پاک بھارت مذاکراتی فیصلے کا عالمی سطح پر خیر مقدم

image

پاکستان اور بھارت کی جانب سے دیرینہ مسائل پر بات چیت کے لیے جامع مذاکرات کے سلسلے کی بحالی کے اعلان کا عالمی سطح پر خیرمقدم کیا گیا ہے۔
دونوں ممالک نے بدھ کو اسلام آباد میں تین برس سے زیادہ عرصے سے معطل مذاکراتی عمل کو نئے سرے سے بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے جس کے بعد کشمیر، انسدادِ دہشت گردی، سکیورٹی سمیت تمام مسائل پر مذاکرت کا دوبارہ سے آغاز ہو گا۔
یہ اعلان بھارتی وزیرِ خارجہ شسما سوراج کی پاکستانی وزیرِاعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کیا گیا۔
اقوامِ متحدہ کے نائب ترجمان فرحان حق نے نیویارک میں صحافیوں کو بتایا کہ سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی جانب سے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ ’خوش آئند‘ ہے۔
امریکہ نے بھی اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بات چیت کا عمل جاری رہنا چاہیے اور دونوں ممالک کے درمیان حالیہ رابطے حوصلہ افزا ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے بدھ کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم چاہتے کہ پاکستان اور بھارت اپنے تنازعات مل کر حل کریں اور ان مسائل کا سفارتی حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھیں جن کا انھیں تاحال سامنا ہے۔
اس سوال پر کہ کیا امریکہ پاکستانی فوج کی سفارت کاری کے عمل میں شمولیت کو قبول کرتا ہے، جان کربی کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کرنا دونوں ممالک کا کام ہے کہ سفارت کاری کے لیے کون کس اجلاس میں جائے گا اور بات چیت میں کون نمائندگی کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ تو بس چاہتا ہے کہ بات چیت جاری رہے اور اسے لیے وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ بات چیت کو حوصلہ افزا سمجھتا ہے کیونکہ یہ بالکل وہی چیز ہے جس کی ہم حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ ’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد سے قبل بینکاک میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل(ر) ناصر جنجوعہ نے اپنے بھارت ہم منصب اجیت ڈوال سے ملاقات کی تھی
جان کربی نے کہا کہ امریکہ تو بس چاہتا ہے کہ بات چیت جاری رہے اور اسے لیے وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ بات چیت کو حوصلہ افزا سمجھتا ہے
بدھ کو ذرائع ابلاغ سے مختصر گفتگو میں سشما سوراج نے کہا کہ دونوں ممالک کے مشیرانِ قومی سلامتی کے درمیان بینکاک میں ہونے والی ملاقات میں دہشت گردی اور اس سے منسلک مسائل پر بات کی گئی تھی۔
جامع مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’دوطرفہ جامع مذاکرات میں پہلے والے تمام عوامل شامل ہوں گے اور ان میں کچھ نئی چیزیں بھی شامل کی گئی ہیں۔‘
ان مذاکرات کے بارے میں جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق ’دونوں ملکوں کے سیکریٹری خارجہ دو طرفہ جامع مذاکرات کا نظام الاوقات اور طریقہ کار وضع کریں گے جن میں ماحول کو سازگار بنانے کے علاوہ کشمیر، سیاچن، وولر بیراج، انسداد دہشت گردی، امن اور سکیورٹی اور مذہبی سیاحت جیسے معاملات پر بات ہوگی۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں