عمران خانی طرز کی شادی۔۔۔ انجم نیاز

اس ہفتے عمران خان کے بارے میں ہم دو کالم لکھیں گے۔ زیرِ نظر کالم اس سلسلے کا پہلا کالم ہے۔ خان صاحب نے چونکہ حال ہی میںاپنی تیسری شادی کے امکانات کو خاصا روشن قرار دیا ہے اس لئے یہاں ہم شادی ہی کے بارے میں ان کے خیالات پہ تبصرہ کریں گے۔اتوار کے روز البتہ ہمارا کالم ان کی شخصیت اور سیاست کے بارے میں ہوگا۔بیس سال قبل جب پاکستان کے سیاسی افق پہ خان صاحب کا ظہور ہوا تو خوش قسمتی سے ہمیں بھی ان سے انٹرویو کرنے کا موقع ملا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب ہر سلیم العقل پاکستانی وزارتِ عظمیٰ پہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی دو دو باریاں آزمانے کے بعد عمران خان ہی کو اس عہدے کا بہترین امیدوار سمجھتا تھا۔نواز شریف اور بے نظیر دونوں ہی کرپشن کے الزامات کی بنیاد پہ اپنے عہدوں سے برطرف ہوتے رہے تھے۔ یہ دسمبر 1996ء کی بات ہے، صدر فاروق لغاری نے چندماہ قبل ہی بینظیر بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کر کے 1997ء کے اوائل میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔ہم کئی دنوں سے عمران خان سے انٹرویو کے لئے وقت مانگ رہے تھے۔ہر کوئی ان کا انٹرویو کرنا چاہتا تھا۔فون پہ خان صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو لاہور جا رہے ہیں اور ہمیں انٹرویو دینے کا وقت اب ان کے پاس نہیں۔یہ سن کر ہماری آواز میں جو مایوسی در آئی تھی شاید اسی کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے ہمیں دعوت دی کہ ایئرپورٹ تک ہم ان کے ساتھ جا سکتے ہیں اور راستے میں بات چیت ہو سکتی ہے۔اپنا پاکٹ سائز ریکارڈر لئے جب ہم ان سے ملے تو ہمارا پہلا سوال ان سے یہ تھا کہ ” آپ کی پلے بوائے والی شہرت بدستور قائم ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اب بھی جب آپ کی بیگم ملک سے باہر ہوں تو آپ لاہور میں اپنے یار دوستوں کے ساتھ ساری ساری رات گزار دیتے ہیں۔‘‘ہم سانس روکے ان کے جواب کے منتظر تھے لیکن اس کی بجائے ہمیں خان صاحب کا قہقہہ سنائی دیا۔انہیں ہمارا سوال کافی مزاحیہ محسوس ہو رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ” یہ بالکل بے تکی بات ہے۔کیا لوگ میرے دوست یوسف صلاح الدین کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟ یوسف تو شادی شدہ ہے اور ویسے بھی انسان گمراہی کا شکار اپنے دوستوں کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنی کمزوری کی بدولت ہوتا ہے یا پھر اس لئے گمراہ ہوتا ہے کہ وہ گمراہ ہونا چاہتا ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ یوسف بھی کبھی راستے سے بھٹکے گا۔میری اطلاعات کے مطابق تو وہ اپنی شادی شدہ زندگی میں خوش و خرم ہے۔‘‘حقیقت یہ ہے کہ میاں یوسف صلاح الدین کا ماضی نہایت ہی رنگین رہا ہے۔قدیم لاہور کے عین قلب میں واقع اپنی حویلی میں وہ کئی ایک وی وی آئی پیز کی میزبانی کر چکے ہیں۔ ہمارا اگلا سوال خان صاحب سے ان کی اہلیہ جمائما خان کے بارے میں تھا کہ ان کے وزیر اعظم بننے کی صورت میں ان کے خیال کے مطابق جمائما کس قسم کی خاتونِ اول ہوں گی؟ اس پہ انہوں نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا اور یوں گویا ہوئے کہ ”ایمانداری سے کہوں تو ایسا کوئی خیال کبھی میرے ذہن میں آیا ہی نہیں۔ ایسی باتوں پہ میں نے کبھی نہیں سوچا۔امید مجھے یہی ہے کہ جو کچھ بھی وہ کرے گی ایک وقار کے ساتھ کرے گی۔اس کے بعد وہ خاموش ہو گئے اور کافی سنجیدہ دکھائی دینے لگے تھے۔ ہم نے تیسرا سوال ان سے یہ پوچھا کہ”آپ کو کتنے بچے چاہئیں؟‘‘خان صاحب نے پھر ہنستے ہوئے ہی جواب دیا کہ” کم از کم ایک اور۔ایک بچے کی نعمت پانے کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے اس سے پہلے میری زندگی میں کچھ کمی تھی۔سو ، اگر اللہ کی مرضی ہو تو ایک اور اولادمجھے یقیناً چاہیے ہو گی۔‘‘ہم نے پوچھا کہ انہیں بیٹا چاہئے یا بیٹی تو انہوں نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، بس صحت مند ہوں اور اچھے انسان بن جائیں۔آج عمران خان کے دونوں بیٹے سلیمان اور قاسم جوان ہو چکے ہیں اور لندن میں اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہیں۔پچھلے دنوں عمران خان اپنے بیٹوں کے ساتھ پاکستان اور انگلستان کے درمیان کھیلا جانے والا ایک کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے لندن گئے ہوئے تھے۔قارئین کو یاد ہو گا کہ 1996ء میں پی ایم ایل (ن) کی جانب سے عمران خان کے خلاف ایک اشتہاری مہم شروع کی گئی تھی جس میں سیتا وائٹ کے ساتھ ان کی ناجائز اولاد کا تذکرہ ہوتا تھا۔ مشاہد حسین سید کی قیادت میں چلائی گئی نون لیگ کی عمران خان کے خلاف یہ میڈیائی مہم سیتا وائٹ سکینڈل پہ مرکوز تھی۔ دیکھنے والوں کو قائل کر لیا گیا تھا کہ عمران خان وزیر اعظم بننے کے اہل نہیں۔ ذاتی طور پر ہمارا خیال یہی ہے کہ خان صاحب کے خلاف پرنٹ میڈیا میں ہونے والی یہی مہم ان کے زوال کا سبب بنی ۔1997ء کے انتخابات میں وہ ہار گئے تھے۔ہماری کوشش یہی تھی کہ خان صاحب کو کسی قسم کی شرمندگی سے دوچار کئے بغیر ان سے سیتا وائٹ کے بارے میں پوچھا جائے۔ ہم موقع کی تاک میں تھے۔ان کے پی ٹی آئی کے ساتھی غازی عبد السلام اور نشاط چشتی اس سارے سفر کے دوران مسلسل ان کی پجیروکی عقبی نشست پہ بیٹھے ہوئے تھے۔ان دونوں کے سامنے ہم یہ سوال نہیں کرنا چاہتے تھے۔چنانچہ اسلام آباد ایئرپورٹ پہ مسافروں کی انتظار گاہ میں ان کے داخلے سے چند منٹ قبل ہم نے ایک طرف لے جا کر ان سے پوچھا کہ ” کیا آپ کی ٹیریان نامی کوئی بیٹی ہے؟‘‘ جواب میں بد ترین ردعمل کے انتظار کے خدشے کی بدولت ہم نے ایک بار پھر اپنی سانس روک لی۔ تاہم خان صاحب نے اسی طرح تحمل، اطمینان اور خوش مزاجی سے جواب دیا: ”میں ایسی کہانیوں کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں؟‘‘ ہم نے ان سے کہا کہ ”سیتا وائٹ اور اس کی چار سالہ بیٹی تو یہی کہتے ہیں کہ آپ ہی اس کے والد ہیں۔ وہ بچی تو لگتی بھی آپ ہی کی طرح ہے۔‘‘ خان صاحب کہنے لگے ”میں جانتا ہوں کہ یہ عورت میرے بارے میں ایسی باتیں کرتی رہی ہے۔ وہ تو خبطی ہے۔‘‘ اس موضوع کو اس وقت ہم نے زیادہ نہیں کریدا لیکن پھر بعد میں ثابت ہو گیا کہ ٹیریان بلا شبہ عمران خان کی بیٹی ہے۔ عمران خان سے طلاق کے بعد بھی سوتیلی ماں کے طور پر جمائمہ خان بڑے پیار سے ٹیریان کی دیکھ بھال کرتی رہی اور سلیمان و قاسم خان نے بھی ٹیریان کو بہن کے طور پر قبول کر لیا ہے اور اس سے پیار کرتے ہیں۔اسلام آباد ایئر پورٹ کو جاتے ہوئے عمران خان کے ساتھ ہماری اس گفتگو کو بیس برس گزر چکے ہیں۔ خان صاحب آج بھی سبھی کے ہیرو ہیں۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم کی طرح منافقت ان میں نہیں۔ وہ بے باک ہیں، ایماندار ہیں اور محبِ وطن بھی! ہمیں امید ہے کہ مستقبلِ قریب میں ہماری قوم پی ایم ایل(ن) اور پی پی پی کے غلط کاروںکی بجائے عمران خان کو منتخب کر کے وزیرا عظم ہائوس بھجوائے گی۔ دریں اثنا خان صاحب تریسٹھ برس کی عمر میں ایک بار پھر شادی کا سوچ رہے ہیں۔تاہم ان میں اتنی جرأت بھی موجود ہے کہ وہ اپنے ماضی سے انکار نہیں کر رہے،یعنی جب وہ غیر شادی شدہ تھے اور ان کی زندگی کئی ایک سکینڈلز میں گھری ہوئی تھی۔”میں نے ایک نہایت قابلِ رشک غیر شادی شدہ زندگی گزاری ہے۔کئی لوگوں کو میری جیسی زندگی گزارنے کی خواہش رہی ہو گی۔تاہم اگر انسان کی شادی صحیح رہے تو یہ زندگی گزارنے کا مہذب ترین طریقہ ہے‘‘۔ خان صاحب نے یہ باتیں ایک حالیہ انٹرویو میں کہی ہیں۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ ”ہر پاکستانی نوجوان میری طرح بننا چاہتا تھا، تاہم اگر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زندگی کے بیچ چنائو کا اختیار دیا جائے تومیں ہمیشہ شادی شدہ زندگی کا ہی انتخاب کروں گاکیونکہ غیر شادی شدہ زندگی پہ یہی کہاوت صادق ٹھہرتی ہے کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔اس میں بہت کھوکھلا پن ہوتا ہے۔بڑی مصنوعی سی زندگی ہوتی ہے اور انسان بہت تکلیفیں دوسروں کو دے دیتا ہے۔ میری غیر شادی شدہ زندگی میں دل بہت دکھے تھے اور اس کا مجھے افسوس ہے‘‘۔ ہماری نیک خواہشات خان صاحب کے ساتھ ہیں۔ خدا کرے کہ تیسری بار جیون ساتھی کے اس چنائو میں قسمت ان کا ساتھ دے

جملہ بحقوق ۔۔۔۔۔ روزنامہ دنیا

اپنا تبصرہ بھیجیں