گھر کا سربراہ نہ رہے تو ٹھوکریں بچوں کا مقدر

image

وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے جو قوم سے خطاب کیا سب سے پہلے تو پاکستانی عوام سے معذرت کے ساتھ میں میں اس خطاب کے ٹائٹل سے اختلاف کرتا ہوں کیونکہ نواز شریف نے پاکستانی لوگوں سے خطاب کیا ہے نا کہ قوم سے اسکی وجہ بھی یہی ہے پاکستان میں ابھی تک کوئی قوم سرے سے ہے ہی نہیں اور حکمرانوں نے بھی ہجوم کو یقین دلایا ہوا ہے کہ وہ ایک عظیم قوم ہے جس کو اُس ملک میں رہنے کا شرف حاصل ہے جو دنیا میں واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جب چھوٹی عمر میں باپ یا گھر کے سربراہ کا سایہ سر پر نہ رہے تو بچے در بدر دھکے ہی کھاتے ہیں اور ان میں بہت سے برائی کی راہ پر چل پڑتے ہیں جب پاکستان چھوٹی سی عمر میں تھا تو گھر کے سربراہ قائد اعظم محمد علی جناح ہی دنیا سے تشریف لے گئے تو ہمارا حال ایسا ہی ہونا تھا جس کے بعد میاں صاحب کی تقریر دیکھ کر ایک دم سے دل لرزا سا گیا لگ رہا تھا کہ پاکستان کے سارے مظالم ان پر اور انکے خاندان پر ہی ہوئے ہیں اور پاکستان کا سب سے مظلوم شخص میا ں محمد نواز شریف وزیر اعظم پاکستا ن ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ جیسے ہی یہ کیمرے سے ہٹے ہو گے ان سب نے پاکستانی عوام کی بے بسی ، لاچاری اور بیو قوفی پر زور زور سے قہقہے لگائے ہو گے ۔
قوم کیا ہوتی ہے اور میں کیوں پاکستانی عوام کو قوم نہیں سمجھتا ۔۔؟
جس ملک میں حکمرانوں کو پتا ہے کہ یہاں ایک زندہ قوم آباد ہے اور انکو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا وہاں پر آئس لینڈ کا وزیر اعظم اگلے ہی دن استعفی دے دیتا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے وزیر اعظم بننے سے پہلے تیس ہزار برطانوی پاؤنڈز لگائے تھے اپنے والد کی کمپنی میں جس کا نام پاناما لیکس میں آیا ہے اور اب کیمرون کو اسمبلی میں اور لوگوں میں اپنی صفائی دینا مشکل ہو چکا ہے اور لوگوں نے برطانوی وزیر اعظم کے استعفی کا مطالبہ بھی شروع کر دیا ہے جس پر چند دن میں احتجاج بھی ہونے جا رہا ہے ۔ بطور مسلمان ہم برطانوی عوام میں بے شک سیکنڈوں برائیاں نکال لیں کہ وہ شراب پیتے ہیں ، زنا کرنا کوئی بری بات نہیں سمجھا جاتا بغیر شادی کے ہر سال ہزاروں لڑکیاں ماں بنتی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔لیکن جب بھی کوئی قومی معاملہ آتا ہے تو یہ لوگ پٹواری نہیں بنتے اپنے ضمیر کے مطابق سچائی کا ساتھ دیتے ہیں بحیثیت قوم چھوٹی سے چھوٹی کرپشن بھی برداشت نہیں کی جاتی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ خود ہی مستعفی ہو کر اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر دیتے ہیں پھر ادارے اور عدالتیں آزاد ہیں لوگوں سے انصاف کیا جاتا ہے عدالتوں کا مورال بہت بلند ہے جو بھی فیصلہ آئے پوری قوم آنکھیں بند کر کے تسلیم کرتی ہے کیونکہ انکو یقین ہے کہ جو بھی فیصلہ آیا ہے اس میں انصاف کے تقا ضے پورے کئے گئے ہیں ۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ آخر کار وزیراعظم ، وزراء یا کوئی بھی سرکاری غیر سرکاری افسر کرپشن کیوں نہیں کرتا اسکی سب سے بنیادی وجہ برطانوی معاشرہ ہے چاہے کو فوجی جرنیل ہو ملک کا وزیر اعظم ہو ، اپو زیشن لیڈر ہو جج صاحبان ہوں ، پولیس افسران ہوں ،بیو رو کریٹس ہوں یا میڈیا ہی کیوں نہ ہو یہ سارے کردار بچپن سے لیکر ان عہدوں تک پہنچنے کے لئے ایک رستے سے ہوتے ہوئے پروان چڑھتے ہیں ۔ سکول ،ہسپتال
عدالت ، پولیس اسٹیشن یا سڑک پر انکے بچوں یا فیملی ارکان کو سپیشل پروٹوکول نہیں دیا جاتا۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈرز کے بچوں کی غلامی نہیں کی جاتی اور جب وہ بچہ جوان ہو کر کوئی بھی منصب سنبھالے گا تو اسکے اندر بھی وہی معاشرتی صفحات پائی جائے گی۔
اس کے بر عکس جب آپ پاکستان میں نظر دہرائے تو سب الٹ دیکھائی دیتا ہے۔پولیس سے عدالت تک ، تعلیم سے ہسپتال تک ، سڑک سے ذاتی امرہ تک ، اپوزیشن سے حکومت تک ، بیورو کریٹس سے میڈیا تک اور جمہوریت سے آمریت تک ہر جگہ بد دیانتی ، جھوٹ ، رشوت، کرپشن ، امیر اور غریب کا فرق ، سیاسی جماعتوں پر ایک ہی خاندان کا قبضہ اور ایک چھ سات بار منتخب ہونے والا انسان بھی بیس سال کے لڑکے کے سامنے ہاتھ باند کر کھڑا ہو جا تا ہے جس طرح بادشاہت میں ہوا کرتا تھا اسکی بنیادی وجہ بھی ہمارا معاشرہ ہی ہے جس میں ہم اپنے بچوں کی پرورش کر رہے ہیں پھر نتائج بھی اسی طرح کے ہوں گے ۔شائد اسی لئے ابھی تک ہمیں کو ہی اچھا حکمران نہیں ملا کیو نکہ حکمران بھی تو اسی معاشرے سے ہوں گے ۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ۔
“جیسی قوم ویسے ہی اس قوم کے حکمران ہو ں گے” اور اگر ہمیں اس ایک چھوٹے سے فقرے کی سمجھ آ جائے تو میری بات کا سارا خلاصہ اسی میں ہے ۔
کیونکہ
سمجھدار کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں