ہیٹ ٹرک: ہارون الرشید

معلوم نہیں کہ عمران خان نے ایک اور شادی رچالی یا نہیں ۔ ایک بات البتہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بہت دن سے وہ تلا بیٹھا ہے ۔ وجوہات ہیں اور واضح ہیں ۔ ان پہ مگر روشنی نہیں ڈالی جا سکتی۔ ذاتی زندگیوں پر گفتگو سے گریز ہی زیبا ہے ۔ بات کرنی ہی پڑے تو ملفوف انداز میں کرنی چاہیے ؎
تفصیل نہ پو چھ ہیں اشارے کافی
یونہی یہ کہانیاں کہی جاتی ہیں
اپنی زندگی کا بہترین زمانہ میں نے کپتان کے ساتھ گزارا… اسے یہ نام میں نے ہی دیا تھا ۔ جب بھرپایا تو ملحوظ رکھنے کی کوشش کی کہ کشیدگی نہ رہے ۔ باہمی احترام قائم رہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ ناکام نہ رہا اور اس میں خود اس کا بھی دخل ہے ۔ الیکشن 2013ء کے بعد چند ماہ وہ ناراض رہا ۔ پھر خود ہی رابطہ کیا ۔ ملاقات پہ اصرار کرتا رہا ۔ جب یہ ملاقات ہوئی تو گزرے وقت کی تلخیوں اور پیچیدگیوں کا اس نے ذکر کیا او رنہ اس ناچیز نے۔ حاسدینِ کرام ہمیشہ اسے اکساتے رہے مگر ان کی پروا کون کرے ۔ سرکار ؐ کا فرمان یہ ہے کہ ہر صاحبِ نعمت سے حسد کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی کہ تب نعمت میں اضافہ کر دیا جاتاہے ۔
جنرل محمد ضیاء الحق کے فرزند ِ ارجمند اعجاز الحق اور کپتان میں کئی چیزیں مشترک ہیں ۔ ان کی معیت میں سفر ہمیشہ خوشگوار رہتاہے ۔ بوریت کا کبھی کوئی لمحہ نہیں آتا۔ دوسرا یہ کہ نازک سے نازک ، بڑی سے بڑی بات بھی وہ راز نہیں رکھ سکتے۔
عدیم النظیر جنرل ،سلطان محمد فاتح سے پوچھا گیا: آپ کی خیرہ کن کامیابیوں کا راز کیا ہے؟ فرمایا: میری داڑھی کے بالوں کو بھی اگر معلوم ہو جائے کہ میں کیا چاہتا ہوں تو میں مجرم ہوں ۔
اتفاق سے دو ایسی ممتاز شخصیات سے مراسم رہے کہ آپ الٹے لٹک جائیں ، کوئی بات ان سے اگلوا نہ سکتے تھے ۔ سابق وزیر اعظم اور طویل عرصے تک افغانستان کے سب سے اہم لیڈر گلبدین حکمت یار اور دانشور جنرل سابق چیف آف آرمی سٹاف جناب اشفاق پرویز کیانی ۔ انجینئر گلبدین کا نسخہ یہ تھا کہ کبھی ایک آدھ جملہ کہہ کر ٹال دیتے ۔ بعض اوقات خاموش رہتے ۔ جنرل کیانی کا ایک ہی لگا بندھا انداز ہے ۔ جواب ہی نہیں دیتے ۔ ٹک ٹک دیکھتے رہتے ہیں ۔ چہرے پر معصومیت، آنکھوں میں سناٹا اور ایک تاثر: میں یہ بات بتا نہیں سکتا۔ آپ کوپوچھنی ہی نہ چاہیے ۔
کسی زمانے میں اسے فرصت ہو اکرتی ۔ بنی گالہ کی بلندیوں پر بنے اس مکان میں ، جو گھر سے زیادہ ایک وسیع و عریض چمن ہے ، دیر تک ہم گھوما کرتے یا راول جھیل کے بالمقابل برآمدے میں کرسیاں ڈال کر گپ شپ کیا کرتے ۔ رازداری کی اہمیت پر جب بات کی تو قدرے وہ خفیف ہوا او ربولا: کاش میں ایسا کر سکتا۔
ایسی ہی ایک چہل قدمی کے دوران ، ایک دن اداس لہجے میں اچانک اس نے کہا: جمائما کے ساتھ علیحدگی کا فیصلہ ہو چکا۔ میں حیرت زدہ رہ گیا، صدمہ ہوا۔ میں نے کہا : ایک دانا آدمی کے پاس میں تمہیں لے جائوں گاتاکہ بد سلیقگی کا مظاہرہ نہ ہونے پائے ، تلخیاں پید انہ ہوں ۔ دو اڑھائی گھنٹے کی یہ ملاقات صبر آزما تھی ۔ اس کے لیے نہیں ، میرے لیے ۔ تقاضا تو کیا، کسی نے ہلکا سا اشارہ بھی نہ کیا مگر گفتگو جب نازک مرحلے میں داخل ہوئی تو میں اٹھ کر صحن میں چلا گیا۔ صحن کیا، تیسری منزل پر بنے تنہا کمرے کے سامنے پھیلی وسیع وعریض چھت پر۔ بہت دیر انتظار کے بعد میں لوٹا تو معاملات طے پاچکے تھے ۔ طلاق کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ لندن کے ایک کھرب پتی خاندان کی خاتون اسلام آباد میں تبھی شاد رہ سکتی تھی ، اگر اس کاشوہر وزیرِ اعظم ہو جاتا۔ فقط شریکِ حیات ہی نہیں ، اس کے لیے وہ ایک تمغہ تھا۔ کرکٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کا کامیاب ترین کپتان ۔ اس تمغے کی چمک باقی نہ رہی تو اب بوریت کیوں گوارا کی جائے ؟ خان نے وسعتِ ظرف کا مظاہرہ کیا اور کہا: میں ہی خطاکار ہوں ۔ میں اسے وقت نہ دے سکا۔ 2002ء کی انتخابی مہم کے آخری چار ماہ میں صرف پانچ بار میانوالی سے اسلام آباد آسکا۔
اپنے بیٹوں کے بارے میں وہ پریشان تھا ۔ اسے بتایا گیا کہ انشاء اللہ وہ مسلمان رہیں گے ۔ ٹھنڈے ماحول میں علیحدگی کی شرائط گفت و شنید سے طے ہونی چاہئیں ۔ لندن میں خان کے وکیل نے کہا: جمائما خان ذہنی طو رپر علیحدگی کے لیے اب تیار ہے۔ اگر وہ تاخیر کردے اور جمائما خود تقاضا کرے تو برطانوی قانون کے مطابق جائیداد کا نصف اسے مل سکتاہے ۔ فوراً اور بے ساختہ اس نے انکار کر دیا۔ اس کے اندر کا پٹھان جاگ اٹھا تھا۔ بعد ازاں میں نے اسے بتایا کہ جمائما کی دولت کا تخمینہ آٹھ ارب ڈالر ہے ۔ ”تمہیں کس نے بتایا ؟‘‘ حیرت سے اس نے کہا ۔ عرض کیا: برطانوی اخبارات اس طرح کی خبریں مزے لے لے کر چھاپتے ہیں اور پاکستانی پریس اہتمام کے ساتھ نقل کر تاہے ۔
عمران کا اندیشہ تھا کہ پاکستان میں طلاق کا ردّعمل منفی ہوگا۔ہوا بالکل برعکس ۔ میڈیا کو اس کے ساتھ ہمدردی تھی ۔ کردار کشی کرنے و الا شریف خاندان بیرونِ ملک تھا اور ان کے کارندے پژ مردہ ۔ تیسرے دن اس نے مجھے فون کیا: یہ ان لمحات میں سے ایک ہے ، جب پاکستانی ہونے پر مجھے فخر محسوس ہوا۔ یہ ایک ہمدرد معاشرہ ہے ۔
شادی ختم ہونے کے بعد اس کی عادات کچھ بدلنے لگیں ، شوخی لوٹ آئی ۔ عائلی زندگی کے آخری برسوں میں جمائما لندن میں مقیم رہی ۔ ہر چھ ہفتے بعد فرسٹ کلاس کا ٹکٹ خرید کر وہ برطانیہ جاتا۔ برطانیہ میں جمائما کے قیام کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب شریف خاندان نے اس پر ناد رٹائلوں کی سمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنایا۔ بعد ازاں وہ لوٹ آئی ۔ لندن مگر اسے یاد آتا رہا۔ خان کابیشتر وقت گھر سے باہر گزرتا اور وہ بوریت کا شکار ہوتی ؛چنانچہ وہ پھر سے لوٹ گئی۔
ایک دن جب اسلام آباد سے لاہور کا قصد کیے ، گھر سے نکلا تھا تو فون کی گھنٹی بجی ۔ کسی عنوان پر اس نے مشورہ مانگا اور حسبِ معمول آخر میں کہا ”اور کچھ ؟‘‘ … ”اور یہ کہ شادی کر لو ‘‘ ۔ کئی بار پہلے بھی کہہ چکا تھا اور وہ خاموش رہاتھا لیکن اب وہ پھٹ پڑا ”تم ایسے دوستوں کی موجودگی میں آدمی کو دشمن کی کوئی ضرورت نہیں ۔ طویل عرصے کے بعد مجھے آزادی نصیب ہوئی ہے اور تم…‘‘
پھر اس موضوع پر کبھی گفتگو نہ ہوئی ؛تا آنکہ اس نے دوسری شادی کر لی…بالکل اچانک اور غیر متوقع طور پر ۔ ایک بار پھر یہ ناراضی کے دن تھے ۔ 14اگست 2014ء کے دھرنے سے قبل میں اس سے ملنے گیا ۔ بزرگ اخبار نویس محمود شام ،غلام اکبر کے صاحبزادے انعام اکبر اور پانچ سات دوسرے لوگوں کی موجودگی میں اس سے میں نے کہا: لونڈوں لپاڑوں کی باتوں میں نہ آجانا ۔ وہ تمہیں مروا دیں گے ۔ اس پر ایک قہقہہ بلند ہوا ۔ محمو دشام اور انعام اکبر عازمِ لاہور تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ ابھی دو برس پہلے تک اختتامِ ہفتہ پر دارالحکومت میں قیام میرے لیے دوبھر ہوتا ۔ ستّر کے عشرے میں ایک امریکی سفارت کار نے اس شہر کے بارے میں کہا تھا : واشنگٹن کے قبرستان سے آدھا اور اس سے دو گنا مردہ !
دھرنا سمیٹا جا چکا اور شادی ہو چکی تو ایک شام اس نے مجھے گھر پہ مدعو کیا۔ ایک بار پھر اسے یا دآیا کہ ایک اخبار نویس اس کا دوست ہے ۔ سیاسی زندگی کے ہر موڑ پر خلوص کے ساتھ جو اسے مشورہ دیتا رہا ۔ تقریباً ہر بار یہ مشورہ اس نے ٹھکرا دیا ۔ مہینوں اور بعض اوقات برسوںخاک چھانی تو اندازہ ہوا کہ مرعوب چاپلوسوں کے برعکس اسی کی بات درست تھی ۔
اپنے ہاتھوں سے آتشدان میں لکڑیوں کا ڈھیر اس نے جمع کیا۔ آگ کی لو تیز کی اور اس کے سامنے دھری کرسیوں میں سے ایک پر براجمان ہو کر اپنی کتھاکا آغاز کیا۔( جاری)

روزنامہ دنیا ( جملہ بحقوق) ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں