چراغ تلے اندھیرا : عبدالرؤف خاں

image

میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے جب آنکھ کھولی تو اپنے والد محترم میاں محمد شریف کو لوہے کا کاروبار کرتے ہوئے پایا۔ پھر ان دونوں بھائیوں کی ٹریننگ اتفاق فونڈری میں ہوئی اور ان دونوں بھائیوں نے سٹیل کے کاروبار کو دن دُگنی اور رات چُگنی ترقی دی۔ اتفاق فونڈری میں شوگر ملوں کے بڑے بڑے بوائلر اور دوسرے پرزہ جات تیار ہونے لگے اور دھڑا دھڑ شریف فیملی کی شوگر ملیں لگنی شروع ہوگئیں۔ شوگر ملوں کا یہ نیٹ ورک افریقہ تک پھیل گیا۔
پھر سنہ 1982 میں برادر سٹیل ملز کے نام سے ایک اور سٹیل مل لگائی۔ اسی طرح 1984 سے لیکر 1989تک کے عرصہ کے دوران اتفاق شوگر مل، اتفاق ٹیکسٹائل ملز، برادر ٹیکسٹائل ملز، خالد سراج ٹیکسٹائل ملز، رمضان بخش ٹیکسٹائل ملز کا قیام عمل میں آیا۔ ان تمام ملوں کے پرزہ جات اتفاق فونڈری میں ہی تیار ہوئے۔ 1990تک اتفاق گروپ پاکستان کا سب سے بڑا انڈسٹریل گروپ بن چکا تھا جس کے ہزاروں ملازمین مصروف عمل رہتے تھے۔
شہباز شریف روزانہ کی بُنیاد پر اتفاق فونڈری میں موجود اپنے دفتر میں بیٹھتے اور سارے کاروباری معاملات کو دیکھتے اور اپنی سخت ایڈمنسٹریشن کی بدولت کاروبار کو وُسعت دی۔ یہ وُہی کاروباری وُسعت ہے جس کا ذکر شریف فیملی بارہا اپنے انٹرویوز میں کرچکی ہے۔
صاحبو اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی سٹیل مل جان بوجھ کر پچھلے چودہ مہینوں سے بند کی ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شریف فیملی اس مل کو بالکل ویسے چلاتی جیسے انہوں نے اتفاق فونڈری چلائی تھی۔ پچھلے چالیس سال سے یہ فیملی سٹیل کا بزنس کررہی ہے لیکن بدنیت اتنے ہیں کہ اپنے ملک کی سب سے بڑی سٹیل مل چلانے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ جبکہ یہی شریف فیملی جب جدہ میں اپنی ذاتی سٹیل مل لگاتی ہے تو وہ دن دُگنی اور رات چُگنی ترقی کرتی نظر آتی ہے۔
یہ دولت کے پجاری اور حرص کے غلام حکمران پچھلے تین سال سے پاکستان سٹیل مل کے بورڈ آف گورنر اور چئیرمین کو تعینات نہیں کرسکے۔ ظاہر ہے جب بورڈ آف گورنر اور سٹیل مل کا چئیرمین موجود ہوگا تو وہ لوگ ہاتھ پاؤں مار کر اس سٹیل مل کو چلانے کی کوشش کریں گے۔ جبکہ حکومت اس معاملے میں مکمل طور پر بد نیت دکھائی دیتی ہے جو یہ چاہتی ہی نہیں کہ اس مل کو چلایا جائے۔ پچھلے تین سال سے شریف فیملی اس مل پر اپنی لالچی نظریں جمائے بیٹھی ہے اور پاکستان کی سب سے بڑی سٹیل مل کی راتوں رات نجکاری کرنا چاہتی ہے۔ نجکاری بھی ایسے کرنا چاہتی ہے کہ شریف فیملی پانامہ لیکس کی طرح سے اپنے کسی بھی فرنٹ مین کی طرف سے ایک کمپنی چائینہ یا دُنیا کے کسی بھی ملک میں رجسٹر کروائیں گے اور پھر معجزاتی طور پر وہی کمپنی سب سے ذیادہ بولی دے کر اس سٹیل مل کو خرید لے گی۔ اور پھر یہی مل جو خسارے میں جارہی ہے وہ منافع دینا شروع ہوجائے گی۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مُطابق فوری طور پر اس سٹیل مل کو چلانے کے لئیے چالیس ارب روپے کی ضرورت ہے۔ چونکہ گیس کا بل ہی چالیس ارب کے قریب ہے تو اگر حکومت فوری طور پر یہ رقم جاری کردیتی ہے تو گیس کے واجبات ادا ہونے کے بعد یہ مل کام کرنے کے لئے بالکل تیار ہے۔ لیکن اس ملک کی بدقسمتی کہ لیں کہ یہاں میٹرو، سستی روٹی اور دوسرے پراجیکٹ کے لئیے تو اربوں روپے موجود ہیں لیکن وفاق کی ملکیت پاکستان سٹیل کے لئیے چالیس ارب روپے بھی خزانے میں موجود نہیں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاک چائینہ کاریڈور کے لئیے آئیندہ سالوں میں پاکستان کو خطیر مقدار میں سٹیل کی ضرورت موجود ہے۔ شریف فیملی سے ذیادہ اس خبر سے اور کون آشناء ہوگا۔ اس لئیے شریف فیملی کسی بھی صورت میں اس سٹیل مل کو چلانا نہیں چاہتی بلکہ ایک مردہ ہاتھی کی حیثیت سے کم بولی پر فروخت کرنا چاہتی ہے۔ آنے والا وقت ضرور ثابت کرے گا کہ شریف فیملی کے دور اقتدار میں پاکستان سٹیل ملز کو اونے پونے داموں بیچ دیا گیا اور فروخت کے چند ہی ابتدائی مہینوں میں خسارے والا ادارہ منافع بخش ادارے میں بدل گیا۔
پاکستان سٹیل ملز کو چلانے کی لئیے صرف عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ مخلص اور دیانتدار چئیرمین کو اگر فوری تعینات کردیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ کیسے اس ادارے کی حالت نہیں بدلتی۔ کوئی تو ان سے پوچھے کہ میاں صاحب وہ کونسی جادوئی چھڑی ہے جو جدہ کی سٹیل مل تو بڑی مہارت سے چلارہی ہے جبکہ پاکستان سٹیل ملز میں وہ مہارت بالکل بھی کام نہیں آتی؟ تم لوگوں کا ذاتی کاروبار دن دُگنی اور رات چُگنی ترقی کرے جبکہ وہی کاروبار سلطنت تمہاری موجودگی میں خسارے میں جائے یہ کہاں کا انصاف ہے بھائی؟
پاکستان سٹیل خود کتنی امیر ہے آپ خود اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ اسکا ملکیتی رقبہ اُنیس ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے۔ 110 میگا واٹ کا تھرمل بجلی گھر اس میں موجود ہے جو نیشنل گرڈ سٹیشن کو بجلی بھی فراہم کرتا تھا۔ چلیں فرض کرتے ہیں کہ حکومت کے پاس پیسے باکل بھی نہیں ہیں اور خزانہ بھی خالی ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمینٹ بینک بھی قرضہ نہیں دے رہے۔ اگر حکومت سنجیدہ ہو تو صرف ایک ہزار ایکڑ اراضی فروخت کرکے اس خسارے میں جانے والے ادارے کو راتوں رات منافع بخش بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ کام کرے کون؟ کیا یہ دولت کے پجاری یہ سب کریں گے کہ جن کی دولت سمیٹنے کی حرص ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی؟
شریف فیملی کا یہ پُرانا حربہ ہے کہ پہلے یہ سرکاری اداروں کو جان بوجھ کر خسارے میں ظاہر کرتے ہیں اور پھر اونے پونے داموں نجکاری کرکے خود ہی خرید لیتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال کمالیہ شوگر مل کی ہے کہ جس کے پاس ایشیاء کا سب سے بڑا شوگر پلانٹ موجود ہے۔ اس مل نے پورے دوسال زمینداروں سے گنے کی خرید بند کردی اور جان بوجھ کر 1996 اور 1997 میں خسارے میں ظاہر کیا گیا۔ اُس وقت بھی نواز شریف کی حکومت تھی جب صرف 585ملین روپے میں ایشیاء کا سب سے بڑا شوگر مل پلانٹ ایک تھالی میں رکھ کر میاں نواز شریف نے حُسین نواز کے سُسر کو پیش کردی۔ جبکہ کمالیہ شوگر مل کے صرف رقبے کی قیمت ہی کوئی 600 ملین سے زائد کی تھی۔ لیکن اندھوں، گونگوں اور بہروں کی دُنیا میں کون کسی کی سُنتا ہے۔ اپنے اس دور حکومت میں نواز شریف نے لیہ شوگر مل کو فروخت کیا اور پتوکی شوگر مل کی بھی ایسے ہی نجکاری کی تھی پہلے یہی ادارے سرکاری سرپرستی میں بہترین منافع کما رہے تھے۔
جس طرح سے نواز حکومت پاکستان سٹیل کی نجکاری پر زور دے رہی ہے اس سے صاف یہ ظاہر ہورہا ہے کہ حکومت اس عظیم منصوبے کو فعال نہیں کرنا چاہتی۔ چراغ تلے اندھیرے والے بات ہے۔ پاکستان سٹیل اس وقت لاوارثوں کی طرح سے تاریخ کے چوراہے پر پڑی ہے اور حریص نگاہیں اپنے پنجے گاڑ چکی ہیں۔ قومی بے حسی اپنے عروج پر ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ جب تمام سیاسی جماعتوں کو اس اہم مسئلے کے لئیے مل بیٹھنا ہوگا اور حکومت کے مذموم مقاصد کو روکنا ہوگا۔ یاد رکھئیے تاریخ کا مورخ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان سے پوچھے گا کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے پاکستان سٹیل کے چودہ ہزار ملازمین کے گھروں کے چولہے بجھ رہے تھے اور تم سب اپنی جاگتی آنکھوں سے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔
تاریخ نواز شریف سے بھی پوچھے گی کہ وہ وقت یاد کرو جب اٹک قلعے میں تمہاری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں تمہاری جان بخشی کی گئی اپنی دھرتی ماں کو یہ صلہ دیا تم نے کہ اپنے ہی گھر کو نقب لگانا شروع کردی؟ تمہیں تو امین بناکر اُمور سلطنت حوالے کئیے تھے یہ رہزنی کا ہُنر کس نے سکھایا؟ مظفر وارثی مرحوم نے کیا خوب کہا تھا،
چور اپنے ہی گھروں میں تو نقب نہیں لگاتے
اپنی ہی کمائی کو تو لوٹا نہیں جاتا

اپنا تبصرہ بھیجیں