جوڈیشل کمیشن

image

پاکستان میں ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہو ئی مختلف ادوار میں ہر وہ جماعت جو انتخابات ہار جاتی وہ یہی کہتی کہ ہمیں دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا ہے اور کچھ دن شور
بھی مچاتی اور پھر کچھ دن کے بعد سب بھول جاتے کہ انتخابات میں کس کے ساتھ کیا ہوا ۔اسی طرح پچھلے عام انتخابات میں بھی تقریبا تما م جماعتو ں نے مختلف طریقوں سے مختلف جماعتوں پر دھاندلی کے الزامات لگائے ۔کسی نے کہا کہ سندھ میں ان کے ساتھ دھاندلی ہو ئی تو کسی نے خیبرپختونخواہ ،کسی نے بلوچستان اور کسی نے کہا کہ پاکستان کے سب سے
بڑے صوبے پنجاب میں انکو دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا۔ لیکن اس بار انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے بہت زور شور سے انتخابات میں دھاندلی پر شور مچایا اور پھر عمران خان نے چار حلقوں کی تحقیق کا مطالبہ کیا اور تحریک انصاف نے اسمبلی سے لیکر میڈیا اور اعلی عدلیہ تک یہ آواز اٹھائی کہ دھاندلی کی تحقیقات کی جائے۔ جس کی وجہ سے لانگ مارچ کیاگیا۔ پھر اسلام آباد میں ایک سو چھبیس دن کا طویل دھرنا بھی دیا گیا ۔جس میں حکومت کی ہٹ دھرمی اور ریاستی دہشت گردی بھی نظر آئی ۔ احتجاج کرنے والو ں کی تنظیمی کمزوریاں اور کچھ غلط فیصلے بھی دیکھنے کو ملے ۔جس کی وجہ سے بہت سے معصوم لوگو ں کی اموات ہوئی اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے ۔جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
بدقسمتی سے کسی کو بھی اس سب کاذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ حکو مت کی طرف سے کہا گیا کہ ریاست کے خلاف بغاوت کی گئی جس کی وجہ سے مجبور ہو کر طاقت کا استعمال کیا گیا ۔
احتجاج کرنے والوں نے کہا کہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں. آزادی کوئی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیتا ۔آزادی حاصل کرنے کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے۔ یہ سب ہماری سیاسی جماعتوں کی کمزوری تھی کہ سب نے کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے لیکن تحقیقات ہو ئی تو جمہوریت کو خطرہ ہے۔ جس کے نتیجے میں سینکڑوں گھروں کی خوشیاں غم میں تبدیل ہو گئیں اور پھر
آخر کار کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ حکو مت کے پاس جوڈیشل کمیشن بنانے کے سوا کو ئی چارہ نہ رہا ۔ دھرنا ختم ہونے کے بعد حکومت پر عوام ،میڈیا ،اپوزیشن اور سب سے
بڑھ کر فوج کا دباؤ تھا کیو نکہ ملکی حالات کے پیش نظر پھر سے دھرنوں کی سیاست سے ملک کا سارا نظام متاثر ہونا تھا اب جب انکوائری کمیشن بن گیا تو سب جماعتوں نے فریق بننے کا فیصلہ کیا ۔اس طر ح ملک کی بیس سے زائد چھو ٹی بڑی جماعتیں کمیشن میں پیش ہو نے کے لئے پہنچ گئیں اور دھاندلی کے ثبوت بھی پیش کرنا شروع کر دیے اور تو اورکچھ دن پہلے ہمارے محترم وزیراعظم صاحب ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ا نتخابات میں دھاندلی تو ان کے ساتھ بھی ہوئی ۔اب یہ بات تو بالکل واضع ہو گئی کہ عام انتخابات صاف شفاف نہیں ہوئے اس لئے کو ئی تحقیق کی بھی ضرورت نہی رہی۔ ظاہر ہے جب پاکستان کی تمام جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ دھاندلی ہو ئی ہے تو پھر تو کو ئی شک ہی نہیں رہتا کہ یہ اسمبلیاں جعلی ہیں اور الیکشن کو کالعدم قرار دے دینا چاہیے۔ہاں البتہ اب اس بات کی انکوائری ضرور ہونی چاہئے کہ کس نے کہاں پر کتنی دھاندلی کی کچھ دن پہلے ہی خواجہ سعد رفیق کو الیکشن ٹربیونل کی طرف سے نا اہل قرار دیا گیا جس پر کہا گیا کہ اس میں ریٹرننگ افسران ذمہ دار ہیں ہم نے تو کچھ نہیں کیا۔ کو ئی ان سے پو چھے کہ کسی امیدوار نے
جا کر خود مہریں لگانی تھیں ظاہر ہے اگر دھاندلی کرنی تھی تو انتخابی عملے کے زریعے ہی کرنا تھی اور لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ ایک حلقے کا فیصلہ دو سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد کیا گیا اور
پھر دو دن کے اندر ہی اعلی عدلیہ سے اسٹے آرڑر لے لیا گیا اور پھر یہ بھی ذہن میں رکھیں کے مقابلے میں پاکستان کی وکالت کا بہت بڑا نام حامد خان تھا پھر بھی دو سال لگ گئے۔ وہ بھی ادوھورا انصاف ملتے ملتے اگر کوئی عام آدمی ہو تو وہ کہاں سے اتنے اخراجات پورے کرے گا اور اسے انصاف کہا ں سے ملے گا ۔تحریک انصاف کو بھی چا ہئے کہ وہ کمیشن سے درخواست کرے کہ جناب آپ خود اس بات کی تحقیق کریں کہ دھاندلی ہو ئی کہ نہیں کیو نکہ کمیشن کو اسی لئے اختیارات دئے گئیں ہیں کہ وہ تحقیقات کے لئے کسی بھی ادارے سے مدد لے سکتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اس طرف کو ئی نہیں جا رہا ۔ہر روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں