پیرس : پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں سو سےزیادہ افراد گرفتار

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کانفرنس کے آغاز سے قبل دنیا کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے جارہے ہیں۔

پولیس کا مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال
پولیس کا مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال

ان مظاہروں میں مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے ناگزیر اقدامات کیے جائیں۔
اس حوالے سے دنیا بھر میں 2000 سے زائد تقریبات منعقد کی گئیں۔
خیال رہے کہ پیرس میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کانفرنس کے موقعے پر سکیورٹی ہائی الرٹ ہے اور اس کانفرنس میں 150 ممالک کے سربراہان شرکت کر رہے ہیں۔
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں اس دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان کشیدگی بھی ہوئی، جس کے بعد پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا۔
اطلاعات کے مطابق ایک سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
فرانسیسی میڈیا کے مطابق پولیس مرکزی پلیس ڈی لا ریپبلک سے لوگوں کو ہٹا رہی ہے۔ پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپیں بھی اسی مقام پر ہوئی تھیں۔
11 دسمبر تک جاری رہنے والی کانفرنس میں تقریبا 40 ہزار افراد شرکت کریں گے۔

image
اقوام متحدہ کی اس کانفرنس کو COP21 کا نام دیا گیا ہے، جس میں کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کسی متفقہ معاہدے پر پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کانفرنس کے موقعے پر دنیا بھر میں ہزاروں افراد ریلیاں اور احتجاج کر رہے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ عالمی حدت میں اضافے کو روکنے کے لیے کسی معاہدے پر اتفاقِ رائے قائم کیا جائے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پیرس میں ہونے والے حالیہ حملوں کے بعد کانفرنس میں معاہدے طے پا جانے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
11 دسمبر تک جاری رہنے والی کانفرنس میں تقریباً 40 ہزار افراد شرکت کریں گے۔
کانفرنس کے آغاز پر 147 ممالک کے سبراہانِ مملکت شرکت کر رہیں جبکہ اس سے قبل سنہ 2009 میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ہونے والی کانفرنس میں مدوبین متفقہ معاہدے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔
پیرس میں ہونے والی اس کانفرنس میں امریکی صدر براک اوباما اور چین کے صدر شی جن پنگ بھی پہنچ رہے ہیں۔ پیرس میں ہونے والے حالیہ حملوں کے بعد فرانس کی حکومت نے کہا تھا کہ پیرس کی عوام سے یکجہتی کے لیے زیادہ سے زیادہ افراد کانفرنس میں شرکت کریں۔
کانفرنس میں کسی معاہدے پر پہنچنے کے حق میں دنیا بھر میں لاکھوں افراد ریلیوں میں حصہ لیں گے۔

image
مالدیپ سے تعلق رکھنے والے مندوب امجد عبداللہ کا کہنا ہے کہ ’مجھے لگ رہا ہے کہ کسی ڈیل تک پہنچنے کے امکانات روشن ہیں کیونکہ مختلف لوگوں سے بات کرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔‘
برطانیہ کے سابق مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ٹام برکی کا کہنا ہے کہ بعض رہنما یہ کہیں گے کہ عالمی حدت میں اضافے پر قابو پانے سے ہم دہشت گردی کی وجوہات کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔
’گو کہ خاطر خواہ اختلافات ہیں لیکن اس کانفرنس کے موقعے پر مجموعی رجحان بہت مثبت ہے۔‘ کسی بھی معاہدے تک پہنچنے میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ معاہدے میں کیا ہونا چاہیے۔
مثال کے طور پر امریکہ کسی بھی ایسے معاہدے پر رضا مند ہو گا، جس میں کوئی حتمی مدت ہو، کیونکہ سینیٹ میں ریپبلکنز کی اکثریت ہے اور ڈیموکریٹس کے لیے معاہدے کی منظوری مشکل ہو جائے گی۔
امریکہ کے مذاکرات کار نے چند روز قبل نیوز بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ‘ہم ایک معاہدے کے متلاشی ہیں جو وسیع ہو اور اس میں سب کی شراکت ہو۔‘
’ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ معاہدے میں ملکوں کو قانونی طور پر پابند کرنے سے بہت سارے ممالک اس میں شرکت کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔‘
بہت سارے ترقی پذیر ممالک بشمول یورپی یونین اس سے اختلاف کرتے ہیں۔
یورپی یونین کے کمشنر میگوئیل آریاس کینے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم نے جس طرح کا جذبہ پیرس کی سڑکوں پر دیکھا ہے اس کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے، قانونی طور پر پابند کرنے کا معاہدہ کرتے ہوئے۔‘
ماحولیاتی تبدیلی کی کانفرنس میں کسی معاہدے پر پہنچنے کے حق میں دنیا بھر میں لاکھوں افراد ریلیوں میں حصہ لیں گے۔
اقوام متحدہ کی اس کانفرنس کے موقعے پر دنیا کے 180 ممالک میں دو سو سے زیادہ احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالیں جائیں گی۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ عالمی حدت میں دو ڈگری تک اضافے کی سطح پر پابندی لگائی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں