کوہِ نور کی کہانی … تحریر : حمیرا علیم

چوری شدہ ہیرا ۔شاید آپ کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہو کہ ملکہ برطانیہ الزبتھ کے تاج کو سجانے والے تین اہم ترین زیورات درحقیقت چوری ہو گئے تھے۔
ان میں سے پہلا کوہ نور ہیرا ہے جو مسلم مغل سلطان “جہان سلطان” کے تاج کا حصہ تھا یہ ہندوستان کے کئی سلاطین کے پاس رہا۔ا اور برطانیہ نے1849 میں پنجاب کے بادشاہ کو قتل کرنے کے بعد اسے حاصل کیا تھا۔
سرخ یاقوت غرناطہ کے شہزادے”ابو سعید الانصاری” کے زیورات میں سے ایک ہے۔جسے سیویل کے بادشاہ پیڈرو دی ٹیریبل نے زیورات حاصل کرنے کے لیے مدعو کیا اور قتل کر دیا تھا۔
پھر پیڈرو کے غدار بھائیوں میں سے ایک نے اس کے خلاف بغاوت کی تو اس نے انگریز شہزادے ’’ایڈورڈ ووڈ اسٹاک‘‘ سے مدد طلب کی اور موخر الذکر نے سرخ یاقوت حاصل کرنے کی شرط پر مطلوبہ فوجی مدد فراہم کی کولنین ہیرا، جو برطانوی تاج کا حصہ ہے،1905 میں جنوبی افریقہ کی ایک کان سے نکالا گیا تھا اور افریقیوں کو اس کان کی کھدائی کے لیے غلام بنا لیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان میں سے سیکڑوں اس کے گڑھوں میں مر گئے۔
یہایک ایسے پتھر کہ کہانی ہے جو دکن کی کان سے ہوتا ہوا تاج برطانیہ کی زینت بنا مگر اس سفر کے دوران اس نے بھیانک تباہی مچائی۔کہا جاتا تھا کہ جو شخص بھی اسے پہنے گا وہ تباہ ہو جائے گا۔”
کوہ نور جو کہ 105 قیراط کا ہیرا ہے کہاں سے آیا کیسے آیا کچھ پتہ نہیں۔بعض روایات کیمطابق تیرہویں صدی سے پہلے یہ راجا وجیے نگر کے دور میں دکن کی کان سے نکالا گیا۔اس پتھر کے اندر ایک نشان تھا جسے تراشنے کے باوجود ختم نہ کیا جا سکا۔ہمیں اس کاذکر سترہویں صدی میں مغل بادشاہ شاہجہاں کے دور میں اس وقت ملتا ہے جب اس نے اپنامور کی شکل والا تخت بنوایا جو ہیرے جواہرات سے مرصع تھا۔اس تخت کے اوپری حصے میں مور کی آنکھ میں یہ ہیرا موجود تھا ۔
جب نادر شاہ نے 1739 میں دہلی فتح کیا تو مغل بادشاہ کا خزانہ بھی لوٹا۔کہا جاتا ہے کہ اس ہیرے کو دیکھ کر اس نے فارسی میں بےساختہ کہا تھا۔
” ایں کوہ نور۔یہ روشنی کا پہاڑ ہے۔” بس اس وقت سے اسے کوہ نور پکارا جانے لگا۔اس کیبعد ہمیں اس کا ذکر مختلف تاریخی واقعات میں ملتا ہے۔پہلے اسے نادرشاہ انڈیا سے فارس لے گیا پھر یہ افغانستان سے ہوتا ہوا دوبارہ انڈیا آ گیا۔بہت سے بادشاہوں نے اس کی خاطر کئی جنگیں لڑیں کیونکہ اسے بادشاہت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔بالآخر یہ اس مال غنیمت کا حصہ بن گیا جو برطانیہ انڈیا سے لیکر گیا۔کوہ نور کے بہت سے مالکان بدقسمتی سے دوچار ہوئے۔آخری حکمران جو اس کامالک تھا، مہاراجہ رنجیت سنگھ جس کے چار ولی عہد، ملکہ اور بہت سے سردار حکومتی مسائل کیوجہ سے قتل کر دئیے گئے۔مگر کیا اس کامطلب ہے کہ کوہ نور منحوس تھا؟؟
جب شاہ شجاع پاشا لاہور آیا تو کوہ نور اس کی بیوی وفا بیگم کو تحفے میں ملا۔جو اسے سینے سے لگا کر سوتی تھی۔ مہاراجہ اس سے ہر حال میں یہ ہیرا حاصل کرنا چاہتا تھامگر تلاش بسیار کے باوجود اسے ہیرا مل نہیں رہا تھا۔تب اس نے ایک وجیہہ مسلمان سپاہی کو، جو کہ وفا بیگم کا پہرے تھا، کہا کہ وہ اس کی خاص ملازمہ کا دل جیتنے کی کوشش کرے۔چھ ماہ کی بھرپور کوششوں کیبعد وہ ملازمہ لاہور کے نزدیک ایک جاگیر کے لالچ میں مان گئی اور ایک ہفتے کے اندر اندر ہیرے کے مقام کے بارے میں بتا دیا۔کہا جاتا ہے کہ اس ملازمہ کا خاندان آج بھی چونگ کے نزدیک بستا ہے۔
مہاراجہ نے اپنی بیوی کو یہ ہیرا تحفتا دیا۔اور یہ وصیت کی کہ اسے گولکنڈا کے کرشنامندر میں بھیج دیا جائے۔تاکہ اس کے جانشین اس کی نحوست سے محفوظ رہیں مگر اس کے لالچی ورثا نہ مانے۔جب اس کی قیمت لگوائی گئی تو یہ تقریبا 300 سرخوں کے برابر تھی اور یہ ایک بینظیر پتھر تھا۔
جب یہ ہیرا مال غنیمت میں برطانیہ پہنچا تو ملکہ وکٹوریہ کو لگا کہ ان کے تاج کی زینت بننے کیلئے یہ ہیرا بہت بڑا ہے۔لہذا 1852 میں گیرٹس لندن کو یہ ہیرا تراشنے کیلئے دیا گیا۔جنہوں نے اسے 186۔116 سے 108 – 93 قیراط کا کر دیا۔۔لیکن اب بھی اس کی قیمت کا اندازہ لگانا بیحد مشکل ہے۔
1901 میں ملکہ وکٹوریہ کی وفات کیبعد موجود ملکہ نے اس ہیرے کو اپنے تاج کی زینت بنایا۔آخری بار اسے اس وقت دیکھا گیا تھا جب اسے ملکہ وکٹوریہ کے تابوت پہ رکھا گیا تھا۔اب شاید کمیلا پارکر اسے شہزادہ چارلس کے بادشاہ بننے کیبعد پہنیں۔
جہاں تک بات ہے اس کی نحوست کی تو میرے خیال میں ایک ایسا پتھر جو خود کو تراش خراش سے نہیں بچا سکتا وہ کسی انسان کو کیا نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے۔انسانی فطرت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کی ہوس میں مبتلا رہتا ہے۔اسی لالچ کیوجہ سے کئی مہاراجوں اور بادشاہوں نے اس ایک پتھر کے پیچھے اپنا راج پاٹ گنوایا اور خاندان قتل کروائے۔لیکن جب یہی منحوس ہیرا ملکہ برطانیہ کے پاس پہنچا تو پچھلے سوا سو سال سے اس نے کسی کو برباد نہیں کیا۔اور ملکہ کا خاندان آج بھی اسے استعمال کر رہا ہے۔لہذا نحوست کسی چیز میں نہیں ہوتی بلکہ انسانوں کے اعمال میں ہوتی ہے
ملکہ برطانیہ کی وفات کے بعد اس ہیرے کے بارے میں ایک نئی جنگ چھڑ چکی ہے۔بھارے کا دعوٰی ہے کہ یہ ہیرا بھارت سے لیجایا گیا تھا اس لیے یہ ان کا ہے اور اب جبکہ ملکہ کا انتقال ہو چکا ہے تو یہ ہیرا انہیں واپس ملنا چاہیے ہے۔ان کی فلموں میں بھی اس مطالبے کو فلمایا گیا ہے اور پنجاب کے سکھ بھی اس کے دعوٰی دار ہیں۔جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ یہ ہیرا لاہور سے چوری کیا گیا تھا اس لیے یہ ہمیں واپس ملنا چاہیے ہے۔اس سلسلے میں کئی بار برطانوی حکومت سے عالمی قوانین کے تحت ثقافتی قیمتی اثاثے کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں جو کام بیرسٹر جاوید اقبال جعفری نے کیا ہے وہ انڈین یا سکھ نہیں کر پائے۔ان کا کہنا ہے:” 1957 میں جب میں لاء کالج سے تعلیم حاصل کر رہا تھا تب میں نے کوہ نور واپس لانے کی جدوجہد شروع کی۔اس وقت بھی کسی اخبار نے یہ خبر شائع نہیں کی۔صرف فرانسیسی خبر رساں ایجنسی نے محتاط کوریج کی۔اس وقت میرے کالج کے پرنسپل بھی میرے خلاف ہو گئے تھے۔میں 1962 میں کوہ نور کےحوالے سے ملکہ برطانیہ سے بھی ملا۔انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس بارے میں غور کریں گی۔”دو سال پہلے جاوید اقبال نے بتایا تھا کہ اس سلسلے میں ان کی ملہ سے خط و کتابت بھی رہی ہے۔جہاں ملکہ بھارتی مطالبے پر خاموش رہیں وہاں یہ بات حوصلہ افزا ء ہے کہ انہوں نے کوہ نور پاکستان کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔
ملکہ کی وفات کے بعداب ہیرا پاکستان کو ہی دیا جانا چاہیے ہے۔گذشتہ دنوں بھارتیوں نے ٹویٹر پر ہیرے کی حوالگی پر بہتشور مچایا مگر سوائے ٹاپ ٹرینڈ کے کچھ نہ کر سکے۔ہم نے قانونی چارہ جوئی کا راستہ اپنایا ہے اور اگر ہم اسے واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ مقدمہ یومیہ بنیادوں پر جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں