آرمی میوزیم کا یادگار منظر ۔۔۔ تحریر : ارم غلام نبی

لاہور آرمی میوزیم میں ہم war of1965 والے ہال میں داخل ہوئے۔ جہاں پر 1965ء کی جنگ کے حوالے سے معلومات موجود تھی۔ دیواروں پر درج ہمارے بہادر اور جانباز شہدوں کے نام دیکھ کر بہت فخر محسوس ہوا کہ 1965ء کی جنگ میں بھارتی افواج کو انہی بہادروں کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس ہال میں ایک جیپ بھی کھڑی تھی جس پر لکھا ہوا تھا کہ 7 اور 8 ستمبر کی درمیانی شب پاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے حملوں پر جوابی حملے کیے اور یہ حملے اتنی شدت سے کیے گیے کہ بھارت کے کچھ فوجی میدان چھوڑ کربھاگ گئے اورکچھ بھارتی فوجیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔اس دوران بھارت کی یہ ولیز جیپ (willy’s Jeep)قبضہ میں لی گئی اور دو بھارتی فوجیوں کو بھی جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ اس کے علاوہ اس ہال میں ایک جانب ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں صرف وہی لوگ جا رہے تھے جن کے پاس ٹکٹ تھے۔ اس کمرے کی جانب زیادہ توجہ نہ دیتے ہوئے ، میری نظر سامنے شیشوں میں درج 1965ء کے بہادر شہیدوں کی حالاتِ زندگی پر پڑی تو میرا تجسس اور بڑھ گیا۔
” میرے خیال میں وہ لوگ بہت قسمت والے ہوتے ہیں جن کے نام ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔ ”
مجھے ایسے لوگوں کو پڑھنے اور ان کی حالاتِ زندگی جاننے کا اکثر شوق رہا ہے۔ اس لیے میں انہیں پڑھنے لگی مگر افسوس موبائل میں بیٹری نہ ہونے کے باعث میں انہیں ہمیشہ کے لیے قید نہ کر پائی۔ میں ایک جانب کھڑی شہیدوں کے نام پڑھ ہی رہی تھی کہ اچانک مجھے اُس کمرے میں جانے کی دعوت دی گئی جو میری توجہ کا مرکز بنتے بنتے رہ گیا تھا۔ اور میں نے یہ دعوت خوشی خوشی قبول کر لی۔
اب تجسس اس بات کا تھا کہ “وہاں ایسا کیا ہے؟”
جس وجہ سے اس کمرے کو “war of 1965” ہال میں ایک الگ مقام حاصل تھا۔
جب ہم اندر داخل ہوئے تو کمرے میں بالکل اندھیرا تھا۔ اندھیرا دیکھ کر اس کے خاص ہونے کے چند اثار عیاں ہو رہے تھے کہ یہاں تاریخی اور بہت دلکش منظر قید ہے۔
ایک فوجی نے ہمیں بتایا کہ یہاں آپ کو 1965ء کی جنگ میں ریکارڈ کی گئی آوازیں اور مناظر دیکھنے اور محسوس کرنے کو ملے گے۔ یہ الفاظ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ یہ سب میرے شوق سے بہت مطابقت رکھتا تھا۔
اب میں سوچنے لگی کہ کیسے اس منظر کو اپنے اندر قید کیا جائے؟
“تو مجھے اپنا ہی فلسفہ یاد آ گیا کہ چیزوں کو محسوس کیا جائے تو نتیجہ عام سے زیادہ بہترین نکلتا ہے ”
سو میں نے اس منظر کو اپنے اندر قید کرنے کے لیے سوچا کہ میں خود کو 1965ء میں کنسیڈر(فرض) کرو گی۔
اور کچھ ہی دیر میں کمرے کا دروازہ بند کردیا گیا اور 1965ء کی جنگ کے اعلانات ہونے لگے بلکل وہی آوازیں تھی۔اس کے بعد اچانک ایک دم سے ٹینک اورتوپیں چلنے کی آوازیں آنے لگی اور ساتھ ہی زمین بھی ہلنے لگی۔ بہت خوفناک منظر تھا۔
اب آپ لوگ یہ سوچ رہے ہو گے کہ زمین کیسے ہل سکتی ہے تو آپ کو بتاتی چلو کہ یہ مصنوعی طریقے سیٹ اپ کی گئی تھی۔ مگر وہ آوازیں بلکل حقیقی تھی ، یہ دل دہلا دینے والی آوازیں 1965ء کی شب ریکارڈ کی گئی تھی۔

یہ خوفناک منظر تھا مگر ہم اس کو 1965ء محسوس نہیں کر سکتے تھے۔ جب 1965ء میں بھارتی فوج نے اچانک حملہ کیا ہو گا تو اچانک جنگ کے اعلانات اور توپوں کی آوازوں نے معصوم بچوں اور بوڑھوں پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہوگا۔
لیکن یہ سب ایک سے دو منٹ کے لیے تھا ۔ اس کے بعد کمرے کا دروازہ کھول دیا گیا اورہم باہر آگئے۔ باہر آنے کے بعد کچھ لمحہ کے لیے میں 1965ء میں شہید ہونے والوں کے بارے میں سوچتی رہی۔ ملک کی خاطر اپنی جان قربان کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ انسان کو اپنی جان بہت پیاری ہوتی ہے۔ مگر پھر میں زیادہ وقت ضائع نہ کرتے ہوئے دوسروں تاریخی مناظر کو دیکھنے کے لیے متوجہ ہوئی۔کیونکہ ہم نے کہیں اور بھی جانا تھا تو میں نے جلدی میں ہر چیز کو قید کرنا تھا۔
مجھے یہ منظر ہمیشہ رہے گا اور میرے خیال میں یہ آرمی میوزیم کا بہت دلکش اور خوبصورت منظر ہے۔ اگر میرا لاہور آرمی میوزیم میں دوبارہ جانا ہوا تو ان شاء اللّٰہ میں پھر سے “1965ء کی جنگ” کی یاد تازہ کرنے اس خوفناک کمرے میں ضرور جاؤں گی۔
اور ان شاء اللہ جلد پورے آرمی میوزیم کی سیر پر کالم لکھوں گی تب تک کے لیے اللہ حافظ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں