چاندنی میں لہو تھا، مگر چپ رہی ماں کی زباں
لوریِ آخری بیٹے کو دے، سو گئی بے صدا
رات کی ہوا میں ایک عجیب سا سکوت تھا۔ آسمان سیاہ مخملی چادر اوڑھے، ستاروں کی ٹمٹماہٹ تک دبا بیٹھا تھا۔ گنے کے کھیتوں کے درمیان ہوا کا ہلکا سا جھونکا بھی خوف کی سرگوشیاں کرتا محسوس ہو رہا تھا۔ یہ 14 اگست 1947 کی رات تھی — وہ رات جس کے پیچھے صدیوں کا انتظار، قربانیوں کا ایک انبار، اور دعاؤں کی لامحدود گونج چھپی ہوئی تھی۔
آزادی کا سورج طلوع ہونے کو تھا، مگر اس کے راستے میں خون کی ایسی ندیاں بہہ چکی تھیں جن کا رنگ آج بھی اس مٹی میں جذب ہے۔ ایک قافلہ پاکستان کی سمت بڑھ رہا تھا۔ ان کے چہروں پر امید بھی تھی اور خوف بھی… وہ خوف کہ نہ جانے اگلا لمحہ کس کے حصے میں زندگی لے کر آئے گا اور کس کے حصے میں موت۔
قافلے میں سب تھے — جھکی ہوئی کمر والے بوڑھے جن کے قدم ماضی کی یادوں سے بوجھل تھے، مائیں جن کی گود میں نوزائیدہ بچوں کی گرم سانسیں تھیں، جوان مرد جن کے ہاتھ تلوار پر نہیں، اپنے پیاروں کے ہاتھوں پر جمے ہوئے تھے۔ کوئی اپنے والدین کو سہارا دے رہا تھا، کوئی بہن کو ڈھانپ رہا تھا، اور سب کے سب اس ایک خواب کی طرف بڑھ رہے تھے — پاکستان۔
مگر آزادی کا سفر کبھی ہموار نہیں ہوتا۔
اچانک دور سے تلواروں کی چمک اور پاؤں کی آہٹ سنائی دی۔ ہندوؤں کا ایک مسلح جتھا ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ قافلے والوں کی رفتار رک گئی، سانسیں بند ہو گئیں۔ سب نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اور اشارے سے گنے کے گھنے کھیت کی طرف لپکے۔ چاند بادلوں میں چھپ گیا، جیسے وہ بھی اس رات کی دہشت کو دیکھنے سے انکار کر رہا ہو۔
سب خاموش تھے، مگر یہ خاموشی ایک دھڑکتے ہوئے خطرے کی طرح تھی۔ دشمن بس چند قدم کے فاصلے پر تھا۔ قافلے والوں نے اپنی سانس تک روک لی، لیکن معصوم بچے بھلا کیا جانیں موت کی چاپ اور زندگی کی باریکی؟
ایسی ہی گھڑی میں ایک معصوم کلی — ایک نوزائیدہ، جو صبح سے بھوکا پیاسا تھا — تڑپ کر رونے لگا۔ وہ رونا، جو عام دنوں میں زندگی کی علامت ہوتا ہے، آج موت کی گھنٹی بن سکتا تھا۔ ماں نے لرزتے ہاتھوں سے اسے سینے سے لگایا، ہلایا، جھولایا، ہونٹوں پر انگلی رکھی، مگر ننھی جان کی بھوک اور پیاس نے اسے چپ نہ رہنے دیا۔
ماؤں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ گئیں، مردوں کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے۔ ہر دل میں ایک ہی سوال تھا — کیا یہ رونا ہمیں موت کے منہ میں دھکیل دے گا؟
اس لمحے ماں کے دل پر قیامت ٹوٹ پڑی۔
اس کے سامنے دو راستے تھے — ایک طرف اس کا جگر کا ٹکڑا، اس کی دنیا، اس کا سب کچھ… دوسری طرف قافلے کی سینکڑوں جانیں۔ وہ جانتی تھی، اگر یہ رونا دشمن تک پہنچا، تو نہ وہ بچے گا، نہ یہ معصوم، نہ کوئی اور۔
اور پھر… لرزتے ہاتھوں، کانپتے ہونٹوں اور ٹوٹتے دل کے ساتھ اس نے اپنے لال کو اپنی بانہوں میں جکڑ لیا۔ آنکھوں سے بہنے والے آنسو اس کے رخسار کو جلانے لگے، مگر اس نے اپنا فیصلہ کر لیا۔ اس نے اپنے بچے کی سانس اپنے سینے میں دفن کر دی۔
ایک پل میں سب کچھ ختم ہو گیا۔ رونا تھم گیا، دشمن گزر گیا، قافلہ بچ گیا… مگر ایک ماں کی زندگی ہمیشہ کے لیے خالی ہو گئی۔
اس کے بعد وہ چلتی رہی، مگر اس کی بانہوں کا بوجھ ہمیشہ کے لیے ہلکا ہو گیا تھا… اور دل کا بوجھ ہمیشہ کے لیے بڑھ گیا تھا۔ اس رات چاند دوبارہ نہ نکلا، جیسے آسمان بھی اس قربانی کا ماتم کر رہا ہو۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں، یہ ہزاروں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی داستانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان یوں ہی نہیں ملا، اس کی بنیاد میں ماؤں کے کلیجے، بہنوں کی عصمتیں، اور جوانوں کا خون شامل ہے۔
مگر آج… ہم نے اس قربانی کا حق کہاں ادا کیا؟
ہم نے اسلام کے نام پر ملک حاصل کیا، مگر اسلام کو اپنی زندگیوں سے نکال دیا۔ وہ قوم جو گردنیں کٹا کر مسجد جاتی تھی، آج اذان کی صدا سنتی ہے اور کہہ دیتی ہے “وقت نہیں ہے۔” ہمارے تعلیمی ادارے علم کے چراغوں کے بجائے بے حیائی کے الاؤ جلا رہے ہیں۔ محرم و غیر محرم کا فرق مٹ چکا ہے، سچائی اور دیانت داری قصے کہانیوں میں رہ گئی ہے۔
ہم مغرب کے انداز و اطوار میں فخر محسوس کرتے ہیں، مگر اپنی تہذیب اور دین کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ ہم جشنِ آزادی تو جوش سے مناتے ہیں، مگر اس آزادی کے پیچھے کی چیخیں، آنسو اور قربانیاں بھول جاتے ہیں۔
کیا اسی مقصد کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا؟
کیا وہ مائیں اپنے لختِ جگر قربان کر کے یہی دن دیکھنا چاہتی تھیں؟
خدارا ۔۔۔ جاگ جائیے! آزادی صرف جھنڈا لہرانے اور آتش بازی کرنے کا نام نہیں۔ آزادی کا مطلب ہے اس مقصد کو پورا کرنا، جس کے لیے یہ وطن بنا۔ بڑے بڑے دعوے کرنے کی ضرورت نہیں، بس اپنی زندگی میں اسلام کو لے آئیے۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھئیے، دیانت داری کو اپنائیے، اور اپنی اولاد کو اس دین کی تعلیم دیجیے، جس کے لیے یہ زمین حاصل کی گئی۔
ورنہ یاد رکھیں ۔۔۔ اگر ہم نے اپنی پہچان اور مقصد کھو دیا، تو یہ آزادی صرف ایک تاریخ رہ جائے گی۔۔۔ اور پاکستان، ایک نقشہ۔


