میرا بھی تجھ پر حق ہے ۔۔۔ تحریر : فوزیہ بلال ( گلستان جوہر کراچی)

سورج کی تپش جسموں کو جھلسا رہی تھی۔ مئی کی سخت گرمی نے ہر ایک کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔گھر میں آئے مہمان جنکا راستے میں گرمی نے خاصا حال خراب کردیا تھا۔میں کچن میں ان کیلئے مہمان نوازی کے حقوق ادا کرنے میں مصروف تھی کہ پڑوسیوں کی طرف سے چیخ و پکار کی آوازوں نے جسم سے جیسے جان نکال لی تھی۔وجود کی جمع کردہ قوت سے خود کو سنبھالتے جب میں پڑوس میں گئی تو سب گھر والوں کو روتا سسکتا دیکھا۔ خصوصی رشیدہ انٹی جو اچھی خاتون تھیں۔ انکے بچے کبھی انکو سنبھالتے اور کبھی خود رونے لگتے۔ ارد گرد کے باقی لوگ بھی جمع ہوگئے تھے۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ رشیدہ آنٹی کی بیٹی نے خود کشی کرلی تھی اور اس کی میت کو ہسپتال سے لایا جا رہا تھا۔ خود کشی کرنے کی وجہ یہی سامنے آرہی تھی کہ وہ کسی کو پسند کرتی تھی۔ اس لڑکے نے اس سے دھوکہ دیا جسکی وجہ سے اس نے خود کو ختم کردیا۔کچھ ہی دیر میں میت لائی گئی۔ لرزتے وجود کے ساتھ جب میں اسکے قریب گئی تو دل میں شدید درد محسوس ہوا۔ معصوم سا چہرہ سیاہ پڑ چکا تھا۔ہونٹ بلکل خشک اور سیاہ ہو رہے تھے۔کفن میں لپٹا وجود ادھورے خوابوں کے ٹوٹنے کی فریاد کر رہا تھا جو اس نے اس لڑکے کے ساتھ دیکھے تھے۔ اسکا وجود اور اس وجود کے اعضاء کھلی کتاب بنے اپنی بے قدری پر جیسے ماتم کناں تھے۔
لگتا تھا جیسے آنکھیں چیخ کے کھ رہی ہوں کہ ابھی تو میں نے بہاریں دیکھنی تھیں لیکن تم نے مجھے پہلے ساکت کردیا
خشک اور سیاہ پڑتے ہونٹ اپنی نازکی اور ہنسی کے کھو جانے سے سسک رہے تھے۔
ایسا لگتا جیسے بند ہوتی سانسیں ،ساکت ہوتا یہ دل کھ رہا ہو کہ ان سانسوں نے ہواؤں کے سنگ اڑنا تھا بلندیوں کو چھونا تھا۔ اس وجود نے ایک مقام بنانا تھا لیکن اس سے قبل ہی انکو دبا دیا گیا۔وجود سے سانسیں کھینچ لی گئی۔ دل کی دھڑکنوں کو خاموش کردیا گیا۔ہنسنا کھیلنا کودنا تو باقی تھا لیکن کیا کرتے اس وجود کا جس نے سپرد خاک ہوجانا تھا ۔ دُنیا کے ان مٹی کے پتلوں کیلئے وہ خود کو خود ہی مٹی کرگیا تھا ۔یہ منظر دیکھتے اس وجود کی بے قدری پر مجھ سے مزید وہاں نہ رکا گیا میں گھر آئی مہمانوں کو خوش اخلاقی سے روانہ کیا اور جائے نماز بچھا کر بیٹھ گئی۔ دل تھا کے خاموش لیکن درد سے پھٹنے کو تیار۔ آنسوں تھے کہ رکتے نہ تھے۔ سوچیں تھیں کے بے سکون کر رہیں تھیں۔ دکھ یہ شاید کم تھا کہ وہ لڑکی مر گئی تھی لیکن یہ اذیت اندر اندر مجھے مار رہی تھی کہ اس نے خود کو خود ہی ختم کردیا۔ ایک انسانی پتلے کیلئے۔ جس نے اس سے اسکی خوشیاں چھن کر اس کے دل کو کالی کوٹھری بنا دیا تھا۔ مرنا تو ہر انسان نے ہے لیکن اس طرح کی اموات خود قابل افسوس ہیں۔یہ محبتیں ،یہ پسند، یہ چاہتیں ،یہ دوستیاں کیسی ہیں ؟ جو جینا سکھانے کے بجائے موت کے گڑھے میں ڈال دیتی ہیں۔ یہ کیسی محبتیں ہیں ؟ جو عزت دینے کے بجائے ذلت و رسوائی دے جاتی ہیں۔ یہ کیسی محبتیں ؟ یہ کیسی دوستیاں؟ جس سے انسان ہنسنا بھول جائے، خود کی قدر کرنا بھول جائے اور خود کو بے قدر کرتے اپنی دُنیا و آخرت کو ختم کردے۔آج کے نوجوانوں میں بڑھتی یہ محبتیں دوستیاں ، معاشرے میں پھیلتا ناسور بن چکی ہیں ، یہ ایسی مہلک وبائیں ہیں جو انسان کی وقعت کو ختم کرتی جا رہی ہیں۔اپنا آپ بے مول کرتی جا رہی ہیں۔ انسان خود کی عزت نفس کو ہی فراموش کرتا جا رہا ہے ۔خود کے احساسات و جذبات کی پیروی کرتے کتنے لوگوں کا غلام ہوتا جا رہا ہے ۔ ہر کسی کے آگے اپنے دل کی تسکین کیلئے جھکتا چلا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا لا چاری معذوری ہوگی کے محب اپنے محبوب کی وجہ سے ہنسیں ، اس سے بڑھ کر اور کیا محتاجی ہوگی کہ محبوب ناراض ہوجائے تو محب کے ہونٹوں کی ہنسی ختم ہوجائے۔دل کو سکتہ لگ جائے ،ہزاروں لوگوں کے ساتھ بھی تنہائی محسوس کرے ، محفلوں میں اُداس بیٹھا تماشہ دیکھتا رہے، اس سے بڑھ کر اور کیا معذوری ہوسکتی ہے کہ آج کی جھوٹی محبتیں اپنا اصلی چہرہ دکھائیں تو ایک ہنستا ،چہکتا وجود خود کو موت کے گھاٹ اتارتے اپنے آپکو دہکتی جھنم کی آگ کے حوالے کردے۔ کہتے ہیں وہ شخص معذور ہے اسکے پاس اسکا ہاتھ نہیں، کہتے ہیں یہ شخص معذور ہے چل نہیں سکتا اس کے پاؤں نہیں۔ اس شخص کے بارے کیا کہا جائیگا جس کے پاس سب کچھ ہے لیکن پھر بھی وہ محتاج ہے۔ لوگوں کی توجہ کا محتاج ہے ۔ محبوب کی خوشی دیکھنے کا محتاج ہے کے محبوب خوش ہو تو خود کے ہونٹوں کو ہنسی کا تحفہ دے ، یہ غلامی ، محتاجی، معذوری نہیں تو اور کیا ہے؟ ہنستے کھیلتے وجود آج کی محبتوں ،دوستوں کی وباء میں اپنی ہر خوشی ،اپنی اور گھر کی عزت کو بھول جائیں ۔دو دن کی محبت میں بھکاری بن جائیں ، ہنسنے، مسکرانے، خوشی منانے کے قابل نہ رہیں۔ اس محبت کے مرض سے بڑھ کر اور کوئی مرض اتنا مہلک نہیں ہوسکتا جس میں ایک محب درد کی اذیت کو موت کی صورت دے دے۔ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک مرض آج کی یہ دو نامی محبتیں اور دوستیاں ہیں جو منٹوں میں انسان کی چلتی سانسیں روک رہی ہیں اور کوئی انکو سمجھ بھی نہیں پا رہا۔ انسانوں کی یادوں کا نشہ ،کسی کے ساتھ کا نشہ، کسی کے سہارے کا نشہ جان لیوا ثابت ہو رہا ہے ۔ آج کی نوجوان نسلیں اپنا وقار و حیثیت ، اپنی پہچان و عزت ،اپنا مقام و نام برباد کرتی جا رہی ہیں۔ کام کے لوگ بے کار ہوتے جا رہے ہیں۔ میں لرز جاتی ہوں جب کسی لڑکی کو کسی کی یاد میں سسکتا دیکھتی ھوں۔ میں لرز جاتی ہوں جب دیکھتی ھوں کے با وقار لڑکا سڑک پے آنکھیں لال لئے دنیا سے بے خبر کسی کی یاد کے نشے کو ختم کرنے کیلئے سگریٹ اور دیگر نشہ آور چیزوں کا شکار ہو رہا ہے۔انسان خود کیلئے خود کافی کیوں نہیں ہو پا رہا؟ دوسروں کے پیچھے بھاگنا کب تک؟ اپنی عزت کو روندنا کب تک؟ کسی کی بلیک میلنگ سے بستروں کی زینت بننا کب تک؟ محبوب کی ناراضگی کے ڈر سے اسکی جدائی کے ڈر سے اپنی عزت روند دینا کب تک ؟ یہ وجود و سانسیں تو رب کی دی ہوئی امانتیں ہیں ان میں خیانت کب تک ؟ جھوٹی محبتوں کے نشے میں عزتوں کی پامالی کب تک ؟ آخر آج کی یہ نوجوان نسل سمجھ کیوں نہیں رہی کے وہ کس قدر خاص ہے اس وطن کی طاقت و وقار ہے اگر وہ خود کو ٹھیک جگہ استعمال کرے تو اس جیسا کوئی نہیں۔ اپنے لیے جینا کب شروع ہوگا ، اپنی پہچان بنانا ، خود سے محبت کرنا ،خود کو خود کیلئے مکمل کرنا ،خود کو بنا کسی کی محتاجی کے ہنسانا ،خود سے دوستی کرنا ، خود سے شناسا ہونا ، خود کے خوابوں کو خود کیلئے مکمل کرنا، اپنے لیے وقت نکالنا ، اپنے آپ سے اظہار محبت کرنا ، اپنی عزت کیلئے اقدام اٹھانا ، اپنے حق کیلئے لڑنا کب ہوگا۔ اپنے آپ کو بھولنے کا سلسلہ آخر کب ختم ہوگا ؟ خود کو کھولنا بنانا اور دوسروں کو کھیلنے کا موقع دینا کب تک ؟ دوسروں کے بل بوتے کب تک رہ کر خود کو بے نام رکھا جائے گا۔ یاد رکھیں خود سے بڑھ کر اس جہاں میں کچھ بھی نہیں، آپ کیلئے ہی جہاں سجایا گیا ، اسکی مضبوطی کیلئے رب نے خوب صورت پہاڑ کھڑے کردیئے ، سواری کو انسان کے تابع کردیا گیا ، زمین و آسمان میں ہزاروں ایسی نشانیاں ہیں جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کے انسان عام نہیں ، انسان خاص ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج انسان خود کو معذور کر بیٹھا ہے ، غلام ہو بیٹھا ہے ، سہاروں کا غلام ، کسی کے عمر بھر ساتھ چلنے کا غلام۔ اللّہ نے آزاد پیدا کیا ہے اس آزادی کو تسلیم کرتے خود کو ہر چیز سے آزاد رکھیں، دوستیوں سے، محبتوں سے، اپنی جسم کی معذوری کو نکالیں ،خود کو آسانی دیں، خود کو زندگی دیں، اپنی جوانی و عزت کو برباد ہونے سے بچائیں۔یہی معرفت کا پہلا راستہ ہے بزرگ حضرات فرماتے ہیں جس نے خود کو پہچان لیا اس نے رب کو پہچان لیا۔ اس پہچان کو سمجھنے کیلئے ہر ایک کو خود کو وقت دینا ہوگا ،خود کو عزت و محبت دینی ہوگی۔ اپنا بننا ہوگا۔ہر اس چیز سے دستبرداری اختیار کرنی ہوگی جو بے سکونی کا سبب ہیں۔ یاد رکھیں جو دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے دُنیا اس سے اپنے پیچھے تھکا دیتی ہے اور وہ ہمیشہ لوگوں کے پیچھے بھاگتا ہی چلا جاتا ہے اور جو دنیا سے ،لوگوں سے بے نیاز ہوجائے تو یہی لوگ اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ خاص کرتے ہیں۔ جو رشتہِ ذہنی مریض بنانے لگے اس سے دستبرداری لازم ہے۔تاکہ جسم و جاں کو آرام دیا جائے۔ کبھی سوچیں تو بروز قیامت اگر ہمارے جسم نے ہم سے کھ دیا کہ تم نے لوگوں کیلئے مجھے تھکایا۔ مجھے آرام نہ دیا،مجھے دُنیا میں بے وقعت کیا تو بتائیں کیا جواب دیں گے؟ اگر دل نے کہہ دیا کہ اس دل میں بسنے کا حق تو رب کا تھا تم نے دُنیا کی حقیر دوستیوں اور محبتوں کیلئے اس کو در بدر کیا ،مجھے اطمینان کے راستے پر نہ رکھا تو کیا جواب دیں گے ؟ اگر بہتی آنکھوں اور ضبط کئے ہونٹوں نے کھ دیا کہ تم نے ہمیں روشنی نہ دی، ہنسی کے اسباب سے دور رکھا تو کیا جواب دیں گے ؟ ہم پر ہمارا حق ہے، اللہ کے دیئے وجود و جاں کی،اس امانت کی پاسداری ہم پر واجب ہے۔ ہمیں دنیا میں اس لیے نہیں بھیجا گیا کہ ہم لوگوں کے احساسات و جذبات محبت و توجہ کے غلام بن کر رہ جائیں بلکہ ہمیں اس لیے بھیجا گیا کہ ہم اس دُنیا میں اپنی قدر کرتے اپنی ذات کو بلند رکھتے اپنی الگ دُنیا بنائیں ، جس میں رب کی رضا ہو ،جس میں اپنی قدر ہو جس میں محتاجی کم خود داری زیادہ ہو
چھوڑو یہ قصہ نفرتوں کا
ایک لمحہ کو سوچو تو تمہیں خود سے محبت کتنا ہے؟
چھوڑو یہ قصہ دھوکہ و فریبی کا
ایک لمحہ کو سوچو تو تم نے خود سے وفا کب کی ؟
چھوڑو یہ قصہ نظر انداز ہونے کا
ایک لمحہ کو سوچو تو تم نے خود پر کب نظر ڈالی
چھوڑو یہ قصہ جھٹلائے جانے کا
ایک لمحہ کو سوچو تو تم نے اپنی بکھری ذات کو کب کب سنبھالا ؟
ان آخری الفاظ کی ادائیگی میں میری معلمہ کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں اور آواز رونے کے سبب بھاری معلوم ہونے لگی تھی۔ ھال میں بیٹھی تمام طالبات نے کھڑے ہوکر انکو سراہا تھا اور اپنے جذبے سے یہ احساس دلایا تھا کہ وہ اب خود کو پہچانیں گیں خود کو عزت دیں گیں، خود سے دوستی کریں گیں۔ مدرسہ کی معلمہ نے بیان کیا تھا آج کل کے نوجوانوں میں بڑھتے جذبات کو وباء کا نام دیتے انکو آئینہ دکھایا تھا۔اور سب ہی اس سے متفق ہووے تھے۔ اور محبت بھری نظروں سے انکو عقیدت پیش کر رہے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں