فلسطینیوں کی نسل کشی ۔۔۔ تحریر: ایم سرور صدیقی

ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل پون صدی سے نہتے فلسطینیوں کاقتل ِ عام کررہی ہے اتنی درندگی،اتنی وحشت اور اتنی سفاکیت کی انسانیت بھی شرماجائے غزہ سے مسلسل دردناک خبریں آرہی ہیں اب تو پوری دنیا کے عوام بھی چلا اٹھے ہیں کہ غزہ میں جنگ نہیں دہشتگردی ہورہی ہے، کیونکہ اسرائیلی افواج نے شہری آبادی، پناہ گزیبوں کے کیمپوں،ہسپتالوں،تجارتی مراکزمیں اس قدربمباری کی ہے کہ اتنا بارود دوسری جنگ ِ عظیم میں بھی استعمال نہیں ہوا اب تازہ ترین صیہونی جنگی جہازوں نے ایک منصوبہ بندی کے تحت غزہ میں ہسپتالوں اورسکولوں پر بمباری کرکے اسے خون سے غسل دیا جہاں پر درجنوں بچے شہید ہوگئے اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ یہودی فلسطینیوں کی نسل کشی کا مرتکب ہورہے ہیں جو انتہائی خوفناک ہے جنگی قوانین بھی بچوں،بوڑھوں،عورتوں ہسپتالوں، شہری آبادی اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے پر پابندی ہے لیکن یہودی اخلاقی اقدار کو پس ِ پشت ڈال کر جس بے دردی سے غزہ میں درندگی کا مظاہرہ کررہے ہیں دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی جس کے خلاف باضمیر لوگ مظاہرے کررہے ہیں ، غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے تلکرم میں اسرائیلی ڈرون حملے بھی جاری ہیں یہودی افواج کے حملوں میں اب تلک ہزاروں پر خوفناک بمباری سے فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں کی ہے اسرائیلی جارحیت کے پس منظرمیں یہ قضیہ فلسطین پوری امتِ مسلمہ کا معاملہ ہے۔اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ حقیقتاً حماس کے مجاہدین اس وقت باطل قوتوں کے خلاف مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت اور امتِ مسلمہ کے بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں جنہوں نے صیہونیوں کے مذموم ایجنڈا کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے مسئلہ فلسطین ا ور مسجدِ اقصیٰ کی حرمت کا معاملہ سابقہ اْمتِ مسلمہ اور موجودہ اْمتِ مسلمہ کے درمیان حتمی معرکہ کی اہم کڑی ہے آج پوری دنیا غزہ میں ایک نئی تاریخ رقم ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ صورت ٍ حال یہ ہے کہ غزہ میں ہزاروں بے گھر افراد اسپتال کی عمارت اور گراؤنڈ کو پناہ کیلئے استعمال کر رہے ہیں،پینے کے پانی اور خوراک کی شدید قلت ہے وہاں عارضی ہسپتالوں میں سینکڑوں زخمی موجود ہیں یہاں طبی سہوتوں کا فقدان ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے خوراک،ادویات اور پانی کی شدید قلت ہے جبکہ زخمیو ں کو ٹانکے لگاتے وقت سن کرنے والی اور درد کش ادویات بھی دستیاب نہیں ہیں عارضی کیمپوں پربھی وقتاً فوقتاً بمباری سے درجنوں افراد شہید ہو جاتے ہیں اس ضمن میں اسرائیلی حکومت کا رویہ انتہاپسندانہ ہے،اسرائیل فلسطینیوں کی نسلی کشی کر رہا ہے اور نہیں چاہتا کہ غزہ میں جنگ ختم ہو، یہودی انتہا پسند حکومت فلسطینیوں کا قتل عام کررہی ہے اب بڑی طاقتوں کی بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کو جنگ سے روکیں گذشتہ دنوں اسرائیلی فوج نے بے گھر فلسطینیوں کے خیموں پر بلڈوزر چڑھا دیئے تھے۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے کے شمالی شہر طولکرم پر اسرائیلی فوج نے دھاوا بول دیا جبکہ شمالی شہر جنین پر بمباری کی اطلاعات ہیں۔ شمس کیمپ پر اسرائیلی فوج کے دھاوے کے دوران متعدد خواتین و بچے شہید ہوگئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فوجی مہم کا دائرہ کم کرے اور حماس کے رہنماؤں کو زیادہ درست طریقے سے نشانہ بنانے والی کارروائیوں کی طرف بڑھے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ کیتھرین بھی چیخ اٹھیں ہیں کہ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوتے تمام فریقین مل بیٹھ کر مسئلے کو حل کریں۔ لبنان‘ ایران اور مغربی کنارے میں بھی کشیدگی کم ہونی چاہئے۔ اس مسئلے کا پائیدار حل چاہتے ہیں لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اس بات پر مصر ہیں کہ آخر تک لڑیں گے، تمام مقاصد حاصل کریں گے عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کو دہشتگردی قرار د یتے ہوئے دنیا سے امن کی اپیل بھی کر دی ہے دنیا دیکھ رہی ہے کہ فلسطینی مسلمانوں پر کس قدرقیامت خیز مظالم کئے جارہے ہیں یہ قتل و غارت درحقیقت انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی ضمیرکاامتحان ہے امریکہ نے اس ضمن میں اپنی ذمے داریاں آج تلک پوری نہیں کیں جس سے مسئلہ مزید الجھ گیاہے ہ و یہی صورت تنازعہ کشمیر کی ہے ورنہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر کبھی کا حل ہوچکا ہوتا اس سلسلہ میں بھی یہ خوفناک سچائی ہے کہ امریکہ کی اسرائیل کی بے جا حمایت اس تنازعہ میں اصل رکاوٹ ہے کیونکہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دینے کے باوجود حماس نے پانچ چھ سال قبل غالباً2017ء اسرائیل اور فلسطین پر مشتمل میں دو خود مختار ریاستوں کے قیام کو ایک عملی حل کی تجویز پیش کی تھی جسے مان بھی لیا گیا لیکن اس پر عملی طور پر کوئی پیش رقت نہیں ہوئی اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کا مطمع ئ نظر مسئلہ حل کرنے کی بجائے فلسطینیوں کی نسل کشی ہے جبکہ حقیقتاً امریکہ کے بغیر اقوام متحدہ کسی نتیجہ خیز پیش رفت کا محال نہیں سکتا عالمی امن کے سنگین خطرے کے باوجود امریکہ کا رویہ اور اقوام متحدہ کی کارکردگی مسلم ممالک کیلئے نہایت مایوس کن ہے کیونکہ جب بھی کوئی حل نتیجہ خیز ہوسکتا ہے تو امریکہ سلامتی کونسل میں ویٹو کرکے بھاری اکثریت کی حامل قراردادوں کو بھی بے اثر، بے وقعت بنا دیتا ہے جس سے یہ بات اخذکی جاسکتی ہے کہ اقوامِ متحدہ عملاً ایک نمائشی ادارہ بن کررہ گیا ہے جس کی وجہ سے عالمی امن کو لاحق خطرات دور نہیں ہوسکتے دنیا کے منصفوں کی سمجھ میں یہ بات جتنی جلدی آجائے ان کے حق میں بہترہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں