تعلیم کا حق کب ادا ہو گا ۔۔۔ تحریر : ارم غلام نبی

ہماری ایجوکیشن میں ہمیں محنت کرنا ، خواب دیکھنا اور دن رات کالے صفحات کو رٹا مارنا تو بہت اچھے سے سکھایا جاتا ہے۔ مگر کوئی یہ کیوں نہیں بتاتا کہ اس محنت کے ساتھ اپنے خوابوں کو تکمیل دینے کے اس سفر میں رب کو بھی منانا پڑتا ہے۔اپنےاللہ سے بھی تعلق مضبوط کرنا پڑتا ہے۔
تب ہی خواب پورے ہو گے اور تمہارے محنت رنگ لائے گی جب اللہ مل جائے گا۔
خدا کیسے ملے گا؟ یہ تو بتایا ہی نہیں جاتا اور ہم پر اصل کامیابی کا راز تو کھولا ہی نہیں جاتا۔
صبر کیا ہوتا ہے؟ کیسے کرنا ہے؟ یہ تو سکھایا ہی نہیں جاتا۔
اب آپ کہے گے ” صبر کیوں سکھایا جائے؟” اس کا تو نظامِ تعلیم کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہی غلطی ہم کر رہے ہیں۔ہم اپنے نظامِ تعلیم کو اسلام سے بہت دور سمجھتے ہیں مگر یہاں قدم قدم پر ہمیں اسلام ملے گا۔ ان سب کا بلکہ ہماری زندگی کا اسلام سے بہت گہرا تعلق ہے۔ بحثیت مسلمان ہم یہ تو جانتے ہیں نا کہ اللہ کی رضا کے بغیر کچھ ممکن نہیں۔۔۔ تو اُس کو راضی کیے بغیر تمہارے وہ خواب کیسے پورے ہو گے جن کی جستجو میں نہ تمہیں دن کا خیال ہے اور نہ رات کا؟؟؟
ایک طرف تمہاری دن رات کی محنت تمہیں اپنے رب سے دور کرتی ہے تو دوسری طرف اللہ تمہارے خوابوں کو توڑ کر تمہیں اپنی طرف واپس لے آتے ہیں۔ پھر جا کر عقل آتی ہے کہ ہمارا انتخاب تو غلط تھا، ہم ناکامی کی دلدل میں پھنسے اور پھنستے جا رہے تھے۔

“تعلیم شعور دیتی ہیں اور شعور علم سے آتا ہے۔ یہ علم کتابوں کو رٹا لگانے سے نہیں بلکہ سمجھنے اور غورو فکر کرنے سے آتا ہے۔”

اور جسے شعور آجاتا ہے نا؟؟؟ اسے زندگی کی حقیقتوں کا پتا چل جاتا ہے۔پھر اسے علم ہو جاتا ہے کہ رب کو منائے بغیر کچھ نہیں ملنا۔
اگر یہ بات پہلے ہی بتا دی جائے تو خواب ٹوٹنے کا درد کبھی محسوس نہ کرنا پڑے۔۔۔۔ اگر صبر سیکھا دیا جائے تو وہی خواب کبھی سسکیاں بن کر باقی نہ رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب کچھ ہمیں خود ہی کیوں سیکھنا پڑتا ہے؟ کوئی اس حقیقت سے آشنا کیوں نہیں کرواتا؟

کوئی ٹیچر یا استاد یہ سبق کیوں نہیں دیتا کہ رب کی طرف لوٹ آؤ؟؟؟؟ اگر ایسا کرو گے تو خواب بھی پورے ہو گے اور رب بھی راضی ملے گا ورنہ کچھ نہیں ملنا۔

ان چیزوں کو ہمارا نظامِ تعلیم ایکسٹرا انفارمیشن کا ٹیگ کیوں لگا دیتا ہے؟؟؟؟

اسلامیات کی کتاب میں موجود سورتوں کو بھی یہ کہہ کر رٹا لگوا دیا جاتا ہے کہ یہ چند آیات پیپر میں آئے گی ان کو یاد کر لے۔۔۔۔۔
ان پر غوروفکر کرنے کا تو کسی نے کہا ہی نہیں۔ ان کو سمجھایا تو گیا ہی نہیں۔
میں نے میٹرک کے سلیبس میں موجود سورت انفال اور سورت احزاب کی ایک ایک آیت کا ترجمہ با معنی یاد کیا تھا بلکہ میں نے اسے رٹا لگایا ہوا تھا۔ پیپر میں نویں اور دسویں دونوں کے نمبرز ملا کر ٹوٹل 100 تھے۔ میرے 100 میں سے 100 نمبرز ہیں مگر افسوس مجھے کسی نے نہیں بتایا “بیٹا ان آیات کا ترجمہ یاد کر لیا ہے تو اب بھولنا مت اور ان پر غوروفکر بھی کرنا ، اللہ کیا کہہ رہے ہیں اس کو سمجھنے کی کوشش میں رہنا۔ مجھے کسی نے نہیں بتایا کہ اس قرآن میں ہمارے بہت سے سوالوں کے جواب موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے کسی نے نہیں بتایا تھا بلکہ آج تک کوئی نہیں بتا رہا۔سبھی نمبرز کی دوڑ میں شامل کرتے جا رہے ہیں۔
وہ سورتیں اور آیات سلیبس میں اس لیے شامل کی گئی تھی کہ ہم انہیں سمجھے ، یاد کریں ، غوروفکر کریں اور اپنے رب کی طرف پلٹے مگر ہمیں تو نمبرز لینے کے لیے پڑھایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
ہمیں نمبرز کی دوڑ میں شامل کر کے ، ہم سے ہمارے اصل کو جدا کر دیا جاتا ہے۔ یہ نہیں بتایا جاتا یہ ڈگریاں کچھ کام نہیں آتی۔۔۔۔۔۔ہمیں ہماری اصل کی طرف لوٹنا ہی پڑتا ہے ، کم نمبر لے کر بھی اور ٹاپ کر کے بھی۔
مگر افسوس میرے ملک کے تعلیمی اداروں کو اس چیز سے کوئی غرض نہیں ۔انہیں تو نمبرز چاہیے جو ان کے ادارے کے معیار کو تقویت بخشیں گے۔جو ان کے بزنس کو پروان چڑھائے گے۔ طالب علم کے ساتھ کیا ہوتا ہے ؟ اس کی زندگی کے کتنے قیمتی سال برباد ہوتے ہیں ؟ اس سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔۔۔
کیوں؟
آخر کیوں؟ ہم نظامِ تعلیم کو بہتر کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ مسلمان ہو کر بھی ہم اسلام سے بہت دور ہیں۔
کیوں ہماری تعلیم نے عورتوں کے سروں سے ڈوبٹا تک چھین لیا ہے؟
ہم اس قدر تعلیم یافتہ ہیں کہ ہمیں سر پر ڈوبٹا نہ اوڑھنے والی لڑکیاں ماڈرن لگتی ہیں۔ ہمیں جہالت اور ماڈرنزم میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں