آزادی کی صبح قریب ہے! ۔۔۔ تحریر : شاہد بن مشتاق


9 ستمبر 2023ٔ کی صبح میں ایک ایسے شخص کے جنازے میں شریک تھا جسے ایک دن پہلے یعنی 8 ستمبر کو نماز فجر کے بعد راولاکوٹ کی مسجد القدس میں سر کی پچھلی جانب گولیاں مار کر شہید کردیا گیا تھا ، شہید جب نماز کے لئے آیا تو امام صاحب ایک رکعت پڑھا چکے تھے وہ دوسری رکعت میں جماعت میں شامل ہوئے، قاتل جو اس سے پہلے جمعرات کو مناسب موقع کی تلاش میں ظہر عصر اور مغرب کی نمازیں اسی مسجد میں پڑھ چکا تھا وہ بھی نماز میں شامل تھا ۔
سلام پھیرنے کے بعد امام صاحب مسجد کے اوپر بنے اپنے حجرے میں تشریف لے گئے ، اب مسجد میں صرف چار لوگ تھے یعنی قاتل ، مقتول اور دو دیگر نمازی ، عینی شاہدین کے مطابق ابو القاسم دوزانوں بیٹھ کر نماز کے بقیہ مسنون اذکار مکمل کر رہے تھے کہ قاتل اٹھ کر باہر گیا ، اپنا بیگ کھولا (جس کی آواز دونوں نمازیوں نے بھی سنی )اور واپس آکر شہید کے سر کی پچھلی جانب پستول سے تین فائر کئے، شہید سامنے کی جانب سجدے کی حالت میں گرا ، قاتل نے پستول سے دونوں نمازیوں کو دھمکایا اور خاموشی سے فرار ہوگیا ۔
پچھلے ہفتے قومی و بین الاقوامی میڈیا میں ایک کشمیری شخص محمد ریاض المعروف ابو القاسم کشمیری کا بہت چرچہ رہا ، ابو القاسم کشمیری مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھتے تھے جو انڈین آرمی کے مظالم سے تنگ آکر 1999ٔ میں صرف سترہ سال کی عمر میں اپنے والدین اور دیگر بہن بھائیوں سمیت ہجرت کر کے پاکستان کے زیر انتظام علاقے آزاد کشمیر میں آ بسے تھے ۔
ابو القاسم کے خاندان کی قربانیوں کی تاریخ بڑی پرانی اور طویل ہے نوے کی دہائی میں ایک رات انڈین آرمی نے انکے خاندان کے 19 افراد کلہاڑیوں کے ساتھ شہید کردئیے تھے مگر یہیں پہ بس نہیں کی اس کے بعد بھی جب دل کیا ابو القاسم اور ان کے والد کو اٹھا لیا جاتا اور عقوبت خانوں میں شدید ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ۔
بالآخر دہشتگرد بھارتی فوج کے اس بیہمانہ ظلم و ستم سے تنگ آکر اس کنبے نے آزاد کشمیر کی طرف ہجرت کی اس بدنصیب خاندان کے ساتھ ایک ایسی مظلوم بچی بھی تھی جس کا کوئی قریبی عزیز بھارتی فوج نے زندہ نہیں چھوڑا تھا ، اس یتیم بچی کی پرورش ابو القاسم کی والدہ نے کی اور بعد میں اس کی شادی شہید ابو القاسم کے ساتھ کردی گئی آنے والے دنوں میں اللہ تعالی نے انہیں 9 صحت مند خوبصورت بچوں سے نوازا ۔
ہجرت کے بعد بھی اس خاندان نے آزادی کے لئے قربانیاں پیش کرنے کی اپنی عظیم روائت رکنے نہیں دی ، پہلے شہید ابو القاسم کے والد محترم اور پھر ایک بھائی نے جہاد کشمیر میں جام شہادت نوش کیا ، ابو القاسم ایک عالم دین اور اپنے خاندان کے سربراہ تھے ۔
آٹھ ستمبر کے اس حادثے کی خبر نے مقبوضہ جموں و کشمیر سے لیکر کراچی تک بے شمار دل دکھ اور انکھیں آنسووں سے بھردیں ۔
جہاں آزاد کشمیر میں حزب المجاہدین اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے اس کی شدید مذمت کی ، وہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے کچھ سر پھرے مجاہدوں نے اس قتل کا انتقام لینے کا اعلان بھی کیا ۔
انڈین میڈیا اور بھارتی فوج کے تجزیہ کار اس کارروائی پر بہت خوش تھے سوشل میڈیا پہ وہ خوب طنزیہ تیر برسا رہے تھے کہ آٹھ ستمبر سے صرف پانچ دن بعد ضلع اننت ناگ کے خوبصورت تفریحی مقام کوکرناگ میں صرف دو حریت پسندوں نے ایک کرنل ، ایک میجر اور جموں و کشمیر پولیس کے ایک ڈی ایس پی سمیت کل سولہ افراد کو قتل کرکے ان کی خوشیوں کو ماتم میں بدل دیا بھارتی فوج شکست کی خاک چاٹنے پر مجبور ہوگئی ۔
اس حملے کی ذمہ داری مقبوضہ جموں و کشمیر کی ” دی ریزسٹنس فرنٹ”( ٹی آر ایف ) نامی مسلح حریت پسند تنظیم نے قبول کی اور اسے ابو القاسم کی شہادت کا بدلہ قرار دیا ، کچھ عسکری ماہرین کے مطابق ٹی آر ایف آزادی پسند کشمیری عسکری تنظیم لشکر طیبہ کی نئی شکل ہے ۔
ہندوستان دو تین سال سے پوری دنیا میں پروپیگنڈہ کررہا تھا کہ کشمیری علیحدگی پسند تحریک کچل دی گئی ہے اور کشمیری اب بھارت کی غلامی میں بہت خوش ہیں مگر مقبوضہ جموں و کشمیر میں اٹھتی ہوئی نئی جہادی لہر نے ہندو بنئے کے سارے دعووں کی پول کھول کر رکھ دی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ (بقول سید علی گیلانی رحمہ اللہ) بھارت اگر کشمیر میں سڑکوں پہ تارکول کی جگہ سونا بھی بچھادے تب بھی انہیں بھارت کا ناجائز تسلط برداشت نہیں ۔
ان شاءاللہ اب وہ وقت دور نہیں جب جری و غیرت مند کشمیری قوم آزادی کی روشن صبح دیکھے گی ، میرا گمان ہے بلکہ میرا یقین ہے یہی جیتیں گے اِن شاء اللہ فتح انہیں کو ملے گی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں