اور صحافت کا راستہ*
جب میں نے مشکلات، مصیبتیں اور موت کو بہت قریب سے دیکھا تو ان ہی دنوں میں ایک شدید احساس میرے دل میں پیدا ہوا، میں نے دیکھا کہ اس ملک کی عوام بے بس ہیں، ان کے مسائل ان کی چیخوں کی طرح دبا دیے جاتے ہیں، میں نے سوچا، اگر میں اپنی آواز ان کے لیے استعمال نہ کروں، تو میری زندگی بے معنی ہے، تب میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی توانائیاں عوام کے لیے، ان کے حقوق کے لیے، اور سچ کی بقا کے لیے وقف کروں گا، جیسے میں نے اپنے لیے انصاف حاصل کیا اسی طرح ہر پاکستانی کے انصاف کی خاطر لڑوں گا، یوں میں نے صحافت کا راستہ اختیار کیا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کے پاکستانی عوام کی ترجمانی اور انصاف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے عوامی خدمت کے لیے صحافت پاکستان کا چوتھا ستون ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ذریعہ ہے، ایک ایسا راستہ جو مشکل ضرور ہے مگر باوقار بھی ہے،
*قلم سے انقلاب تک — نیشنل یونین آف جرنلسٹس کی بنیاد*
2017-18 میں میں نے صحافت میں قدم رکھا، اور جلد ہی محسوس کیا کہ قلم اگر ایماندار ہو تو وہ کسی بھی تخت کو ہلا سکتا ہے، اور یہاں یہ بھی محسوس کیا کے یہاں پاکستانی عوام کے ساتھ صحافی بھی ظلم اور بربریت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں پھر میں نے طے کیا کہ صحافیوں کو ان کا جائز مقام دلایا جائے، ان کے حقوق کا دفاع کیا جائے، اور عوام تک سچ پہنچانے کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے جو دباؤ سے آزاد اور ضمیر سے جڑا ہو، پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ میں نے جرنلزم کی تعلیم حاصل کرنے کا سوچا اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف جرنلزم اسلام آباد (رجسٹرڈ) میں داخلہ لیا، سال 2021 میری زندگی کا بہترین سال تھا، جب میں نے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف جرنلزم اسلام آباد (رجسٹرڈ) سے جرنلزم کی ڈگری لی، جس کے بعد میں نے اپنی صحافی تنظیم وجود میں لانے کا فیصلہ کیا اور یوں وجود میں آئی نیشنل یونین آف جرنلسٹس (National Union of Journalists) — اس تنظیم کو وجود میں لانے کے بعد مجھے بہت مشکلات، پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا رہا لیکن یہ سب میں ماضی میں بھی دیکھ چکا تھا اسلئے میں ڈٹا رہا اور اپنے شفاف مقصد میں لگا رہا، نیشنل یونین آف جرنلسٹس ایک تحریک، ایک نظریہ، ایک مقصد آج، الحمدللّٰہ، یہ تنظیم پورے پاکستان میں ایک معیار، ایک نام اور ایک اعتماد بن چکی ہے، پاکستان کی صحافی برادری اور پاکستانی عوام کے مسائل کے ازالہ اور خدمت میں پیش پیش ہے، لیکن یہ مقام آسانی سے نہیں ملا، میں نے دھمکیاں سہیں، مخالفت برداشت کی، وسائل کی کمی دیکھی، مگر اپنے مقصد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا، میں نے سیکھا کہ جب نیت خالص ہو تو اللّٰه راستے خود بناتا ہے،
*عوام کا درد — میری زندگی کی پہچان*
میں نے ہمیشہ عوام کا درد محسوس کیا، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کے میرا ماضی مشکلات اور مصیبتوں سے گھیرا ہوا تھا، میں ماضی میں یہ سب برداشت کرچکا تھا، میں نے دیکھا کہ جب کوئی مزدور پسینے میں شرابور ہو کر بھی بھوکا سوتا ہے، جب کوئی ماں اپنے بچے کے علاج کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتی ہے، اور جب کوئی نوجوان صرف انصاف مانگنے کی پاداش میں دھکے کھاتا ہے، تو یہ سب صرف خبر نہیں ہوتے، یہ میرے دل کے زخم ہیں، کیونکہ ماضی میں مجھ پر یہ وقت گزر چکے ہیں، اسی لیے میں نے قلم کو ہتھیار بنایا، عوام کے حق میں، ان کے وقار کے لیے، میں نے ان کے مسائل کو اجاگر کیا، ان کے دکھوں کو اپنی تحریر میں سمویا، اور ہر اس آواز کے لیے لڑا جو دبائی گئی، اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر الحمدللّٰه ہمیشہ حق اور سچ کا علم بلند کیا،
*عہد اور وعدہ — خدمتِ خلق میری زندگی*
آج اپنے جنم دن 27 اکتوبر 2025 کے دن، میں ایک نیا عہد کرتا ہوں، میں اپنے تمام صحافی بھائیوں، دوستوں اور ساتھیوں سے وعدہ کرتا ہوں، کہ میں ماضی کی طرح ہی ہمیشہ ان کے شانہ بشانہ رہوں گا، میں نیشنل یونین آف جرنلسٹس کے پلیٹ فارم سے صحافیوں کے حقوق، آزادیٔ اظہار، اور عوام کی خدمت کے مشن کو مزید وسعت دوں گا، میں عوام کا سپاہی ہوں، ان کے لیے لکھتا ہوں، ان کے لیے بولتا ہوں، اور ان کے دکھوں کو محسوس کرتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ یہ راستہ آسان نہیں، مگر میں نے خدمتِ خلق کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہے، کیونکہ جب انسان دوسروں کے لیے جیتا ہے، تبھی اس کی زندگی معنی رکھتی ہے،
*اختتامیہ صحافت میرا ذریعہ معاش نہیں — قلم میرا کبھی جھکے گا نہیں*
صحافت میرا پیشہ نہیں میرا جنون کے پیشہ سے میں ایک بزنس مین ہوں، صحافت میں آنے کا مقصد صرف اور صرف عوامی خدمت، عوام کے لیے انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہے، کاروبار زندگی گزارنے کے لیے کرتا ہوں اور صحافت اپنی آخرت سنوارنے کے لیے کرتا ہوں، میری زندگی کا یہ پینتیس برس کا یہ سفر آسان نہ تھا، مگر باوقار ضرور رہا، میں نے زخموں میں طاقت دیکھی، تنہائی میں حوصلہ پایا، اور ہر آزمائش کو اپنی کامیابی کا زینہ بنایا، آج میرا ایمان ہے کہ اگر نیت سچی ہو تو کوئی طوفان راستہ نہیں روک سکتا، یہ کالم میرے جنم دن کے موقع پر میرا، خود سے ایک عہد ہے، کہ میرا قلم کبھی جھکے گا نہیں، میری آواز کبھی رُکے گی نہیں، اور میرا سفر ہمیشہ سچ، انصاف، اور عوام کی خدمت کے لیے جاری رہے گا، انشاءاللّٰه، اللّٰہ رب العزت آپ کا میرا ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین یارب العالمین
*میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر*
*لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا*


