پرتو روہیلہ بوڑھے شکاری مگر جواں محقق: سید سردار احمد پیرزادہ

image

مختار علی خان حکومت پاکستان کے اہم اور سینئر عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ وہ نہایت قابل افسر ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر شکاری بھی تھے۔ ان کے شکار کے نشانے سے مرعوب ہوکر اُس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر اور دبنگ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل فضل حق جب بھی شکار کھیلنے کا پروگرام بناتے تو مختار علی خان کو اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر میں ضرور لے جاتے۔ مرد لمبا تڑنگا ہو، سمارٹ ہو، گورے رنگ کا پٹھان ہو، پڑھا لکھا ہو، اعلیٰ افسر ہو، شکاری ہو اور جواں سال ہوتو ہر ایک کی زبان پر اُسی کی داستان ہوتی ہے۔ مختار علی خان کی بے دھڑک افسری اور نشانہ باز شکاری کی کہانیاں پورے پاکستان میں پھیلی تھیں مگر اُن کی بین الاقوامی سطح پر شہرت کی اصل وجہ اُن کے علمی، ادبی اور تحقیقی کارنامے ہیں۔ اس میدان میں وہ پرتو روہیلہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ پرتو روہیلہ غالب پر ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو کے عظیم شاعر غالب پر اُن کی گیارہ کتابیں ہیں۔ اس کے علاوہ تیرہ دوہے اور سفرنامے بھی ہیں۔ پوری دنیا میں جہاں جہاں اردو یا غالب پر علمی و تحقیقی کام ہوتا ہے وہاں وہاں ان 24کتابوں سے ضرور رہنمائی لی جاتی ہے۔ اُن کی ایک شہرۂ آفاق تحقیقی کتاب ’’کلیاتِ مکتوباتِ فارسی غالب‘‘ ہے۔ اسے نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کیا۔ اس کتاب میں غالب کے فارسی خطوط کا اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ جب اس کتاب کا ایڈیشن سامنے آیا تو غالب پر کام کرنے والے سب دنگ رہ گئے۔ اس کتاب کے حالیہ ایڈیشن کی اشاعت کے بعد یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ اب غالب کا ایسا کوئی فارسی مکتوب باقی نہیں رہا جس کا اردو ترجمہ ’’کلیاتِ مکتوباتِ فارسی غالب‘‘ میں موجود نہ ہو۔ علمی و ادبی سکالروں میں تہلکہ مچا دینے والی 972 صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے کہا کہ ’’اگر غالب زندہ ہوتے تو وہ پرتو روہیلہ کو کھڑے ہوکر سلام کرتے اور ہاتھ پکڑکر اپنے ساتھ بٹھا لیتے‘‘۔ پرتو روہیلہ افسر، شکاری، محقق اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ کھوجی بھی نکلے۔ وہ اپنے آباؤ اجداد پر بہت فخر کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے ’’بچپن ہی میں کان چند ناموں سے آشنا ہوگئے تھے۔ اس میں ایک نام تو حافظ رحمت خان کا تھا۔ باقی دو نام اُن کے صاحبزادوں عنایت خان اور محبت خان کے تھے‘‘۔ ہندوستان کے سربراہوں کی تاریخ میں روہیلہ خاندان کا نمایاں مقام ہے۔ جب انگریزوں نے مقامی غداروں کے ساتھ مل کر روہیل کھنڈ پر حملہ کیا تو روہیلہ خاندان کے افراد کو چن چن کر مارا جانے لگا۔ روہیلہ قبیلے کے سربراہ حافظ رحمت خان 1774ء میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوگئے اور نواب اودھ روہیل کھنڈ پر قبضہ کرکے انگریزوں کا غلام بن گیا۔ حافظ رحمت خان کے چھوٹے بیٹے محبت خان کو انگریزوں نے قید میں ڈال دیا۔ محبت خان اپنی دیگر صفات کے ساتھ ساتھ شاعری کی خداداد صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ وہ اصلی نسلی پختون تھے مگر انہوں نے پشتو کے علاوہ اردو میں بھی شاعری کی۔ وہ اُس وقت کے اردو کے نامور کلاسیکل شاعر قلندر بخش جرأت کے ہم عصر تھے۔ محبت خان کو یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ وہ اردو کے ایسے پہلے کلاسیکل شاعر ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ انگریزوں کی قید میں رہنے کے باوجود انہوں نے بڑی بے خوفی سے اپنی شاعری جاری رکھی۔ اُس وقت کے انگریز حاکم نے جب محبت خان کی شاعری پڑھی تو بہت متاثر ہوا۔ ہندوستان سے جاتے ہوئے وہ محبت خان کی شاعری کے دیوان اپنے ساتھ لے گیا۔ اس طرح پختون اردو شاعر صدیوں میں گم ہوگیا۔ اردو کے سکالر اور محققین محبت خان سے آشنا ہوئے بغیر ہی ڈھائی سو برس تک زندگی گزارتے رہے۔ 1970ء کی دہائی کے آخری برسوں کی بات ہے کہ جواں سال افسر مختار علی خان پرتو روہیلہ کسی سرکاری کورس پر برطانیہ گئے۔ کورس کے دوران چند دن کی تفریحی رخصت ملی تو اُن کے کورس فیلوز گھومنے کے لئے یورپ چلے گئے مگر پرتو روہیلہ اپنے روہیلہ خاندان کے ایک نامور فرد کی کھوج میں انڈیا آفس لائبریری لندن پہنچ گئے۔ انہوں نے لائبریرین سے ’’دیوانِ محبت خان ‘‘کے بارے میں پوچھا جسے دوسو برس پہلے ایک انگریز حاکم ہندوستان سے اٹھا لایا تھا۔ لائبریرین نے انجانی حیرانگی سے اس شاعر کا نام سنا اور کوائف لکھ کر کتابوں کی الماریوں میں اس دیوان کو تلاش کرنے لگی۔ کافی دیر بعد وہ ایک ضخیم کتاب اٹھا کر لائی۔ کتاب دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید اسے دوسو برس بعد ہی کھولا جارہا ہے۔ پرتو روہیلہ نے اپنے روہیلہ قبیلے کے بزرگ شاعر محبت خان کے اس دیوان کو دیکھا تو اپنی خوشی اپنی آنکھوں میں روک نہ سکے۔ پرتو روہیلہ نے محبت خان کے دیوان کو موجودہ نسل سے روشناس کرانے کا فیصلہ کیا۔ انہیں یہ مہم ذاتی طور پر اکیلے ہی سر کرنی پڑی۔ حالانکہ محبت خان کی کلاسیکل شاعری کا اعلیٰ مقام سمجھتے ہوئے افغان حکومت کئی برس پہلے اُن کا پشتو کلام حکومتی سرپرستی میں شائع کرچکی تھی۔ انڈیا آفس لائبریری سے محبت خان کے اردو دیوان کی نقل حاصل کرنے کے لئے پرتو روہیلہ کو ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑے۔ کئی برس کی دن رات کی محنت اور تحقیق کے بعد آخرکار پرتو روہیلہ نے ڈھائی سو برس پہلے کے پختون کلاسیکل اردو شاعر محبت خان کے دیوان کی تدوین مکمل کرلی۔ اشاعت کا مرحلہ آیا تو سرکاری ادبی اداروں نے حسب روایت بہت سراہا مگر جلد شائع کرنے کی بات طے نہ کی۔ مجلس ترقی ادب لاہور کے سربراہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے اردو زبان کے اس انمول خزانے کی اہمیت کو جانا اور اسے ’’دیوان نواب محبت خان‘‘ کے نام سے حال ہی میں شائع کردیا۔ اس دیوان میں 345 غزلیں، 40 رباعیات، 10 مخمس اور 2مناجات شامل ہیں۔ تاریخ میں عظیم ریاست اور قوم دولت کے انباروں کی بجائے اپنی علمی دولت کے حوالے سے عزت حاصل کرتی ہے۔ ہم بیرون ملک آف شور کمپنیوں سے اپنی لوٹی ہوئی دولت واپس لاکر امیر ہونا چاہتے ہیں لیکن پرتو روہیلہ نے بیرون ملک سے اپنی لوٹی ہوئی علمی دولت کو واپس لاکر پاکستانیوں کو علمی لحاظ سے امیر کیا ہے۔ اس عظیم علمی کارنامے سے ہم سب بے خبر ہیں کیونکہ اس علمی خزانے کے ساتھ روپے پیسے کا خزانہ منسلک نہیں ہے۔ اگر یہ کام کسی ترقی یافتہ علم دوست ملک میں ہوتا تو محقق کو ’’ڈی لٹ‘‘ کی اعزازی ڈگری دی جاتی اور وہاں کا سربراہ مملکت محقق کو پروقار تقریب میں قومی اعزاز سے نوازتا مگر کیا کریں پرتو روہیلہ ایک پاکستانی ہیں، وہ پاکستان کے علمی اثاثے سے ہی محبت کرتے ہیں۔ پرتو روہیلہ بوڑھے شکاری مگر ہردم جواں محقق ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں