پاکستان میرے رب کی عطا کردہ نعمت ۔۔۔۔ڈاکٹر ایم آئی درانی

image

کسی زمانے کی بات ہے کہ بندروں کے ایک گروپ کو کہیں سے ایک ناریل مل گیا اب ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کھانے کی چیز ہے یا کھیلنے کی ان بندروں کے بڑے بڑے دانشور بیٹھے کہ یہ کیا چیز ہے لیکن فیصلہ نہ کر پائے کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے

ایک ملک میں رواج تھا کہ جب بھی کسی بادشاہ کا انتقال ہوتا تو شہر کے دروازے پر سب سے پہلے آنے والے کو یہ بادشاہ بنا ڈالتے اتفاق کہ بادشاہ کا انتقال ہوا دوسرے دن شہر کی فصیل کا دروازہ کھولا گیا تو ایک زمانے بھر کر بھوکا فقیر وہاں موجود تھا جسے بڑے دھوم دھام سے شہر لایا گیا تخت پر بٹھا کر اسے بادشاہ بنا دیا گیا اور اس سے کہا بادشاہ سلامت حکم کیئجئے کیا خدمت کی جائے بادشاہ جو زمانے کا بھوکا تھا اس نے موقعہ بہتر جانا کہ نجانے کب آنکھ کھل جائے اور سپنا ٹوٹ جائے حلوے اور اچھے کھانوں کی فرمائش کر دی دنیا جہاں کے کھانے سامنے لائے گئے بادشاہ سلامت اس نعمت پر دشمن کی طرح ٹوٹ پڑے جب بھی امراء وزراء کسی حکم کا کہتے وہ یہی حرکتیں کرتا پڑوس کے ملک کو یہ سنکر کہ وہاں کا بادشاہ اس قماش کا ہے کہ سوائے کھانے کے اسے کسی چیز کی فکر ہی نہیں اس نے حملہ کر دیا ملک کے جنرل دوڑے دوڑے آئے باشاہ سلامت اب تو ملک پر حملہ ہو چکا آپ بھی تیار ہو جائیے بادشاہ نے کہا یارو میرا وہ اثاثہ کہاں ہے جو میں پہلی مرتبہ یہاں آتے ہوئے ساتھ لایا تھا فقیر کا سامان لایا گیا اس نے سامان کو بغل میں دبایا اور کہا
دوستو میں تو یہاں کھانے کمانے آیا تھا جنگ لڑنے نہیں تم جانو تمہارہ ملک میں تو چلا
اب آپ غور کریں پاکستان آج الحمداللہ 71 سال کا ہو چکا 71 سال میں پاکستان کے ساتھ کیا کچھ کھیل کھیلا گیا قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد اور چند کنے چنے افراد کے بعد تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس تناور درخت کے ساتھ جسے پھل دار درخت بنکر مسلمانان ھند کے لیئے امید کی کرن بن کر افق پر چھا جانا چاھیئے تھا دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے اس تناور درخت کو دیمک کی طرح کچھ لوگ چمٹ گئے اور آج موجودہ وقت تک اس درخت سے چمٹ کر اس کا لہو چوس چوس کر خاندان کے خاندان زمین سے فلک تک پہنچ گئے جو لوگ اس ملک کے خیر خواہ تھے وہ نجانے کن راہوں میں کھو گئے اور وہ لوگ جو کبھی شریک سفر بھی نہ رہے آج جمہوریت کے پھل کے نام پر اس ملک کا اس کے عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی چوس لینا چاھتے ہیں
جب بات جمہوریت کی کریں گے تو کوئی مجھے اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کے ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر بنگالی حکومت کے حقدار بن چکے تھے آخر کیوں انھیں ان کے حق سے محروم رکھا گیا ایک ایسے جنرل کو اقتدار تک لانے والے وہ کون لوگ تھے جو جانتے بوجھتے کہ یحیی خان کس قماش کا آدمی ہے اسے مسند اقتدار پر بٹھا دیا گیا الیکشن کے بعد ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگا کر دلوں میں نفرت اور بدمزگی کیوں پھہلائی گئی بنگلا دیش کو آزاد بنانے میں کس کا کیا کردار رہا یہ سب عوام الناس کے حافظے میں محفوظ ہے پھر ہم یہاں سے قدرت کے اس انصاف کی جانب بڑتے ہیں کبھی غور کریں اگر فرصت ملے تو خدا کے فیصلے کو دیکھیں سمجھیں کہ جب خدا کا انصاف شروع ہوتا ہے تو پھر اسے روکنے والا صرف میرے رب کی زات ہی ہے
شیخ مجیب جو بابائے قوم تھا بنگالیوں کا بے دردی سےاپنی آرمی کے ہاتھوں المناک موت کا شکار بنا سوائے حسینہ واجد کے۔اندرا گاندھی اپنی فوج کے سکھ اہلکار کے ہاتھوں برباد ہوئیں راجیو گاندھی سمیت پوری نسل کا خاتمہ ہوا ۔بٹھو صاحب بھی آرمی کا شکار بنے اور آج ان کی بھی تقریبا پوری نسل کا خاتمہ ہو چکا سوائے صنم بٹھو کے یہ اور بات ہے کچھ افراد خود کو بٹھو ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔روس جس کے اس تمام کھیل میں ایک اہم حصہ لیا بربادی کی ایک تاریخ رقم کر گیا خود اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے
تاریخ کے طالبعلموں کے لیئے پاکستان کی اس کہانی میں بے شمار سبق ہیں کے جس جس نے اس ملک کے ساتھ بربادی کا کھیل کھیلا وہ خود برباد ہوئے بلکہ بے نام و نشان ہوئے
آج 71 سال بعد بھی یہی کہانی بار بار دھرائی جا رہی ہے کبھی خیبر پختون خواہ میں طالبان کبھی بلوچستان میں بلوچ آرمی کبھی سندھ میں کبھی پنجاب میں لیکن پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالے بغیر کے یہ میرے رب کی عطا ہے کہ اس کے سینکڑوں نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جسے برباد کرنے والوں کے خواب ہمیشہ خواب ہی رہے
لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ سازشیں تو ہوتی رہیں اور ہوتی رہیں گے لیکن ہم بحیثیت ایک قوم کے تنزلی کا شکار کیوں ہیں ہم مسلسل چٹان سے گہرائی کی جانب کیوں گرتے چلے جا رہے ہیں دوستو جب میرا رب فرمائش ہے اللہ کی راہ کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ فرقہ نہ ہو جاو اور فرقوں میں بٹو گے تو تباہی بربادی تمہارہ مقدر بن جائیگی
ایوب خان اور بٹھو صاحب کے دور حکومت کے بعد حکمرانوں نے ایک بات بہت اچھی طرح سمجھ لی کے پاکستان میں کامیاپ حکومت کرنی ہے تو انھیں مختلف زبانوں مسلکوں فرقوں میں تقسیم در تقسیم کر دو نہ ان میں اتفاق ہو گا اور نہ یہ ہمارے لیئے مسائل کا باعث بن سکیں گے آپ غور کریں آج کے اس پاکستان میں آپ کو مسلکی اختلاف فرقہ ورانہ اختلاف لسانی اختلاف سمیت سینکڑوں اختلافات نظر آئینگے کہیں بھی پاکستانیت نظر نہیں آئیگی لیکن یہ تمام اختلافات عوام الناس تک ہیں رہبران قوم میں کہیں کوئی اختلاف ہمیں دور تک نظر نہیں آتا کیا ہم بھول چکے کہ کراچی میں پٹھان اردو قتل و غارتگری کے عروج پر قومی اسمبلی میں MQM کے عباس رضوی اور ANP کے لیڈروں کے مابین قہقہے کس کو سنائی نہ اور کس نے نہ دیکھے
قومی اسمبلی میں 2 روپے کی روٹی اور عوام الناس کو 10 روپے کی روٹی سے کون انکار کر سکتا ہے
رہبران قوم کے اسکول درس گائیں کہاں اور عوام کے اسکولوں کا معیار کیا ہے اس سے کون صرف نظر کر سکتا ہے
عوام کو علاج کے نام پر زلیل اور سرکاری اسپتالوں میں دھکے اور لیڈران قوم کے لیئے لندن امریکہ و دبیئ سے کون انکار کر سکتا ہے ۔عوام دو وقت کی روٹی نہ ملنے پر بچوں سمیت خودکشیاں کرتے پھر رہے ہیں لیکن لیڈران اور ان کی نسلیں گیدڑ سنگھی کے بل پر دن دونی رات چنگنی ترقی کر رہے ہیں جو کبھی موٹر سائیکل بھی مشکل سے رکھتے تھے آج لینڈکروزر کے مالک کہاں سے بن بیٹھے پاکستان کی قیمتی زمینیں بیچھ کر لندن اور دبئی میں کھربوں کی سرمایہ کاری کرنے والے رب کے انصاف کا انتظار کریں میرا یقین ہے کہ وہ انصاف آئیگا اور ضرور آئیگا جب تاج اچھالے جائیں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں