پاکستان کا موجودہ تعلیمی و امتحانی نظام ۔۔۔ تحریر : عکاشہ اصغر (سیالکوٹ)

یہ ایک ناقابلِ فراموش حقیقت ہے کہ کسی شخص، کسی قوم، کسی معاشرے، کسی ملک یا ریاست کی کامیابی وکامرانی کا دارو مدار تعلیم پر ہے ۔تعلیم ہی سے شور اور شعور میں تمیز کرسکتے ہیں۔علم کے ہونے سے جہاں بات شعور نما معلوم ہوتی ہے وہی کم علمی، کم رسائی یا لا علمی میں بات میں کوئی وزن نہیں رہتا صرف شور رہ جاتا ہے ۔تعلیم انسان کی روح کی غذا ہے ۔تعلیم تحقیق اور عمیق مطالعے کا دوسرا نام جو انسان میں کچھ نیا کھوجنے پرکھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے ۔جہاں تعلیم ضروری وہی پر تعلیم کو پرکھنے کے لیے میرٹ پر مشتمل امتحانی نظام ہوتا ہے ۔ ہم اپنے عظیم محققین، اکابرین، معلمین کی بات کریں تو وہ مشاہدات میں آزاد خیالات رکھتے تھے۔ انکی نظر میرٹ قابلیت اور ہنر مندی کا دوسرا نام تھا ۔
لیکن صد افسوس ہمارا موجودہ تعلیمی نظام نمبروں کی گیم پر محیط ہو کر رہ گیا ہے۔ نمبروں کی دوڑ میں تصورات اور تخیلات کو پروان چڑھانے کے بجائے رٹا سسٹم،سفارشات، رشوت پروان چڑھ رہی ہیں ۔
افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ہمارے طلباء بورڈ میں پورے پورے نمبر حاصل کرلینے کے باوجود عملی طور پر ناکارہ ہیں. ایجادات، تحقیقات میں خود کو منوانے میں ناکام ہیں۔ موجودہ 2022 کے سی ایس کے تحریری امتحان کی بات کی جائے تو 20262 طلباء نے حصہ لیا جس میں 393 طلباء نے کامیابی حاصل کی ۔جس کی شرح صرف1.85 فی صد رہی ۔

ہمارے پیارے ملک پاکستان کے عروج و زوال کا کا فیصلہ نوجوان نسل نو کے ہاتھوں میں ہے ۔اگر ہم اپنی نسل کی تعلیم و تربیت نیک نیتی، خلوص اور اسلامی اصولوں کے عین مطابق کریں تو ملک عزیز کامیابی کی راہوں پر گامزن ہوسکتا ہے۔
رٹے کے بجائے تصوراتی، فنی اور مقصدیت پر مبنی تعلیم کو سراہا جائے ملک عزیز میں مثبت انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ چونکہ ہماری ریاست کی بنیاد اسلام پر ہے لہذا ادارے ہی اس کا پرچار کرسکتے ہیں بچوں کو حیا، پاکیزگی اور نفس پر قابو پانے کی صلاحیتیں سیکھا کر ۔
امتحانی سطح پر نقل سازی، سفارشات کو حذف کیا جائے ۔بچوں کو تعلیم کے زریعے ذہنی مریض نہیں بنانا بلکہ آزاد تحقیق کے مواقع میسر کیے جائیں ۔ اس سے تعلیمی و امتحانی نظام میں قابل قدر فرق آسکتا ہے ۔
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

اپنا تبصرہ بھیجیں