سانحہ کوئٹہ کیا لے گیا اور کیا دے گیا؟: سید سردار احمد پیر زادہ

پاکستان کے پہلے نا بینا صحافی:  سید سردار احمد پیر زادہ
پاکستان کے پہلے نا بینا صحافی: سید سردار احمد پیر زادہ

سِول ہسپتال کوئٹہ کا بم دھماکہ کیا لے گیا اور کیا دے گیا؟ اس کا سب سے اہم اور پہلا جواب یہی ہے کہ یہ دھماکہ 72 سے زائد قیمتی جانیں لے گیا۔ اس کے علاوہ یہ دردناک حادثہ ہم سے مزید بھی کچھ لے اور دے گیا ہے۔ آئیے تجزیہ کرتے ہیں۔ مولانا شیرانی اس پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے اسمبلی میں بولے ”قوم سے جھوٹ نہ بولا جائے، مسلح تنظیمیں کس کی ہیں، بتایا جائے۔ اچھے اور برے طالبان کے کیا معنی؟ یہ کرائے کے قاتل ہیں۔ دشمن گھر کے اندر ہیں، دوسروں سے کیا گلہ کریں۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کیوں لیا جارہا ہے؟ وغیرہ وغیرہ“ مولانا شیرانی کے بعد انہی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ”زبان پر ’را‘ کا لفظ آتے ہی بات ختم ہو جاتی ہے۔ ایجنسیاں کیوں بار بار رک جاتی ہیں اور ہم بری الذمہ ہو جاتے ہیں، اس طرح بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا۔ آرمی پبلک سکول ہویا باچا خان یونیورسٹی کا واقعہ، کوئی شک نہیں یہ ناکامی ہیں، کسی بھی دفاعی ادارے کے اندر ہونے والے واقعات ناکامی ہیں“۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ”ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کسی کی پراکسی وار نہیں لڑیں گے۔ دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کاروائی ضروری ہے۔ فوج، عدلیہ اور حکومت کو تجدید عہد کرکے دہشت گردوں کے خلاف حالت جنگ کا عملی نفاذ کرنا ہوگا۔ سِول ہسپتال کوئٹہ کا حملہ پاکستان پر حملہ ہے۔ یہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیز کی ناکامی ہے۔ را یا موساد پر الزام لگانے کی بجائے اپنی اصلاح کریں۔ وزیراعظم انٹیلی جنس اداروں کو حکم دیں کہ ٹھیک ٹھیک نتیجہ چاہئے۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد دونوں شریف الگ الگ کوئٹہ پہنچے۔ ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ ہمیں بتایا جائے اس ملک کے فیصلے کس نے کرنے ہیں؟ ہمیں کس کے پیچھے چلنا ہے؟ وزیراعظم سانحہ کوئٹہ کو ٹیسٹ کیس بناکر سِول اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیز کو ٹائم فریم دیں۔ اگر وہ نتائج نہ دیں تو ان کے سربراہوں کو فارغ کردیں۔ وزیراعظم سانحہ کوئٹہ سمیت ملکی سیکورٹی صورتحال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائیں تاکہ خارجہ اور داخلہ پالیسی پر بات ہوسکے۔ ہماری بیوروکریسی روز نئے جواز پیش کرتی ہے۔ ہماری ایجنسیز گدلے پانی سے سوئی ڈھونڈ سکتی ہیں تو ان دندناتے دہشت گردوں کو کیوں نہیں پکڑ سکتیں؟ آج بھی پاکستان کے سینکڑوں لوگوں کی جیبوں میں فرشتوں کے کارڈز ہیں۔ کیا ہم کرائے کے قاتل ہیں؟“ سِول سوسائٹی کے بعض نمائندے کہنے لگے کہ ”بلوچستان کے ذہین دانشوروں کا صفایا کیا جارہا ہے جبکہ سٹیبلشمنٹ سی پیک منصوبے کے بارے میں فکرمند ہے۔ کیا آپ کو معاشرتی اقدار کی سمجھ نہیں ہے؟“ اِن بیانات کے دیکھا دیکھی اِکا دُکا لوگوں نے بھی منہ کھولنے کی کوشش کی۔ سِول ہسپتال کوئٹہ کا سانحہ کچھ ایسے موضوعات سے پردہ اٹھا گیا جن پر اگر غور نہ کیا گیا تو معاشرتی بگاڑ میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان اور مولانا شیرانی نے بات کرتے ہوئے حسبِ عادت اپنے ماضی کو نہیں دیکھا۔ کیا دہشت گردوں کی مضبوط کالونیاں اُسی وقت نہیں بنائی گئیں تھیں جب انہی کی ایم ایم اے کی حکومت تھی؟ سیاسی دیوتا بن کر اسمبلی میں کھڑے ہوکر سیکورٹی اداروں کی دھونس کا شور مچانے والے مولانا شیرانی کو اپنا ضدی اور غصیلہ مزاج یاد نہیں رہا جس کی ایک مثال میڈیا میں بھی ریکارڈ ہوئی جب اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کے دوران مولانا شیرانی نے کونسل کے دوسرے رکن مولانا طاہر اشرفی کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد جسمانی کھینچا تانی بھی کی۔ جے یو ایف کے ان رہنماؤں کو اتنا تو ضرور یاد رہنا چاہئے تھا کہ ان کی جلتی شمع کے اردگرد کسی مضبوط ہاتھ کی رکاوٹ نہ ہوتو ان کو بجھانے کے لئے اے این پی اور مولانا سمیع الحق ہی کافی ہیں۔ اگر بلوچستان میں وفاقی سیکورٹی اداروں سے سیکورٹی کی ذمہ داریاں واپس لے کر صرف صوبائی حکومت کو دے دی جائیں تو کیا محمود خان اچکزئی اتنے خود اعتماد ہیں کہ وہ بلوچستان میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گے؟ جلدباز اور لاابالی شخصیت میچور سیاسی رہنما نہیں ہوسکتی۔ مولانا شیرانی، مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی ایسے بیانات کے بعد کیا اپنے آپ کو سیاسی رہنما کہلانے میں حق بجانب ہیں؟ سِول سوسائٹی کا تعلق دانشوری سے زیادہ فنڈز کے عوض مغربی نظریات کی درآمد سے ہے۔ اس لئے انہیں بتانے کی ضرورت نہیں کہ موجودہ سہولت یافتہ دنیا کی بنیاد سی پیک جیسے ترقیاتی منصوبے ہی ہیں جنہوں نے انسانوں کی زندگی آسان بنائی۔ اگر چھوٹے بڑے ترقیاتی منصوبے نہ ہوتے تو انسان جنگلوں اور غاروں میں ہی رہ رہے ہوتے۔ اُن سے یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ فرانس، بیلجیئم، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں جب دہشت گردی ہوتی ہے تو اُس کا سرا انتہا پسندوں سے جاملتا ہے۔ یعنی ان ممالک میں عام شہریوں کے قاتل صرف انتہا پسند ہی ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں انتہا پسندی کے علاوہ سازشی ہمسائیگی بھی موجود ہے۔ فرانس، بیلجیئم، امریکہ اور دوسرے متاثرہ مغربی ممالک کے اردگرد بھارت اور افغانستان جیسے ممالک نہیں ہیں۔ یہ علیحدہ بات کہ پاکستان اور اس کے ہمسائیوں میں دشمنی کی کیا وجوہات ہیں لیکن کیا سول سوسائٹی یہ بات ثبوت کے ساتھ کہہ سکتی ہے کہ ”را“ اور ”این ڈی ایس“ پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی نہیں کرتے؟ وکالت ایک محترم پیشہ ہے جس کا مقصد مصیبت زدہ کو انصاف دلانا ہے۔ جب کوئی مؤکل اپنے مقدمے کی پیروی کے لئے کسی وکیل سے درخواست کرتا ہے اور اُسے اپنا تمام ماجرا سناتا ہے تو وکیل کو اصل کہانی کا پورا اندازہ ہو جاتا ہے۔ وکیل آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اُس کا مؤکل واقعی بے قصور ہے یا مجرم ہونے کے باوجود بے قصور ثابت ہونا چاہتا ہے۔ ہمارے ہاں بہت ہی کم ایسے وکلاء ہیں جو بھاری فیس کے عوض بھی مجرم مؤکل کا دفاع کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ ورنہ عموماً مجرم مؤکل کی وکیل کو فیس کی ادائیگی کے بعد محنت کے ساتھ دفاعی دلائل کی تیاری شروع کردی جاتی ہے۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد کیا ہمارے وکلاء اس بات کا اخلاقی عہد کرسکتے ہیں کہ کبھی کسی مجرم مؤکل کے وکیل نہیں بنیں گے؟ اس طرح سزا سے پہلے کسی مجرم کی ضمانت بھی نہ ہو سکے گی۔ سارا پاکستان میڈیا کو کوڈ آف ایتھکس کی نصیحتیں کرتا ہے۔ کیا سارا پاکستان مجرموں کی وکالت نہ کرنے کے حوالے سے وکلاء کے لئے بھی کسی کوڈ آف ایتھکس کا مطالبہ کرسکتا ہے؟ سِول ہسپتال کوئٹہ کا سانحہ قیمتی جانیں لے گیا مگر منافقت کو پہچاننے کا آئینہ دے گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں