جنت نظیر آنچل کا انگ انگ لہو لہو: عبدالرحمن

تحریر : عبدالرحمن
تحریر : عبدالرحمن

خدائے اعلیٰ و برتر وہ ذات ہے جس کے نام کی عظمت کی کوئی انتہا نہیں ، تو جس کریم و رحیم رب کے نام کے کی عظمت کی کوئی انتہا نہیں ،میں اسی رب کے نام سے ابتدا کرتا ہوں۔
ُْْجب تک نہ جلیں دیپ شہیدوں کے لہو سے
کہتے ہیں کہ جنت میں چراغاں نہیں ہوتا

قومیں پیداہوتیں ہیں مٹ جاتی ہیں،بستیاںآبادہوتی ہیں اجڑجاتی ہیں،تہذیبیں نکھرتی ہیں دھندلا جاتی ہیں، شخصیتیں پیدا ہوتی ہیں مرجاتی ہیں ،داستانیں مرتب ہوتی ہیں مہو ہو جاتی ہیں۔ یہ عمل ابتدائے خلق سے جاری ہے اورانتہائے خلق تک جاری رہے گا۔لیکن کچھ الم ناک داستانیں رقم ہوتی ہیں جو تاریخ کے سینے پر نقش ہو جاتی ہیں ،ایسی ہی ایک الم ناک داستان رقم ہوئی جب سولہ دسمبر کو سات درندہ نما دہشتگردوں نے اے پی ایس پر دھاوا بولا ۔وہ سکول کی عقبی دیوار سے سکول میں داخل ہوئے اور ایک سو چوبیس دلاروں کو ان کی ماؤں سے الگ کر دیا۔ لیکن یہ دہشتگردی ہمارے جواں مردوں کے ارادوں کو مدعوم نہ کر سکی۔شاید وہ جانور یہ نہیں جانتے تھے کہ یہاں اقبال کے وہ شاہین بسیرا کیے ہوئے ہیں جو یہ جانتے اور مانتے ہیں۔ کہ:
شہادت ہے مطلوب ،مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
پاک فورسز نے وہاں پر پہنچ کر ان درندوں کو جہنم واصل کر دیا۔اس واقع کے بعد بکھری اور بٹی ہوئی قوم یکجا ہو گئی۔
اب میں بیان کرناچاہوں گا کہ آخر یہ کون لوگ تھے ؛جنہوں نے کربلا کو دھرانے کی کوشش کی ؟وہ کون تھے جنہوں نے ان معصوموں کو موت کی بھینٹ چڑھادیا؟ یہ ہر گزمسلمان نہیں ہو سکتے۔ان کو مسلمان تو دور انسان کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔کیا یہ اسلام کے طالبعلم اور شہادت کے طالب ہو سکتے ہیں ؟ہر گز نہیں۔۔۔
شہادت تو گۂ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
مہمیں نے بہت سوچا کہ آخر قدرت نے اس واقع کو رونما ہونے ہی کیوں دیا؟اے آسمان ٖ!یہ کیا ہے تیری بجلیوں نے ان ظالموں کو جلا کیوں نہ دیا ۔اے سنگلاخ زمین !تو نے انہیں نگل کیوں نہ لیا اے ہواؤ !تو نے ان کی آنکھوں میں مٹی ڈال کر ان کی آنکھوں میں مٹی ڈال کر خاک آلود کیوں نہ کر دیا۔ بہت سوچ بچار کے بعد کچھ بات سمجھ میں آئی اور وہ یہ بات تھی کہ:
ہر وقت کاشمر ہر وقت کے حسینؓکا قاتل ہوتا ہے۔ ہر وقت کا حرملا ہر وقت کے علی اصغرؓ کا خونی ہوتا ہے ۔
جی ہاں !معزز قارئین اسی وجہ سے وہ درندے مسلمان نہیں ہو سکتے۔وہ لاالہ اللہ کے قاری اور رحمتالعالعمین کے پیروکار نہیں ہو سکتے ۔وہ اپنے وقت کے سنان ابن انس تھے جو ان حسینیوں کے سروں کو اپنے نیزوں پر سجانے آئے تھے۔ا گر وہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں تو یہ جان لیں کہ:
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی، اولاد بھی، جاگیر بھی فتنہ
نا حق کیلئے اٹھے تو شمشیربھی فتنہ
شمشیرہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
وہ بھول گئے کہ’’ جس نے ایک انسان کا قتل کیا گویا اس نے پوری اانسانیت کا قتل کیا‘‘۔وہ اساتذہ کو قتل کرتے ہوئے بھول گئے کہ ا’’انمابعثت معلما‘‘اور یوں وہ رحمت الالعالمین کے منکر ہوگئے۔
جب ماؤں کو ان کے لخت جگر کا لاشہ ملا تو وہ جیسے جیتے جی مر ہی گئی ہوں۔ان ماؤں کی حالت ایسی تھی جیسے دن سے اس کی روشنی ،چاند سے اس کی چاندنی ،پھول سے اس کی خوشبو اورگلشن سے اس کے پھول چھین لیے گئے ہوں ۔
مائیں بچوں کا انتظا ر کرتی رہیں
بچے سکول سے سیدھے جنت چلے گئے
بہنوں کی حالت و ہی تھی جو حالت زینبؓ کی بھیاؓ کا لاشہ دیکھ کر ہوئی تھی ۔یہ المناک واقعہ ایسا ہے کہ اس کے بارے میں سوچوں تو جذبات،احساسات اور خیالات کا جھرنا چھوٹ پڑتا ہے اور پھر تھم جانے کا نام ہی نہیں لیتا ۔۔۔۔ اب تو ضرب عضب میں اے پی ایس کے وارثوں نے ان ظالموں کو گھسیٹ گھسیٹ کرجہنم واصل کر دیا۔لیکن یہ نقصان ایک نا قابل تلافی نقصان ہے۔مائیں سنمبھل جائیں گی ،وقت گزر جائے گا مگر یہ زخم کبھی نہیں بھریں گے۔خدا ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں رکھے اوران شیطان صفت بھیڑیوں سے میرے ارض وطن اور اسکے باسیوں کو بچائے رکھے۔ آخر میں چند اشعار کہوں گا:
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اور
فانوس بن کہ جس کی حفاظت خدا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
میں اس قوم کے طالبعلموں،نوجوانوں اور بوڑھوں کی جانب سے ایک پیغام ملائیت کے نام کروں گا:
میں جھکا نہیں ،میں بکا نہیں،کہیں چھپ چھپا کہ کھڑا نہیں
وہ جو ڈٹے ہوئے ہیں محاذ پر مجھے ان صفوں پہ تلاش کر

اپنا تبصرہ بھیجیں