آزادی کے نام پہ استحصال … تحریر : حمیرا علیم

دعوت دین کے کام کے دوران اکثر غیر مسلم اس نکتے پہ بات ضرور کرتے ہیں کہ مسلم مرد اور اسلام عورت کو پردے میں رکھ کر اس پہ ظلم کرتے ہیں اور اسے حقوق سے محروم رکھتے ہیں۔میرا جواب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اسلام نے ہمیں ایک ملکہ کا اسٹیٹس دیا ہےجیسے ہر شخص نہ تو ملکہ سے مل سکتا ہے نہ ہی اسے دیکھ سکتا ہے بالکل ویسے ہی ہر شخص مسلمان خاتون کو نہ تو دیکھ سکتا ہے نہ چھو سکتا ہے۔جو حقوق ہمیں اسلام نے چودہ سو سال پہلے دیے تھے آج کے دور میں بھی مغربی خواتین ان کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔
ہم تعلیم حاصل کرنے، جاب یا بزنس کرنے کے لیے آزاد ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں حتی کہ ناسا میں بھی مسلم خواتین موجود ہیں۔ہمارے اوپر گھر یا بچوں کے اخراجات کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ہم خواہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہوں ہمارا ناں نفقہ اور دیگر اخراجات ہمارے خاندان کے مردوں کے ذمے ہیں۔طلاق کی صورت میں بھی ہمیں مہر، بچوں کے خرچ اور تمام تحائف ، مال، جائیداد لینے کا حق ہے جو شوہر نے دی ہو۔طلاق یافتہ یا بیوہ خاتون کی ذمہ داری اس کے خاندان کے مردوں پہ ہے اگر کوئی مرد نہ ہو تو حاکم وقت اس کا وارث ہے۔والد، بھائی، بیٹے اور شوہر کی جائیداد میں ہمارا حصہ ہے۔ووٹ کا حق ہمیں حاصل ہے پسند کی شادی کا حق ہمیں حاصل ہے۔کیا مغربی خاتون کو یہ تمام حقوق حاصل ہیں؟؟؟
آئیے ذرا جائزہ لیں کہ حقائق کیا ہیں۔مغربی مرد نے مختلف طریقوں سے عورت کو اپنا قیدی اور غلام بنا رکھا ہے۔جن میں تجارت، سینما، ٹی وی، ریڈیو، اخبارات اور فیشن وغیرہ شامل ہیں.اسے مذہب اور معاشرے کی پابندیوں سے آزاد کر کے چیونگم ، کار حتی کہ مرد کے شیو بنانے کے ریزر تک کے اشتہار کی زینت بنا دیا ہے۔شادی کی بجائے بطور پارٹنر اس کا جنسی استحصال کر کے بچے پیدا کر کے اسے تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ بے چاری مرد کی ذمہ داریاں بھی نبھاتی ہے۔اس کا خرچ تو آپ کیا اٹھائیں گے وہ آدھے گھر کا خرچ آپ کے ساتھ بانٹتی ہے۔
اب تو بہت سی خواتین کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ یورپی تہذیب میں مردوں نےان کا استحصال کیا ہے۔انہیں پیسے کا غلام بنا دیا ہے۔گینز بل آف ورلڈ ریکارڈ اور اقوام متحدہ کےمطابق سب سے زیادہ طلاق کی شرح مالدیپ میں ہے۔ہر سال 1000 باشندوں میں 10۔97 طلاقیں ہوتی ہیں۔اس کے بعد بیلاروس ہے 46۔3 اور پھر امریکہ 4۔34۔کیوبا میں 3۔72۔ایسٹونیا میں 3۔65 پانامہ 3۔61، پورٹیریکو 3۔61 ہے۔
القبس اخبار کویت کے مطابق برطانیہ میں بیس سال سے کم عمر کی 12 میں سے 9 لڑکیاں اغواء کے بعد زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں۔اور صرف 13% مجرم پکڑے جاتے ہیں کیونکہ اکثر مجرم باپ، بھائی، چچا، نانا یا دادا ہوتے ہیں۔کرائم ریٹ 84% بڑھ گیا ہے ۔1975 کےآغاز کے مقابلے میں کم سن بچوں میں کرائم ریٹ پانچ گنا بڑھ گیا ہے۔
ایک اطالوی اخبار ایمیکا نے ان حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔
” اطالوی خواتین گھر سے نکلتے ہوئے ڈرتی ہیں کیونکہ وہ سڑکوں پہ پھرنے والے آوارہ اور پاگل مردوں سے بےعزت نہیں ہونا چاہتیں۔اور ان مردوں سے جن کو اور کوئی کام نہیں سوائے خواتین اور لڑکیوں پہ حملہ آور ہو کے انہیں اغواء کرنے اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے۔اور خواتین کسی بھی ایسی معزز جاب سے انکار کر دیتی ہیں جس میں انہیں رات کو گھر جانا پڑے تاکہ انہیں اپنی عزت اور جان کے لالے نہ پڑیں۔”
میکسیکو میں ہراسگی اور زیادتی کے متعدد واقعات کے بعدصرف خواتین کے لیے بسز چلائی گئی ہیں۔2018 میں پورنا سین کو اقوام متحدہ میں ہراسگی اور امتیازی سلوک پہ بات کرنے کا ترجمان مقرر کیا گیا تھا۔ان کے مطابق اقوام متحدہ میں بھی خواتین کو تعلق بنانے کا کہا گیااور ان کی عصمت دری کی گئی یہ حال ہے آپ کی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم حقوق انسانی کا۔
امریکہ میں ریپ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ہر چھ میں سے ایک خاتون ریپ کا شکار ہے۔14 سال کی لڑکیاں ریپ ہو چکی ہیں۔برطانیہ میں ہر سال 85000، فرانس میں 75000خواتین کا ریپ ہوتا ہے۔جرمنی میں تقریبا 240000 خواتین ریپ کی وجہ سے مرچکی ہیں۔رواں سال پینسٹھ لاکھ سات ہزار تین سو چورانوے کے قریب خواتین ریپ کا شکار ہوئی ہیں۔کینیڈا ایک ترقی یافتہ ملک ہے وہاں 2516918خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق یہ صرف چھ فیصد شرح ہے جو رپورٹ ہوئی ہے۔بھارت میں 24000 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔
ان سب خطرات اور بری نظروں سے ہماری حفاظت کے لیے اللہ تعالٰی نے ہمیں پردے کا حکم دیا ہے۔بالکل ایسے ہی جیسے قدرت نے پھلوں سبزیوں پہ چھلکے چڑھا کر اور پرندوں کو پروں سے ڈھانپ کر سردگرم موسم سے ان کی حفاظت فرمائی ہے۔ کیا آپ نے کبھی ہیروں کو اپنے گھر میں کہیں بھی پھینکا ہے؟ مجھے یقین ہے ایسا نہیں ہوتا ہر شخص قیمتی اشیاء کو بڑی حفاظت سے لاکر یا سیف میں چھپا کر رکھتا ہے۔تو اللہ تعالٰی ہمیں کیوں نہ چھپا کر اور محفوظ رکھے۔
ویسے بھی نہ صرف مریم علیہ السلام بلکہ آپ کی ننز بھی حجاب لیتی ہیں۔یہودیوں کی خواتین تو سر ڈھانپتی ہی ہیں مردوں کو بھی کوفی پہننا لازمی ہے۔ہندووں میں کچھ قبائل ایسے ہیں جن کی خواتین عورتوں سے بھی گھونگھٹ کرتی ہیں۔اگر آپ ان سب کو مظلوم اور غلام نہیں سمجھتے تو ہمیں کیوں؟؟؟
آپ کے ہاں خواتین ملازمین سے بھی کام تو پورا لیا جاتا ہے جب کہ تنخواہ مردوں سے کم دی جاتی ہے۔دفاتر حتی کہ آرمی کیمپس میں بھی خواتین آفیسرز کے ساتھ زیادتی کے واقعات عام ہیں۔زنانہ استعمال کی اشیاء کے نرخ بھی زیادہ ہیں۔خواتین گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ کما کر بھی لاتی ہیں مگر مرد پھر بھی ان سے وفادار نہیں۔ان کی تذلیل کی حد تو یہ ہے کہ نائٹ کلبز میں برہنہ نچائی جاتی ہیں۔کیا کبھی کسی مسلم خاتون کو آپ نے یہ سب کرتے دیکھا ہے؟؟؟یا کسی مسلم ملک میں ایسا امتیازی سلوک دیکھا ہے؟
اگلا سوال ہوتا ہے کہ آپ کو تو ڈرائیونگ کی بھی اجازت نہیں تو آپ کیسے آزاد ہوئیں؟ میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ہماری حفاظت کے لیے ہمیں محرم مرد حضرات باڈی گارڈ کے طور پہ دئیے ہیں جو ہمارے لیے شوفر کی خدمات بھی سرانجام دیتے ہیں۔جہاں تک بات ڈرائیونگ کی اجازت نہ ہونے کی ہے تو ہم ٹرین، کار، بائیک چھوڑ جہاز بھی حجاب میں چلا رہی ہیں۔چاند تک کا سفر کر رہی ہیں خلا میں کام۔کر رہی ہیں۔تو آپ کس اجازت کی بات کر رہے ہیں؟
ہم پر اسلام یا ہمارے مردوں کی طرف سے کسی قسم کی پابندی نہیں ہے اور جو ہیں بھی ان میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔اس لیے آپ ہماری فکر میں دبلا ہونے کی بجائے اپنی خواتین کی بھلائی کا سوچیں۔
تیسرا سوال ہوتا ہے کہ کیا مرد کو چار شادیوں کی اجازت دے کر خواتین پہ ظلم نہیں کیا گیا ہےیہ اجازت عورت کو کیوں نہیں ہے؟میرا جواب ہوتا ہے کیا شادی کرکے تمام حقوق دینا گرل فرینڈ بنا کر ذلیل کرنے سے بہتر نہیں ہے؟ آپ کے ہاں دوسری شادی پر پابندی لگا کر ایکسڑا میریٹل افیرز کی اجازت دے دی گئی ہے۔طلاق پہ پابندی لگا کر بے وفائی کی اجازت دے دی گئی ہے مگر دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے۔خواتین کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے مرد کئی خواتین سے تعلقات رکھے ہوئے ہیں لیکن ذمہ داری سے کتراتے ہیں اور ان سے شادی کے لیے آمادہ نہیں۔
اگر ایک عورت کے کئی مردوں سے تعلقات ہوں یا اسے بھی دو، تین اور چار شادیوں کی اجازت دے دی جائے تو سب سے پہلا مسئلہ تو اس کا کسی ایک شوہر کے گھر رہنے، اس کے بچے پیدا کرنے اور سنبھالنے کا ہو گا۔کیا ایک عورت کی نازک طبیعت اتنے گھروں کا کام سنبھال سکے گی۔دوسرا اور اہم مسئلہ وراثت اور کفالت کا ہو گا۔جیسے کہ آپ کے ہاں ہوتا ہے۔عورت کو معلوم نہیں ہو گا کہ کس شوہر کا بچہ ہے تو وہ کیسے اس شوہر سے بچے کے خرچ یا جائیداد میں حصہ طلب کر سکتی ہے۔چادراور چاردیواری کے تقدس کو بحال رکھنے کے لیے عورت کا کسی ایک مرد سے نکاح ہی بہتر ہے۔ہاں ہم اس معاملے میں آزاد ہیں کہ کسی مرد کو پسند نہ کریں تو نکاح زبردستی نہیں کیا جا سکتا۔اگر ہم کسی وجہ سے شوہر سے نبھا نہ کر سکیں تو خلع کا حق استعمال کر سکتی ہیں۔اگر شوہر ہمارے کفالت نہ کرے تو اسے چھوڑ کر دوسرانکاح کر سکتی ہیں۔کیا آپ کے ہاں ایسا ہوتا ہے؟ آپ تو اپنی بیوی سے پیدا ہونے والے بچے کا بھی ڈی این اے کروانے پہ مجبور ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ یہ آپ کا ہی بچہ ہے یا اس کے کسی بوائے فرینڈ کا؟
آزادی کے نام پہ جو استحصال آپ عورت کا کر رہے ہیں اصل قید اورظلم وہ ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں