ادبی ریاست کا بادشاہ : جمیل الدین عالی

imageعالی جی اب آپ چلو تم اپنے بوجھ اٹھائے

ساتھ بھی دے تو آخر کوئی کہا ں تک جائے

جس سورج کی آس لگی ہے شائد وہ بھی آئے

تم یہ کہو خود تم نے اب تک کتنے دئے جلائے

آج پہلی بار لکھتے ہوئے الفاظ کے چناؤمیں احتیاط سے کام لینا پڑ رہا ہے اور ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کے لکھ رہا ہوں ۔  فخر بھی محسوس ہو رہا ہے کہ معمولی سا کالم نویس ہوں اور جن کے بارے میں لکھ رہا ہوں وہ علم و ادب کے ہیرو ہیں اور کالم نویسی ، اردو ادب اور ثقافت کے فروغ کے لئے انکی بڑی خدمات ہیں  جن کا نام جمیل الدین عالی ہے ۔

انکی پیدائش 20 جنوری 1926 کو ہندوستان کے شہر دہلی میں سر امیر الدین احمد کے ایک ادبی گھرانے میں ہوئی ۔ جمیل الدین عالی کا پورا نام نواب زادہ مرزا جمیل الدین احمد خاں تھا اور عالی انکا تخلص تھا انکے دادا نواب علاؤالدین احمد خاں مرزا اسد اللہ غالب کے قریبی ساتھی تھے ۔ مرزا صاحب کے والد بھی ایک اچھے اور معروف شاعر تھے ۔ اردو ادب کی ایک اور بڑی شخصیت خواجہ میر درد بھی ان کے خاندان سے ہی تھے۔شائد اسی لئے کہہ سکتے ہیں کہ اردو ادب اور تہذیب انکو ورثے میں ملی جس کو انھوں نے بھی خوب نبھایا ۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ساتھ ایک یادگار تصویر
بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ساتھ ایک یادگار تصویر

ابتدائی تعلیم دہلی سے حاصل کی 1945 میں گریجویشن کی اور تقسیم ہند کے وقت ہجرت کر کے پاکستان کے شہر کراچی میں رہائش پذیر ہوئے ۔ سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد کسٹم افیسر تعینات ہوئے 1963 میں وزارت تعلیم میں بھی کام کیا پھر 1967 میں نیشنل بینک آف پاکستان میں ملازمت شروع کی اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے نائب صدر کے عہدے تک پہنچے اور اسطرح پاکستان بینکنگ کونسل کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمینٹ ایڈوائزر مقرر ہوئے۔ انکی بیوی کا نام طیبہ بانو ہے اور انکے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ۔

ریڈیو پاکستان سے اپنا پروگرام کرتے ہوئے : ادبی مجلہ
ریڈیو پاکستان سے اپنا پروگرام کرتے ہوئے : ادبی مجلہ

پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان میں بھی کام کیا 1983 میں جمیل الدین عالی ریڈیو پاکستان سے اپنا پروگرام ادبی مجلہ کے نام سے پیش کرتے تھے۔ انکو اللہ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا جن کو ہمیشہ انھوں نے ملک کی بہتری کے لئے استعمال کیا انکی شخصیت ایک تخلیق کار کی تھی ۔ وہ نہ صرف عظیم شاعر تھے بلکہ انھوں نے ادب کے مختلف پہلوؤں پہ کام کیا جن میں ملی نغمے ، گیت، ترانے، کالم نویسی ،،نظمیں اور غزلیں شامل ہیں ۔ انہی ملی نغموں کی بدولت ان کو سب سے زیادہ شہرت ملی ۔ سب سے پہلا مشہور ملی نغمہ” اے وطن کے سجیلے جوانو ” تھا جو 1965 میں لکھا جس کو نور جہاں کی سریلی آواز نے چار چاند لگائے پھر 1971 میں ” جیوے جیوے پاکستان ” لکھا اسی طرح ایک اور مشہور نغمہ ” میرا پیغام پاکستان ” تخلیق کیا جسے استاد نصرت فتح علی خان کے سروں میں پرویا گیا ۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کے لئے 1974 میں ” ہم مصطفوی مصطفوی ہیں ” جیسا کلام لکھا انکا ایک گیت ” اتنے بڑے جیون ساگر میں ” علن فقیر نے بھی گایا ۔۔

image

جمیل الدین عالی لگ بھگ چالیس سال تک ” نقار خانےمیں  ” کے نام سے کالم نویسی بھی کرتے رہے جس میں انھوں نے زندگی کے ہر پہلو سے لیکر روز مرہ کے اہم حالات و واقعات پر اور مذہب سے لیکر ثقافت تک لکھا ۔ انھوں نے اردو کے فروغ کے لئے بھی تحریرں لکھی اس کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی اہم واقعات پر بھی لکھتے رہے ۔

انھوں نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1977 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جماعت اسلامی کے سید منور حسن سے شکست ہوئی اور پھر 1997 میں متحدہ قومی مومنٹ کے سینیٹر منتخب ہوئے۔ جمیل الدین عالی موجودہ دور کے ان چند لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے تحریک پاکستان کی جدو جہد سے لیکر قیام پاکستان سب اپنی نظروں سے دیکھا انھوں نے پاکستان کی ترقی و تنزلی بھی دیکھی اور جمہوریت اور آمریت کے دور بھی دیکھے ، جنگیں بھی دیکھی اور جنگ کے دوران ملی نغموں کی تخلیق کے ذریعے اپنا کردار بھی ادا کیا جو ہمیشہ یاد رہے گا انھوں نے مشرقی پاکستان کو الگ ہوتے بھی دیکھا تو عالی صاحب نے پاکستان کو ایٹمی طاقت اور مستحکم ہوتے بھی دیکھا۔ زندگی کے آخری دنوں میں بیماری کے باعث صحت کافی خراب رہتی تھی جس وجہ سے زیادہ تر گھر تک ہی محدود ہو کر رہ گئے تھے لیکن پھر بھی کبھی کبھار وہیل چیر پر کسی ادبی پروگرام میں تشریف لے جاتے تھے کیونکہ اردو ادب سے انکو محبت تھی۔

جمیل الدین عالی ایک ادبی ریاست کے بادشاہ تھے کہا جاتا ہے کہ حروف اس بادشاہ کے ماتحت تھے  اور انکو ادبی ریاست کے تقریباً ہر اعزاز سے نوازا گیا ملکی سطح پر بھی انکی بڑی عزت افزائی کی گئی ان کے جانے سے ملکی فضاؤں میں ان کے ترانے اور ملی نغمے گنگنانے لگے ہیں جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گے ۔

اللہ تعالی انھیں اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں