احساس ۔۔۔ تحریر : فوزیہ بلال ( گلستان جوہر کراچی)

احساس ان الفاظوں کی ادائیگی میں ہی تازگی محسوس ہوتی ہے اپنا آپ آزاد محسوس ہوتا ہے۔ بہت سے ایسے لوگ دیکھے جن کے پاس دولتوں کے انبار تھے پر احساس نام کا کوئی ذرا بھی نہ جھلکتا تھا اور بہت سے ایسے لوگ بھی دیکھے جو خالی ہاتھ تھے لیکن ان کے پاس خوب صورت دل جو احساس جیسے جذبے سے لبریز تھا اس نے اسکو بلند کردیا انسان ہونے کی ،ضمیر کے زندہ ہونے کی سب سے پہلی نشانی یہی احساس ہے۔ نعمتوں میں سے اونچی نعمت یہی احساس ہے۔ اور احساس سے ہی معلوم ہوتا ہے انسان میں سانسوں کی رمز ،دل کی چال و حرکت برقرار ہے اگر احساس نہیں تو بس ایک انسانی نما ڈھانچہ ہے جو انسانوں جیسی حرکات و سکنات تو کرتا ہے لیکن انسانوں جیسے جذبات و احساسات سے عاری ہے۔ وہ دیکھتا ، سنتا ضرور ہے لیکن دیکھنے ،سننے کی اصل لذت سے محروم ہے۔ایسی بصیرت پر افسوس جو درد سے چور وجود کو دیکھ نہ سکے، ایسی سماعت پر افسوس جو کسی کی سسکیوں میں چھپی اذیت کو سن نہ سکے ، اور ایسے وجود کی سلامتی پر افسوس جو مخلوق کو نفع نہ دے سکے، ضروری نہیں کہ جیب بھری ہو تو کسی کی مدد کی جا سکتی ہے نہیں ،احساس بھرا ایک جملہ کسی کو جینے کی وجہ بھی تو دے سکتا ہے ، کسی خاموش بیٹھے شخص کو ہنسا دینا ،اسکو سن لینا ، اس کے درد کو جملوں سے بانٹ لینا بھی ممکن ہے ، کسی ذہنی دباؤ جیسے آدمی سے ہنسی مذاق کرلینا کہ وہ آپکے ساتھ ، آپکی باتوں سے کچھ وقت کیلئے اپنے مسائل بھول جائے ایسا بھی تو ممکن ہے۔ کسی آنسوں بہاتے وجود کو گلے سے لگا لینا اور تھپکی دینا کہ وہ خود میں حوصلھ محسوس کرے ایسا بھی تو ممکن ہے۔ آج کی اکثریت نے یہی سوچ لیا کہ میں خود مسائل میں جکڑا ہوا ہوں کسی اور کی مدد کیسے کرسکتا ھوں اس جملے نے ،اس سوچ نے جانے کتنے شیریں جملوں کو نگل لیا ، اخلاقیات کو نگل لیا، کبھی کبھی ایک صرف ایک جملہ ،صرف ایک اور صرف ایک تھپکی، صرف اور صرف ایک مسکراہٹ جینے کی وجہ بن جاتی ہے کیا ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے ، آج ہمارے ہی سامنے حادثات ہوتے ہیں اور ہم بس کیمرہ آن کر کے ویڈیو بنا کر آگے بھیج دیتے ہیں ، سسکتے تڑپتے انسان کو بس دیکھتے ہی جاتے ہیں لیکن موبائل اور ویڈیو بنانا اسکے وجود اسکی جان سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے ،آج ہمارے ہی سامنے محلے میں لڑائی ہو تو سب کے سب جمع ہوکر تماشہ دیکھتے رہتے ہیں آگے بڑھ کر خاموش نہیں کروایا جاتا ، ایسا کیوں ، ضمیر و احساس کے مرنے پے فاتحہ پڑھیں کہ اس انسان کے زندہ ہونے پے فاتحہ پڑھیں جس ضمیر و احساس نام کی کوئی چیز سلامت نہیں رہی، اس احساس کی موت پر تو خونی رشتے بھی کھوکھلے اور ڈھول جیسے محسوس ہوتے ہیں جو بجتے ، اور شور تو بہت مچاتے ہیں لیکن انکا کوئی وزن نہیں ہوتا، بس بنا ساز و سر کے جگہ گھیر لیتے ہیں لیکن ان کے ہونے نہ ہونے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا، آج کسی کی بھلائی بھی صرف ویڈیو بنانے کی حد تک کی جاتی ہے کہ ہمارے فالورز زیادہ ہوں ،ہمارے چاہنے والے زیادہ ہوں، کیا ضروری ہے کہ تھوڑی سی اچھائی کیلئے بھی موبائل کا سہارا ہو، لوگوں کی تعریفیں وصول ہوں۔
اے انسان تو سمجھ خود کہ
تُجھ میں تُجھے انسانیت کا رتبہ و عہدہ دینے والی چیز فقط تیرے اندر کا احساس، تیرے اندر کا ضمیر ہی ہے ورنہ انسانوں میں اور جانوروں میں فرق مشکل نہیں۔ اے انسان اپنے زندہ ہونے پے نہیں بلکہ اپنے اندر احساس کے زندہ ہونے پے سجدہ شکر کر اور اگر اپنے وجود میں احساس و ضمیر کو مردہ پا تا ہے تو اسکو زندہ کر ، رب سے معافی مانگ کیوں کہ اگر یہ تجھ میں نہیں تو مارکٹ میں بنے چونے کے انسانی وجود میں( جن سے لباس کی نمائش کا کام لیا جاتا ہے) اور حقیقی وجود میں کوئی فرق نہیں۔اس سے پہلے کہ تجھے چوٹ پہنچے تو احساس کے مرحلے سے گزرے اس سے پہلے ہی خود کو بچا لے،سنبھال لے۔
جس انسان میں احساس ہے وہ مانند ہیرا ہے ورنہ اسکی قیمت دو پل جیسی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں