بھارت میں خود کشی کرنے والے کسانوں کی کھوپڑیوں کے ساتھ کسانوں کا احتجاج جاری

انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں گذشتہ نو روز سے کسان اپنے دیرینہ مطالبات منوانے کے لیے ان کاشتکاروں کی کھوپڑیوں کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں جو خود کشی کر چکے ہیں۔

ان کسانوں کا تعلق جنوبی ریاست تمل ناڈو سے ہے جو دلی کے جنتر منتر پر خاموش دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست میں شدید خشک سالی کے سبب کاشتکار پریشان ہیں لیکن سرکاری بینک قرضہ واپس کرنے کے لیے انھیں ہراساں کر رہے ہیں اور اگر یہی حال رہا تو بہت سے دیگر کسان بھی خود کشی کرنے پر مجبور ہوں گے۔ تمل ناڈو کے کسان رہنما پی ایّا کنون نے میڈیا سے بات چيت میں کہا کہ اس برس تمل ناڈو کو سخت ترین کے قسم کے قحط کا سامنا ہے اور ‘اگر حکومت نے ان کے مطالبات پر توجہ نہیں دی تو بڑي تعداد میں کاشتکاروں کے خود کشی کرنے پر آمادہ ہوں گے۔’

کسانوں کی کھوپڑیاںیہ مردہ انسانی کھوپڑیاں ان کسانوں کی ہیں جو چند برس پہلے اپنے مطالیات لے کر دلی آیا کرتے تھے

ان کا کہنا تھا: ‘قومی بینک کسانوں سے قرض وصول کرنے کے لیے طرح طرح کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ بینک مینیجر انھیں گرفتار کروانے، ان کے کھیت بیچ دینے اور پولیس لانے کی بات کرتے ہیں۔ ان ہی حرکتوں کی وجہ سے گذشتہ ایک سال میں تقریباً 400 سو کسانوں نے خودکشی کر لی۔ یہ مردہ کھوپڑیاں انھیں کاشتکاروں کی ہیں جو گذشتہ برس بھی دلی اپنے مطالبات لے کر آئے تھے۔ حکومت نے مدد کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن کیا کچھ بھی نہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پریشان ہو کر کسانوں نے اپنی جان دے دی۔’

ایّا کنون کے مطابق کسان چاہتے ہیں کہ بینک ان کے قرضے معاف کریں، ان کی فصلوں کا بہتر معاوضہ دیا جائے اور آب پاشی کے لیے دریائے کاویری میں پانی مہیا کیا جائے۔ اس احتجاج میں شامل ایک نوجوان خاتون ملکا کا کہنا تھا کہ ان کے نانا اور نانی کسانی کرتے تھے اور قرض نہ ادا کرپانے کی وجہ سے انھوں نے بھی خودکشی کر لی تھی۔

انھوں نے بتایا: ‘یہ جو مردہ انسانی کھوپڑیاں دیکھ رہے ہیں یہ لوگ بھی اپنے مطالیے لے کر چند برسوں سے دلی آیا کرتے تھے لیکن حکومت نے ان کی ایک نہیں سنی اور پھر سراسیمگی کی حالت میں انھوں نے خود کشی کرلی۔ آج یہ ہمارے ساتھ مردہ حالت میں ہیں اور یہ اس بات کی غمازی ہے کہ اگر مطالبات پورے نہ ہوئے تو جو مظاہرین اس وقت یہاں ہیں ان کا حال بھی یہی ہونے والا ہے۔’

کسان چاہتے ہیں کہ بینک ان کے قرضے معاف کریں، ان کی فصلوں کا بہتر معاوضہ دیا جائے اور آب پاشی کے لیے دریائے کاویری میں پانی مہیا کیا جائےمظاہرے میں شامل ایک دوسرے کسان جی رمیش نے سرکاری بینک سے ایک لاکھ روپے کا قرض لیا تھا اور اب انھیں تقریبا چار لاکھ روپے ادا کرنے ہیں۔ ان کا کہنا کہ گذشتہ چند برس سے آبپاشی کے لیے پانی میسر نہیں ہے اور کوئی بھی فصل اگانا بہت مشکل ہے۔ اس صورت حال میں بینک کا قرض کہاں سے لاکر ادا کریں۔ انھوں نے کہا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو وہ جنتر منتر پر ہی جمعرات کو خودکشی کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ایک بزرگ خاتون کاشتکار راج لکشمی بھی اس مظاہرے میں شرکت کے لیے دلی آئی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ ان کے کھیت ہیں اور سوکھے کی وجہ سے کھیتوں میں پیداوار نہیں ہے۔

انھوں نے بتایا: ہم اب مجبور ہیں، کیا کرسکتے ہیں۔ ہم بوڑھے ہوچکے ہیں، حکومت کو ہمارا قرض معاف کرکے ہمیں معاوضہ دینے چاہیے۔ ہمارے مطالبات پر انھیں غور کرنا چاہیے۔’ بیشتر کسانوں کا کہنا تھا کہ حکومتیں ان سے وعدہ تو کرتی رہی لیکن ان کے حق میں اقدامات نہیں کیے گئے اور اس بار جب تک حکومت ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرتی اس وقت تک وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ادھر مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان کے مطالبات پر غور کر رہی ہے اور اس معاملے پر کوئی بھی فیصلہ کرنے کے لیے انھیں دو روز کی مہلت چاہیے۔ وزیر حزانہ ارون جیٹلی نے کسانوں کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد کہا کہ انھیں دو دن کا وقت دیا جائے تاکہ قرضے کے سلسلے میں وہ ریزرو بینک آف انڈیا سے صلاح و مشورہ کر سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں