پاکستان پر دباؤ اور جنرل عاصم منیر کا جواب ۔۔۔ تحریر: سید سردار احمد پیرزادہ

کچھ عرصے سے ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے گرد خطرات بڑھائے جارہے ہیں۔ یایوں کہئے کہ ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ جس سے پاکستان کو بلیک میل کرکے کچھ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ آپ یقینا یہ کہیں گے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ 77برسوں میں ایسا کئی مرتبہ ہوچکا ہے کہ پاکستان کو اپنے مقصد کے تحت استعمال کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ آپ کی یہ بات درست ہے لیکن اس سے جڑی پریشانی کی ایک بات اور ہے۔ وہ یہ کہ اس طرح کے حالات کے دوران اور ان کے بعد پاکستانی عوام کو بہت دیر تک خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ جن تشویش ناک خبروں کا ذکر اوپر کیا گیا اُن کی چند مثالیں لیتے ہیں جو حالیہ دنوں میں سامنے آئی ہیں۔ ایک پاکستانی شہری آصف مرچنٹ پر امریکہ میں فرد جرم عائد کی گئی ہے جس میں امریکہ کے سیاست دانوں اور ممتاز شخصیات کے قتل کی ممکنہ سازش کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس الزام کا ثابت ہونا ابھی بعد کی بات ہے لیکن اس خبر کے آتے ہی پاکستان کے خلاف بھرپور پراپیگنڈہ شروع کردیا گیا۔ ایک اور خبر کے مطابق بھارتی میڈیا پر بیٹھے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار پاکستان اور چین ہیں۔ یہ دونوں ممالک آئی ایس آئی اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مدد سے طلباء سے احتجاج کروا کے ملک میں بدامنی پیدا کررہے ہیں۔ ایک اور انتہائی خطرناک غلط خبر کے مطابق اسرائیل کے ایک اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ایران کو اسرائیل پر حملہ کرنے کے لئے اپنے شاہین میزائل دے رہا ہے۔ بیشک اس بے بنیاد خبر کی پاکستان نے خوب تردید کی ہے۔ ایک اور خبر کے مطابق پاکستان کی طرف سے یورپی یونین کو بھیجے جانے والے چاول میں انتہائی مضر صحت عناصر پائے گئے ہیں۔ ایک اور خبر کے مطابق امریکی سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کی سینیٹر مارکو روبیو نے پاکستان اور چین کی مخالفت پر مبنی بل پیش کردیا۔ اس بھارت نواز بل میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان کے بھارت کے خلاف کسی سرگرمی میں ملوث ہونے کے شواہد ملیں تو پاکستان کی امداد روک دی جائے اور اس سلسلے میں کانگریس کو آگاہ کیا جائے۔ ایک اور خبر کے مطابق جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصل جنرل کے باہر افغان باشندوں نے ہنگامہ آرائی کی، پتھراؤ کیا اور پاکستانی پرچم بھی اتار دیا۔ یہ وہ چند بین الاقوامی خبریں ہیں جو پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں اور ان سب خبروں میں پاکستان کو بدنام کرنے کا ٹرینڈ نظر آتا ہے۔ ایسا اُس وقت کیا جاتا ہے جب کسی ملک پر طاقتور ملک اپنی مرضی نافذ کرنا چاہتے ہوں۔ اس کا مقصد یقینا یہی ہوتا ہے کہ دباؤ میں آنے والا ملک اُن کے اشاروں پر چلے۔ اس دباؤ میں مزید اضافہ کرنے کے لیے ملک کے اندر ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں کہ عوام بے چین ہوں، افراتفری پھیلے اور حکومت وقت بے بس ہوکر بیرونی طاقتوں کے آگے گھٹنے ٹیک دے۔ ایسے اندرونی دباؤ جن کے تانے بانے بیرون ممالک سے مل سکتے ہیں کی چند حالیہ مثالیں دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے اور فتنہ الخوارج کے خارجی دہشت گردی پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے پردے میں علیحدگی پسند تحریکیں اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اسی سلسلے میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے گوادر میں حالیہ ہڑتال کے دوران لوگوں کے سامنے مجمع نے ایک سپاہی کو تشدد کرکے شہید کردیا۔ بعض مخصوص جماعتوں کی طرف سے دھرنے اور ہڑتالیں عوام کے لیے بھلائی کی بجائے بدامنی میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ حکومت پر اندرونی دباؤ بڑھاکر بے بس کرنے کے لیے عدالتیں اور بعض جج صاحبان بھی اپنا کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ مثلاً بعض حکومتی اقدامات کو کالعدم قرار دے دیا جائے تو اُس سے روزمرہ حکومتی معاملات میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے یا سیاسی اور انتخابی معاملات کو چھیڑنے سے سیاسی بے چینی پیدا ہو جاتی ہے یا آئین کی ایسی تشریحات کی جائیں کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجائیں۔ اس کے علاوہ اندرونی دباؤ میں اضافہ کرنے کے لیے ایسے معاملات کو اچھالا جائے جو حقیقتاً موجود ہیں لیکن ان کو ابھارنے کے لیے تیل کو ماچس دکھانے کا فارمولا استعمال کیا جائے۔ جیسا کہ آئی پی پیز اور مہنگائی کے ایشوز کو لے کر عوام کو غصہ دلاکر آگ بگولا کیا جائے۔ ان سب سے بڑھ کر اندرونی دباؤ بڑھانے کے لیے پی ٹی آئی کو استعمال کیا جارہا ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت ایسے کاموں کے لیے بے حد مناسب خدمات سرانجام دے سکتی ہے۔ اگر غور کریں تو امریکی کانگریس سے لے کر مغربی ممالک کی طرف سے عمران خان کو غائبانہ حمایت حاصل ہے اور آج کل اس حمایت میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ عمران خان کو عدالتوں سے ایسی ریلیف مل رہی ہے جسے دیکھ کر آئین بھی حیران رہ جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اِن دنوں عمران خان موجودہ حکومت کے جانے کی پیشین گوئیاں بھی شروع کرچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالا بیرونی اور اندرونی دباؤ پیدا کرنے کے کیا مقاصد ہیں؟ اس کا جواب بہت سیدھا سادا ہے کہ وہ طاقتیں پاکستان کو چین کی حمایت سے دور کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا خیال ہے یا تو پاکستان ان کی بات مان لے یا نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔ تاہم اس کا جواب پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے ایک کانفرنس کے دوران دے دیا کہ ”جو شریعت اور آئین کو نہیں مانتے ہم انہیں پاکستانی نہیں مانتے اور یہ کہ کسی نے پاکستان میں انتشار کی کوشش کی تو رب کریم کی قسم ہم اُس کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہوں گے“۔ اوپر کی ساری تحریر کا تجزیہ یہی نکلتا ہے کہ پاکستان پر دباؤ بڑھاکر بلیک میل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ بین الاقوامی طاقتوں کے مخصوص مقاصد حاصل ہوسکیں۔
آگ ہے، اولادِ ابراہیم ؑہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں