”پاکستان اسلام کا قلعہ“ … تحریر : عالیہ مرتضیٰ ملک (رحیم یار خان)


27 رمضان المبارک 1366 ہجری، 14 اگست 1947 بروز جمعرات کو عالمِ دنیا کا نقشہ کچھ اس طرح سے بدلہ کہ اس کے بعد آج تک باطل قوتیں چاہ کر بھی اس میں تبدل نا کر سکیں۔ یہی ہے وہ میرا ملک پاکستان جس کی تقدیر کا فیصلہ تقریبًا 14 سو سال قبل شاہِ دو عالم، سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰؐ کی زبانِ اقدس سے ادا ہوا اور رہتی دنیا تک کے لیے امر ہو گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ان تھک محنت نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو نئی منزل سے روشناس کرایا جسے “اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے نام سے جانا گیا۔
پسِ منظر:
ہندوستان کے مسلمانوں پر جب زمین تنگ کر دی گئی تو دو قومی نظریے نے جنم لیا۔ علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری نے جہاں مسلمانوں کو بیدار کیا وہیں سر سید احمد خانؒ کے دو قومی نظریے نے مسلمانوں کی ہر طرح سے الگ شناخت کی وضاحت کر دی۔ مسلمانوں نے قائد اعظمؒ کی سربراہی میں بھرپور جدوجہد کی اور یوں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
مقصدِ آزادی:
ہمیں آزاد ہوئے 76 سال گزر چکے ہیں مگر ہم آج بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
مقصد کے بغیر جو بھی کام کیا جائے وہ کبھی تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ ہمارا مقصد اور ہمارا راستہ اسلام تھا جبکہ ہماری منزل تھی آزادی۔ جب مقصد ہی بھلا دیا ہو یا یوں کہہ لیں کہ جب راستہ ہی بدل لیا جائے تو منزل کیسے مل سکتی ہے؟
جب تک ہم نے اپنے مقصد کو یاد رکھا، ہم آزاد رہے اور جیسے ہی ہم اپنے مقصد سے دور ہوئے، غلامی ہمارا مقدر بن گئی۔
پاکستان اسلام کا قلعہ:
یہ جملہ ہم نے بارہا سنا مگر شاید ہی کبھی اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ ضرورت تب محسوس ہوتی ہے جب ہمیں کسی چیز کی طلب ہو اور ہم تو اپنی طلب یعنی اسلام کو کب کا ختم کر چکے ہیں۔
چلیں آج ہم اس جملے کو دو مختلف پہلوؤں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے “قلعہ” کا مطلب جان لیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے قیام سے قبل دشمن کے اچانک حملے سے بچنے کی غرض سے بادشاہ اپنے شاہی خاندان, وزیروں, مشیروں اور افواج کی حفاظت کے لیے اونچے مقامات پر قلعے تعمیر کروایا کرتے تھے۔
پہلو نمبر 1: “پاکستان اسلام کا قلعہ” ہے۔ یعنی پاکستان ایک قلعہ ہے جس کا مقصد اسلام کی حفاظت ہے۔ تو پھر یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اسلام کو اپنی حفاظت کے لیے پاکستان کی چار دیواری کی ضرورت ہے؟ اور نعوذباللّٰہ اگر پاکستان نہیں رہتا تو کیا اسلام بھی نہیں رہے گا؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اسی سوچ کی بنیاد پر دوسرا پہلو جنم لیتا ہے۔ تو چلیں پہلے دوسرا پہلو دیکھ لیتے ہیں تاکہ پہلے پہلو کو سمجھنے میں آسانی رہے۔
پہلو نمبر 2: پاکستان اسلام کا قلعہ نہیں ہے بلکہ “اسلام پاکستان کا قلعہ” ہے۔ یہ جملہ سمجھ بھی آتا ہے۔ یعنی اسلام وہ عمارت ہے جس کے اندر پاکستان محفوظ ہے۔ اسلام کو حفاظت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی حفاظت کا ذمہ تو خود رب تعالیٰ نے لیا ہے۔ اسلام وہ عمارت ہے جس کو آپ اس زمین میں کسی بھی جگہ تعمیر کر دیں گے وہ جگہ محفوظ ہو جائے گی۔ پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام، وہ عمارت جسے ہمارے بزرگوں نے اپنے ایمان کی قوت سے تعمیر کیا، آج پاکستان اس میں محفوظ نہیں ہے۔ محفوظ ہو بھی تو کیسے جب ہم نے عمارت خود اپنے ہاتھوں سے گرائی ہو۔ اسلام ہی تھا نا ہمارا مقصدِ حیات اور مقصدِ آزادی۔ کہاں گیا مقصد؟
یہاں جو سچ بولتا ہے اسے قید اور جو جھوٹ بولتا ہے اسے حکومت سونپ دی جاتی ہے۔ چوری, ڈکیتی, لوٹ مار, قتل و غارت جیسی وارداتیں عام ہیں۔ کسی کو جانی, مالی اور سماجی تحفظ حاصل نہیں۔ زکٰوۃ کی بجائے سود کا نظام ہے۔ سیاسی و مذہبی رہنما اپنے مفادات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ فرقہ واریت عروج پر ہے۔ عمارت کو تو ہم نے پوری طرح ڈھا دیا ہے۔ اب باہر سے جس کا دل کرتا ہے وہ ہم پر حملہ کرتا ہے۔ جان بچانے کے لیے محض “جی حضور” ہی بچتا ہے۔ لیکن اگر یہی “جی حضور” ہم اسلام کے ہر حکم پر کرتے تو دنیا پر راج کر سکتے تھے۔
اب ہم دوبارہ پہلے پہلو “پاکستان اسلام کا قلعہ” ہے کو بھی مثبت انداز سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللّٰہ پاک نے اپنے دین اسلام کو تا قیامت قائم رکھنے کے لیے یہ ذمہ داری اپنے کچھ خاص بندوں کو سونپ دی جن میں کبھی ہماری قوم بھی شامل تھی۔ جس پر پھر رحمتِ خداوندی ہوئی اور ہمیں پاکستان سے نوازا گیا۔ سمجھا جائے تو اسلام کی حفاظت کے لیے پاکستان ہمیں قلعہ کے طور پر نوازا گیا۔ ذمہ داری نبھانے کے اصول بھی خود اسلام نے بتائے۔ مگر جیسے ہی ہم نے اس ذمہ داری سے ہاتھ چھڑایا، اللّٰہ پاک نے ہماری جگہ اپنے کچھ اور خاص نائب مقرر فرما دیے۔ ہم سے رحمت جاتی رہی اور غلامی ہمارا مقدر بن گئی۔
دونوں پہلوؤں پر مباحثہ کرنے سے اندازہ ہوا کہ دونوں پہلو ہی اپنی جگہ درست ہیں۔ یعنی “پاکستان اسلام کا قلعہ” ہے اور “اسلام پاکستان کا قلعہ” ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے مثبت کردار سے ان جملوں میں حقیقت کا رنگ بھرا جائے۔ ہر پاکستانی انفرادی و اجتماعی طور پر اپنا اپنا فرض ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور اسلام کو اپنی زندگیوں میں لاگو کرے تاکہ ہم حقیقی معنوں میں “پاکستان کو اسلام کا قلعہ” اور “اسلام کو پاکستان کا قلعہ” ثابت کر سکیں۔ یہی طرزِ زندگی ہمارا مقصدِ آزادی ہے اور اسی میں ہر طرح کی غلامی سے نجات ہے۔ اور یہی ہماری ملکی ترقی و خوشحالی کا ضامن بھی ہے۔
اللّٰہ پاک ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی ہدایت عطا فرمائے اور ہمارے ملک کو ترقی کی راہوں سے ہمکنار کرے۔ آمین ثم آمین!
پاکستان زندہ باد۔۔۔
پاکستان پائندہ باد۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں