چند یادگار لمحے

[wzslider autoplay=”true” transition=”‘slide'” info=”true” lightbox=”true”]imageimage

کچھ دن پہلے ہم دوستوں نے مل کر ایک دن کہیں باہر جا کر گزارنے کا پروگرام بنایا اور برائٹن سے کوئی لگ بھگ پندرہ میل
آگے سیون سسٹر کلفز نامی جگہ کا تعین کیا گیا اور اسکے بعد انتظامات کرنا شروع کر دیئے کیو نکہ پروگرام یہی تھا کہ صبح سویرے نکلے گے اور رات کو واپس آئے گے اب تیس دوستوں نے جانا تھا تو اور سارا دن گزارنے کے لئے کھانے پینے کا انتظام بھی بہت ضروری تھا اور یہ ذمہ داری نعیم الفت کے سر تھی وہ دوسرے لوگوں سے بھی مدد لے سکتا تھا جس میں زاہد آفریدی ،رومی ملک اور ساج بٹ نے بھی کافی مدد کی۔پروگرام بناتے اور جگہ کا تعین کرتے وقت اس بات کو مد نظر رکھا گیا تھا کہ ہمیں ایک لمبے رستے پر پیدل چلنا ہے اور ظاہر ہے راستہ خوبصورت ہو تو ہی آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں جب اسکا پروگرام بن رہا تھا تو عاصم خان کہتے تھے کہ یہ بہت اچھی ورزش ہو گی جس میں آپ لوگوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا اور ٹیم بلڈنگ میں کافی مدد ملے گی میں اسوقت سوچتا تھا کہ ہم لوگ جائے گے سیر و تفریح ہو گی کچھ تصویریں بنائے گے اور واپس آجائے گے موج مستی کرتے ہوئے اب اس میں کیا سیکھنا اور کیا سیکھانا یہ شائد اس لئے بھی تھا کہ میرے لئے پہلی بار تھا کہ اس طرح کے بڑے تفریحی پروگرام پر جا رہا تھا تو سوچا دیکھتے ہیں کہ کیسا تجربہ ہوتا ہے اس لئے بیمار ہوتے ہوئے بھی ارادہ ملتوی نہیں کیا جو ہو گا دیکھا جائے گا صبح سات بجے گھر سے نکلے وہ بھی بغیر ناشتہ کئے کیونکہ ہمارے نہایت ہی پیارے دوست جابر فاروق نے کہا کہ (چوہدری شوکے دے ہوندیا کوئی ٹینشن نئی لینی )اس نے گھر سے نکلتے ہوئے ہی اپنے آپ کو سٹیج ڈرامے کے کردار چوہدری شوکا میں ڈھال لیا تھا تین مختلف جگہوں سے دوستوں نے آنا تھا اور موٹر وے پر ایک پہلے سے تہہ شدہ مقام پر اکٹھے ہونا تھا وہاں پر پہنچے تو لوگوں نے اپنی پسند کے مطابق کچھ ہلکا پھلکا ناشتہ لیا

image image

پھر سب گاڑیاں اپنی منزل کی طرف چل پڑی وہاں پہنچ کر سب لوگوں کے لئے الگ الگ بنائے گئے کھانے کے پیکٹ دئے گئے جس میں کچھ فروٹ ،پانی کی بوتلیں ،کولڈ ڈرنکس،سینڈ وچ اور شامی کباب بھی تھے سب لوگ اپنے اپنے بیگ لے کر گئے تھے کھانے پینے کی چیزیں اٹھانے کے لئے میرا اور چوہدری شوکے کا بیگ ایک ہی تھا کیونکہ میں تھوڑا بیمار بھی تھا تو شوکے کا کہنا تھا کہ تم رہنے دو میں بیگ اٹھا لو گا جس کی وجہ سے مجھے کافی آسانی بھی رہی اور پھر وہاں سے صفر کا آغاز ہوا نقشہ دیکھا گیا اور عاصم خان کے پیچھے سب لوگ چلنا شروع ہو گئے جیسے ہی سفر شروع ہوا تو سب لوگ بڑے خوش ہنستے مسکراتے ہو ئے نظر آئے اپنے ارد گرد خوبصورتی کو محسوس کرنے لگے اور تصویروں کا عمل بھی شروع ہو گیا کوئی سیلفی لے رہا تھا تو کو ئی گروپ فوٹو تھوڑا سا آگے گئے تو سب دوست مختلف گروپوں میں تقسیم ہو گئے میں جب بھی کہیں باہر جاتا ہو تو وہاں کے مختلف پہلوؤں کو جانچنے کی کوشش کرتا ہو اس بار تو میری صحت بھی اچھی نہیں تھی تو لہذا تھوڑی دیر اکیلا چلنا شروع کر دیا لیکن ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ پیچھے چھور سنائی دیا جب دیکھا تو ہمارے بہت ہی شرارتی سے دوست علی خواجہ جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے اپنے فیصلہ آبادی رنگ میں نظر آئے ظاہر ہے اگر کسی جگہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والا کو ئی شخص موجود ہو اور وہا ں پر ہنسی مذاق نہ ہو یہ تو شاید خواب میں بھی ممکن نہ ہو میں بھی تھوڑا آہستہ ہوا اور ان سب کے ساتھ مل گیا اور ساتھ ہی خواجہ صاحب نے جگت بازی شروع کر دی میں نے بھی اپنی طرف سے کچھ جواب دینے کی کوشش کی لیکن لوگ کافی تھے کہ آپ کو زور شور سے بات کرنا پڑتی تھی جس سے مجھے کھانسی شروع ہو جاتی تو میں نے سوچا کہ بہتر ہے زیادہ وقت اسطرح کے مذاق سے دور ہی رہوں یہ نہ ہو کہ صحت زیادہ خراب ہو جائے اور پھر ان سے الگ چلنا شروع کر دیا سفر کافی لمبا تھا نقشے کے مطابق تیرہ سے چودہ میل تھا لیکن وہاں پر رستوں کی رہنمائی کے لئے زیادہ اچھا انتظام نہیں تھا جس کی وجہ سے ہمارا تیرہ میل کا سفر کوئی بیس میل سے زیادہ کا ہو گیا کیو نکہ ہم ایک جنگل میں سے گزرے جو کہ وہی بارہ سے تیرہ میل تھا اب میں واک سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کون کیا کر رہا ہے جس کے لئے میں نے کوشش کی کہ باری باری سب کے ساتھ چلتا رہا

image image جنگل میں پہلی جگہ پر کچھ دیر کی لئے رکے تو رومی ملک اور ساج بٹ صاحب کافی پیچھے رہ چکے تھے سب نے انکا انتظار کیا جب وہ لوگ آئے تو ہم لوگ پھر سے چل دیے انھوں نے کہا کچھ آرام کر کے وہ بھی ہمارے پیچھے آجائے گے اور وہاں پر وسیم جنجوعہ کی ہمارے پٹھان بھائی ملک بخت عالم کوہستانی کے ساتھ ہنسی مذاق سے بھی سب لوگ کافی لطف اندوز ہوئے ملک صاحب کا نام ہی اتنا بڑا ہے لیکن وہ خود بیچارہ بڑا معصوم اور سیدھا سادہ سا لڑکا ہے اس لئے اس کے ساتھ جنجو عہ صاحب نے کافی مذاق کیا ایک وقت میں تو اس نے یہ بھی کہا کہ یار مذاق کرنا ہے تو کم از کم اردو میں تو کرو کیو نکہ پنجابی کی پوری سمجھ نہیں آتی خیر جنگل کا راستہ کافی لمبا تھا بہت اچھے خوبصورت مقامات بھی دیکھنے کو ملے لیکن مشکل بھی تھا کیو نکہ رستے اونچے نیچے تھے کبھی اوپر جاتے تو کبھی نیچے جسکی وجہ سے سب لوگ تھک بھی رہے تھے اور میں دیکھ رہا تھا کہ سب ایک دوسرے کی مدد بھی کر رہے تھے لوگوں کو ایک دوسرے سے بات کرنے کا بھی کھلا موقع ملا کوئی کسی کو اپنے خاندان یا کاروبار کے متعلق بتا رہا تھا تو کسی نے اپنی نوکری کے بارے میں بات کی ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے تعارف کیا گیا زیادہ بات چیت کرنے سے لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتماد بھی بڑا حتی کہ کرس نامی شخص جو کہ پولینڈ کا شہری تھا وہ بھی ہمارے گروپ کا حصہ تھا وہ بھی سب لوگوں کے ساتھ لطف اندوز ہو رہا تھا اور مختلف لوگوں سے باتیں کر رہا تھا میں بھی مختصر سا راستہ اس کے ساتھ چلا اور اس نے مجھے اپنے اور اپنے ملک کے بارے میں بتا یا اور میں نے بھی اسے پاکستان کے بارے میں کچھ باتیں بتانے کی کوشش کی پھر وقفے وقفے سے چوہدری شوکے کا ڈائیلاگ آتا رہتا تھا اور علی خواجہ اس نے تو نسیم وکی کا کردار ہاتھ سے جانے نہیں دیا

image image
جب جنگل سے باہر نکلے جھیل، پہاڑ اور سمندر دیکھ کر ایک بار سب لوگ پھر سے خوش ہو گئے اور ہم نے صبح ساڑھے دس بجے کے قریب پیدل چلنا شروع کیا تھا اور اب شام کے چار بج چکے تھے عاصم خان اب تک سب سے آگے آگے چل رہے تھے لیکن پھر لگا کہ شائد وہ بھی تھوڑا تھک گئے ہیں جب بریک کرنے کے لئے ایک سائیڈ پر گئے تو دیکھا کہ رومی ملک، بٹ صاحب ، عدیل لودھی اور انکا بیٹا جن کو اپنے پیچھے جنگل میں چھوڑ کے آئے تھے وہ پہلے سے وہاں پر موجود تھے سب حیران تھے کہ یہ کس طرح پہنچ گئے اور سب کہہ رہے تھے کہ آپ لوگوں نے جنگل میں نہ آ کر غلطی کی ہے اصل مزہ تو اسی میں تھا پھر انھوں نے بتایا کہ ہم شارٹ کٹ رستے سے آئے ہیں اور سفر کے آخر میں کہہ رہے تھے کہ اچھا ہوا کہ یہ لوگ ہمارے پیچھے نہیں آئے وہاں پر کچھ دیر آرام کرنے اور کھانا کھانے کے بعد پھر سے آغاز کیا کافی لوگ تھک چکے تھے لیکن سفر ابھی بھی باقی تھا ملک فہد کی ٹانگ میں کافی شدید درد شروع ہو چکا تھا اور وہ زاہد آفریدی کو پکڑ کر چل رہا تھا عاصم خان کے جوتے ٹوٹ گئے تھے ان کے بیگ میں دوسرا جوڑا تھا وہ کام آگیا بخت کے جوتے بھی پاؤں میں زخم کر رہے تھے بٹ صاحب کو اونچائی سے ڈر لگتا تھا میرے بھی سر میں کافی درد شروع ہو چکا تھا عنصر ہاشمی نے پیرا سیٹا مول کی دو گولیاں جن کو کھانے سے کچھ بہتر محسوس ہوا حسب معمول چوہدری شوکے نے کہیں سے کھجور کا پیکٹ نکالا اور سب میں تقسیم کیا اب سات پہاڑیاں تھی جن کو عبور کر کے دوسری طرف جانا تھا اوپر سے وقت کم تھا کیونکہ سورج غروب ہو رہا تھا لیکن پہلی پہاڑی پر جاتے ہوئے سب نے ہمت کی اور پھر حوصلہ بڑھ گیا سب اپنی سکت کے مطابق آہستہ آہستہ چل رہے تھے جو نہیں چل سکتے تھے انکی مدد کے لئے کچھ لوگ انکے ساتھ رک گئے اور باقی سب نے چلنا شروع کر دیا کیونکہ اندھیرا ہو رہا تھا اور پہاڑیاں عبور کر کے ہی سڑک آتی تھی اور پھر سب سے حسین منظر بلڈ مون (خون نما چاند) کی صورت میں دیکھنے کو ملا اتنی اونچائی سے دیکھنے کا کچھ اپنا ہی لطف تھا کیونکہ پتا نہیں یہ موقع دوبارہ زندگی میں آئے گا یا نہیں اگر آیا بھی تو شائد اسطرح اتنی اونچائی سے دیکھنا نہ ہو سب اس سے لطف اندوز ہو رہے تھے لگتا تھا کہ ہم اس کے بہت قریب ہیں

image image
اب ہم ایک تفریحی مقام پر پہنچ چکے تھے اور اس وقت رات کے آٹھ بج چکے تھے اور وہاں پر گاڑیوں کی آمدورفت تھی ہمارا راستہ تین میل باقی رہ گیا تھا لیکن اب اندھیرا ہو چکا تھا چلنا ممکن نہیں تھا ویسے بھی سب کی ہمت جواب دے چکی تھی لیکن تقویم احسن دو اور دوستوں کے ساتھ گاڑیوں تک پہنچ چکا تھا جیسے تیسے کر کے لفٹ کے ذریعے کچھ لوگ گاڑیوں تک پہنچے اور وہاں سے گاڑیاں لے کر آئے تقویم بھی گاڑی لیکر وہاں پہنچ گیا اور ہم لوگ رات گیارہ کے بعد گھر پہنچے اگلے دن کچھ دوست کام پر گئے اور کچھ میرے جیسے نکموں نے چھٹی کی کیونکہ اتنا پیدل چلنے کے بعد تو ابھی بھی ٹانگوں میں ہلکا ہلکا درد محسوس ہو رہا ہے بیس میل سے زیادہ اونچے نیچے رستوں پر پیدل چلنا کو ئی آسان نہیں ہے یہ ہماری ٹیم کا امتحان بھی تھا کہ مشکل وقت کی تربیت تھی جس میں سب کا کردار بہت مثبت رہا اور بڑے صبروتحمل سے کام لیا ایک دوسرے کو برداشت کیا ہمت بندھائی سب لوگوں میں ایک خاندان کی طرح اپنائیت سی تھی ایک دوسرے کا احساس بھی کر رہے تھے اور یہ کام جنونی قسم کے لوگ ہی کر سکتے ہیں میری خواہش ہے کہ ہم کچھ عرصہ کے بعد اسی طرح سیرو تفریح کے پروگرام بناتے رہے یہ ایک مثبت اور صحت مند اقدام تھا جس کا کریڈٹ عاصم خان اور نعیم الفت کو جاتا ہے

image image

اپنا تبصرہ بھیجیں