کاش اے کاش ۔۔۔۔ تحریر ارشاد احمد نظامی

بلوچستان کے بارے میںنریندر مودی کے بیان پر چمن‘ دالبندین‘ سبّی‘ نوشکی ‘ چاغی‘ ڈیرہ بگتی وغیرہ میں احتجاجی مظاہرے حب الوطنی کیm-bathak.com-1421245304irshad-ahmed-arif اجارہ دار اسلام آباد اور لاہور کی حکمران اشرافیہ کے لیے چشم کشا ہیں۔ نریندر مودی کے بیان پر بگتی خاندان کا چشم و چراغ سرفراز بگتی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان میر ثناء اللہ زہری تڑپ اٹھا۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد یہ ایک لحاظ سے اعترافی بیان تھا کہ بھارت اس میں ملوث ہے اور وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں تحریک مزاحمت کا بدلہ کراچی اور بلوچستان میں لے رہاہے۔ اگر ایسا ہی بیان کسی پاکستانی عہدیدار نے دیا ہوتا تو بھارت اور نریندر مودی آسمان سر پر اٹھا لیتا۔ امریکہ‘ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو دہائی دیتا مگر آفرین ہے اسلام آباد کے تحمل و برداشت اورنرم خوئی پر کہ سفارتی آداب‘ بین الاقوامی قوانین اورزمینی حقائق کے منافی بیان کے بعد بھارت کو مذاکرات کا دعوت نامہ بھیج دیا گیا۔کیا مجبوری تھی؟۔ بھارت نے جواب میں ٹھینگا دکھا دیا۔
نریندر مودی کے بیان کی تائید صرف مفروربراہمداغ بگتی نے کی جو عرصہ ہوا خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔ براہمداغ بگتی‘ حیربیارمری اور دیگر جلاوطن رہنمائوں پر جب الزام لگا کہ وہ بھارت کا کھیل کھیل رہے ہیں تو اسے مخالفانہ پروپیگنڈا اور پاکستان کے بعض اداروں کی کارستانی قرار دیا گیا۔ فراریوں نے ہتھیار ڈالنے کے بعد ان لیڈروں کی اصلیت بیان کی تو کسی نے کان نہ دھرا حتیٰ کہ بھارت کا حاضر سروس فوجی افسر کلبھوشن یادیو گرفتار ہوا تو بعض سنگدل اسے بھی ایرانی صدر کے دورے کو سبوتاژ کرنے کی چال کہہ گزرے مگر سانحہ کوئٹہ نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا۔ بلوچستان کے عوام بالخصوص جمہوری اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی وکلاء برادری کی شہادت پر شیطانی قہقہہ لگانے کے لیے مودی نے بلوچستان کا موازنہ کشمیر سے کر ڈالا اور پاکستان کو طعنہ دیا کہ وہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اٹھانے کے بجائے بلوچستان کی خیر منائے۔ یہ بیان دے کر مودی نے بلوچستان میں بھارت کی مداخلت‘ تخریبی سرگرمیوں اور علیحدگی پسندانہ تحریک کی سرپرستی کا اعتراف اور کلبھوشن نیٹ ورک کا وجود تسلیم کر لیا۔ شائد اسے اعتماد ہے کہ عالمی برادری اس پر دبائو ڈالے گی نہ پاکستان کے حکمران اس پوزیشن میں ہیں اور نہ بھارت کے روایتی دشمن پنجاب میں شدید ردعمل پیدا ہو گا۔ جہاں ”رَل مِل روٹی کھائیے ‘‘گروپ فعال ہے۔پاکستان میں بھارت نے جو بھاری سرمایہ کاری کی‘ سیاسی‘ صحافتی اورسماجی حلقوں میں اپنے ہمدرد پیدا کئے‘ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے خلاف فضا ہموار کی‘ وہ رنگ لا رہی ہے۔ مودی کے بیان پر شدید ردعمل بلوچ رہنمائوں کے علاوہ نوشکی‘ چاغی‘ ڈیرہ بگتی‘ دالبندین‘ چمن‘ سبّی وغیرہ کے غریب عوام نے ظاہر کیا اور ”مودی کا جو یار ہے غدار ہے‘‘ کے نعرے بھی بلوچستان میں لگے جبکہ پارلیمینٹ میں بعض مہربانوں نے سانحہ کوئٹہ کو سکیورٹی اداروں کی نااہلی اور بے خبری سے تعبیر کیا جس پر برافروختہ صرف چودھری نثار علی خاں ہوئے۔باقی مسلم لیگ کو سانپ سونگھ گیا۔
مقبوضہ کشمیر میں عوامی مزاحمت سے توجہ ہٹانے اور پاکستان کو اپنے اندرونی معاملات میں الجھائے رکھنے کے لیے بھارت‘ بلوچستان اورکراچی کو گرم رکھنا چاہتا ہے۔ نیو کلیر سپلائر گروپ میں بھارت کا راستہ روک کر چین اور پاکستان نے مودی کو پاگل کر دیا ہے سی پیک منصوبہ اگر کامیابی سے ہمکنار ہو تو پاکستان کی صرف خوشحالی کا راستہ نہیں کھلتا بلکہ یہ ہمارے دفاع اور سلامتی کا ضامن بھی ہے۔ پاکستان کے چین‘ روس‘ ترکی اور بعض وسط ایشیائی ریاستوں سے تعلقات بھارت کے علاوہ امریکہ کے لیے بھی تشویش کا باعث ہیں۔امریکی تھنک ٹینک 2030ء تک پاکستان‘ چین‘ روس اور ترکی کے اتحاد اور امریکہ کے مدمقابل دفاعی‘ معاشی و سیاسی قوت بننے کی پیش گوئی کر رہے ہیں تب امریکہ واحد سپر پاور نہیں رہے گا۔ امریکہ نے چین کے مدمقابل بھارت کو علاقائی سپر پاور بنانے کی جو سعی کی وہ ناکامی سے دوچار ہو چکی کیونکہ بھارت کی کسی ہمسائے سے بنتی ہے نہ اپنی 23 سے زائد ریاستوں میں جاری علیحدگی کی تحریکوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا مقصد بھی امریکہ اور عالمی برادری کی توجہ اپنی داخلی صورتحال سے ہٹانا اور اپنی تمام خرابیوں‘ تخریبی سرگرمیوں کا ملبہ اس ہمسایہ ملک پر ڈالنا ہے جو خود دہشت گردی کا شکار ہے۔
علیحدگی پسندوں پر کثیر سرمایہ کاری‘ تربیت اور جدید اسلحہ کی فراہمی کے باوجود شورش زدہ بلوچستان میں گزشتہ دو سال سے جشن آزادی کی پرجوش تقریبات‘ قومی پرچموں کی بہار‘ کشمیری مجاہدین سے اظہار یکجہتی کے مظاہرے بھارت کو کیسے ہضم ہو سکتے ہیں‘ اوپر سے کشمیریوں نے اس کی ناک میں دم کر رکھا ہے پاکستان کے یوم آزادی پر اظہار مسرت اور سبز ہلالی پرچم لہرانے کا مقابلہ‘ نریندر مودی اور اس کے انتہا پسند و تنگ نظر ساتھیوں کا بلڈ پریشر ہائی کر دیتا ہے ۔ توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم کی حامل بھارتی قیادت کو ”ایاز قدر خود بشناس‘‘ کا مشورہ دینے والا مگر کوئی نہیں۔کوئی لیاقت‘ بھٹو نہ ضیاء الحق‘ آصف زرداری کے دل میں بھارت بستا ہے اور نواز شریف آلو گوشت کھانے‘ تہمد اور شلوار قمیص پہننے کی وجہ سے بھارتیوں اور پاکستانیوں کو ایک جیسا سمجھتے ہیں صرف درمیان پتلی سی لکیر حائل ہے۔ یہ میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔
9/11سے پہلے ایک امریکی دانشور نے مغربی حکمرانوں کو مشورہ دیا تھا کہ کمیونزم کے خاتمے کے بعد ہماری تہذیب و ثقافت اور سیاسی بالادستی کو اسلام سے خطرہ ہے؛ تاہم اسلام سے جنگ کرنے کے بجائے ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ اسلام کے اندر جنگ کا آغاز ہو(War With in Islam) مسلمان باہم گتھم گتھا ہو کر مغرب سے مقابلے کے قابل نہ رہیں۔یہ ہمارے لیے بھی ایک سبق تھا کہ ہم دیرینہ اور کمینے دشمن کو اندرونی جنگ میں الجھا کر اپنے آپ سے دور رکھیں مگرجنرل(ر) پرویز مشرف امریکہ کی جنگ کو پاکستان میں لے آئے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور باغیوں کو ایک ”شہید‘‘ دیدیا اور کشمیر میں بھارت کو ہر ممکن سہولت فراہم کی کہ وہ داخلی جنگ سے نجات حاصل کر سکے۔ حریت کانفرنس کی تقسیم‘ سید علی گیلانی جیسے پاکستان نواز لیڈروں سے بے اعتنائی اور اسلام آباد میں محبوبہ مفتی کی بے جا پذیرائی سے کشمیری عوام کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ بھارت کے علاوہ بلوچستان میں سرگرم عمل بھارت نواز عناصر کے حوصلے بلند ہوئے اور نریندر مودی کے پیشروئوں کو کلبھوشن نیٹ ورک قائم کرنے کا موقع ملا۔
بھارتی نیٹ ورک نے ہزارہ برادری کا جینا حرام کر دیا‘ بی ایل اے اور دیگر علیحدگی پسند تنظیموں کو پاکستان سے محبت کرنے والے بلوچیوں اور غیر بلوچیوں سے بدلہ لینے کا موقع ملا۔ شناختی کارڈ دیکھ کر ٹارگٹ کلنگ کی رسم ایجاد ہوئی۔ اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں‘ سرکاری دفتروں اور پبلک مقامات پر قومی جھنڈا لہرانا‘ قومی ترانہ پڑھنا جرم بن گیا۔ حالات مگر ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ آج کوئٹہ سے چمن تک سفر محفوظ ہے اور کچلاک کے ہوٹل رات گئے تک آباد رہتے ہیں جبکہ تین سال قبل کوئٹہ کے بعض علاقوں میں بھی کرفیو کی سی کیفیت نظر آتی تھی۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں عوام نے مودی کے بیان پر احتجاجی ریلیاں نکال کر پاکستان سے اپنی وابستگی اوربھارت نواز علیحدگی پسندوں سے نفرت کا اظہار کیا مگر کیا مودی کے بیان پر احتجاج صرف بلوچستان کے عوام کی ذمہ داری ہے ؟کیا بین الاقوامی قوانین کے ماہرین کے مشورے سے اس معاملے کو عالمی اداروں میں اٹھانے کا وقت نہیں؟ کیا پاکستان بالخصوص بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور دہشت گردوں کی سرپرستی ثابت کرنے کے لیے ہمیں یہی اعتراف جرم اور کلبھوشن کے علاوہ اس کے گرفتار ساتھیوں کی گواہی کافی نہیں؟ مگر افسوس کشمیریوں کا مضبوط مقدمہ نااہل‘ کمزور دل اور مصلحت کیش وکیلوں کے ہاتھ لگ گیا۔کاش پنجاب میں مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی باہمی اختلافات بھلا کر ایسی ہی ریلیاں منظم کرتیں۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا ایک نمائندہ وفد مودی کے بیان اور گرفتار بھارتی ایجنٹوں کے اعترافات پر دستاویزات لے کر اہم ممالک کے دارالحکومتوں کا رخ کرتا اور پاکستان کا مضبوط سیاسی‘ اخلاقی‘ سفارتی اور قانونی مقدمہ وہاں کی قیادت کے رُوبرو لڑتا۔ کاش! اے کاش!!
روز نامہ دنیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں