سوچوں کے بدلنے سے نکلتا ہے نیا دن

رات کی تاریکی میں دوسروں کے اخبارات کے صفحات چوری کرکے جعل سازی سے پی ڈی ایف نیوز پیپرز کیسے تیار کیے جاتے ہیں۔ صحافت کی بدنامی کا سبب بننے والے خود ساختہ صحافیوں کی کرپشن کی کہانی ۔۔۔ تحریر: رشید احمد نعیم

سوچوں کے بدلنے سے نکلتا ہے نیا دن
سورج کے چمکنے کو سویرا نہیں کہتے

تین دوستوں نے جن کی شادی نہیں ہورہی تھی ملک کے بادشاہ کو درخواست پیش کی کہ ان کی شادی کروا دی جائے۔ بادشاہ نے تنیوں کو بلالیا اورکہا کہ”میں تمہاری شادی کروادیتا ہوں لیکن ایک شرط ہوگی تم لوگوں کو ایک آزمائش سے گزرنا پڑے گا۔ جو کامیاب ہوگیا اس کی شادی ایک خوبصورت لڑکی سے کروادی جائے گی اور جو ناکام ہوا اس کی شادی بالترتیب بدصورت اور لڑاکا لڑکی سے ہوگی“انہوں نے شرط منظور کرلی۔انہیں ایک تاریک کمرے میں اکٹھا رکھا گیا۔ جہاں مکمل اندھیرا تھا اور بتایا گیا کہ”یہاں ایک ماہ تک رہنا ہے۔ یہیں سب کچھ کھانا پینا، سونا اور جاگنا ہوگاجبکہ کمرے میں جگہ جگہ پاپڑ رکھے گئے ہیں ان سے بچنا ہے کہ پاؤں کے نیچے نہ آجائے۔ جس کا پاؤں پاپڑ پر آگیا اسکی شادی بدصورت لڑکی سے کردی جائے گی“۔ اب تمام دوست اس آزمائش سے صحیح سلامت گذرنے کیلئے مکمل احتیاط سے رہنے لگے۔ نو دن خیریت سے گزرگئے۔ دسویں دن ایک دوست کا پاؤں پاپڑ پر آگیا۔ فوراً اسے سپاہی کمرے سے نکال کر لے گئے اور اسکی شادی بدصورت لڑکی سے کردی گئی۔اب باقی دو دوست خوش ہوئے کہ اب جگہ کھلی ہو گئی ہے۔ بیسویں دن ایک اور دوست کا پاؤں پاپڑ پر آگیااور سپاہی اسے بھی روتا دھوتا لے گئے۔اب تیسرا اکیلا رہ گیا۔ اس نے باقی دن خیریت سے گزار لیے آزمائش پوری ہونے پر اسکی شادی ایک خوبصورت لڑکی سے کردی گئی اور وہ خوشی خوشی رہنے لگا۔ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا”تمھیں پتہ ہے میں تمھیں حاصل کرنے کیلئے کتنی تکلیف دہ آزمائش سے گزرا ہوں“اور اسکے بعد مکمل تفصیل بتائی۔پھر پوچھا ”اچھا تم بتاؤ، تم نے مجھے حاصل کرنے کیلئے کیا کیا؟”بیوی نے ٹھنڈی سانس بھری اورکہا”ہم بھی تین سہیلیاں ایک کمرے میں بند تھیں۔ پھر ایک دن میرا پاؤں پاپڑ پہ آگیا“۔ایسے ہی حادثاتی طور پر قلم پکڑنے اور صحافت کی حروفِ تہجی سے نا آشناکچھ کاروباری ذہنیت کے حامل افراد میدان صحافت میں کود پڑے ہیں جن کا اخلاقی اقدار سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں بلکہ ان کا سارا انحصار چوری و ڈکیتی پر ہے۔ جی ہاں! ذکر ہو رہا ہے ان اخبار مالکان کا جو اپنے اخبارات چوری شدہ صفحات سے بنا / بنوا رہے ہیں۔ یہ خودساختہ اخبار مالکان اورچیف ایڈیٹرز ڈاکوؤں، چوروں، راہزنوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔چور رات کو چوری کرتے ہیں،ڈاکو دن کو ڈکیتی کرتے ہیں مگر یہ لوگ اس وقت چوری کررہے ہوتے ہیں جب تہجد کا وقت ہوتا ہے۔جو کرپشن مٹانے نکلے تھے وہ خودکرپشن میں ڈوب گئے۔ رات کے اُس پہر جب ربِ کعبہ کی طرف سے منادی ہو رہی ہوتی ہے کہ”ہے کوئی میرا بندہ جو مغفرت کا طلبگار ہو؟“ یہ چور،ڈاکو،راہزن عین اس وقت کسی واٹس ایپ گروپ سے کوئی معیاری اے بی سی پیپر کی پی ڈی ایف فائل اٹھاتے ہیں، اس کا فرنٹ پیج، بیک پیج، بقیہ جات والا پیج، ایڈیٹوریل پیج اور ایڈیشن چوری کرتے ہیں، غیر قانونی و غیر اخلاقی طور پر صحافتی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے جعل سازی سے ان پر اپنے اخبار کی پیشانی لگاتے ہیں اور اپنا ایک پیج (نمائندگان کی نیوز والا پیج) شامل کرکے پی ڈی ایف اخبار تیار کرتے/کراتے ہیں۔اپنے نمائندگان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ان کو ان کی نیوز کی کٹنگ فراہم کردیتے ہیں جس کی وجہ سے نمائندگان کا اس طرف دھیان ہی نہیں جاتا کہ ان کی نیوز پر جس اخبار کی پیشانی لگی ہے وہ اخبار چوری کے صفحات سے تیار کیا گیا ہے چونکہ ان اخبارات کی کوئی ویب سائٹ نہیں ہوتی اس لیے ”رات گئی بات گئی“کے مترادف شام کے بعد نام و نشان ختم ہوجاتاہے اور ان کا یہ”دھندا“جو ہے”بہت گندا“ جاری و ساری رہتا ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ اخبار کے مالکان و ایڈیٹر کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ ان کا اخبار چوری کے صفحات سے بن رہا ہے بلکہ ان کو مکمل علم ہوتا ہے کہ یہ اخبار سوائے نمائندگان کے پیج کے باقی مکمل چوری کے صفحات سے بنا ہے چونکہ ان کا اخبار صرف 5 یا 6 ہزار روپے میں بن رہا ہوتا ہے اس لیے وہ چوری کی بہتی کنگا سے”لطف اندوز“ اور مستفید ہوتے ہیں۔ صرف 5 یا 6 ہزار روپے میں 60 کے قریب نیوز لگ رہی ہوتی ہیں پھر ان کی کٹنگ بھی مل رہی ہو تو ایمانداری و دیانت داری کی کون پرواہ کرے؟یہی وجہ ہے کہ یہ مالکان و چیف ایڈیٹرز سب کچھ جانتے ہوئے بھی چوری کے ارتکاب میں براہ راست شامل ہوتے ہیں
تو اب بتائیں کہ یہ صحافتی اقدار کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے کہ نہیں؟؟؟ کیا ایسا کرنا قابل صد احترام نمائندگان،قارئین اور محکموں کے افسران کی آنکھوں میں دھول جھونکنا نہیں کہلائے گا تو اس کو کیا نام دیا جائے؟؟؟ کسی دوسرے اخبار کی پیشانی تبدیل کرکے ہیرا پھیرا سے اپنے اخبار کی پیشانی لگا کر اخبار بنانا /بنوانا دھوکہ نہیں تو جناب لفظ ”دھوکہ“کے معانی ہی بتا دیں پھر۔حقیقت کو چھپانے اور سچ نہ بولنے کو آپ کیا کہیں گے؟؟؟ ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔تعصب کی عینک اتارئیے اور سچائی کو تسلیم کیجیے کہ آپ صحافتی بدیانتی کا مرتکب ہو رہے ہیں مگر آپ یہ بات کیوں سچ تصور کریں گے کیونکہ آپ نے تو رزق حلال نہ کھانے کی قسم کھا رکھی ہے، چند ٹکوں کی خاطر آپ نے اپنا”ایمان برائے فروخت“ کا بورڈ تولگا ہی رکھا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ صحافت جیسے عظیم شعبے کی بدنامی کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ دوسرے اخبار کے صفحات چوری کرکے یا کروا کر یا یہ علم ہونے کے باوجود کہ یہ اخبار چوری کے صفحات سے بنا ہے پھر بھی خودکو اس چوری کے اخبار کی پیشانی پہ چیف ایڈیٹر، ایڈیٹر، ایڈیٹر انچیف، ریزیڈنٹ ایڈیٹر لکھتے ہو،مگرا س میں آپ کا بھی اتنا قصور نہیں ہے کیوں کہ جس قوم میں فٹ پاتھ پر سانڈے کا تیل نکالنے والے اور کیکر کی گوند کو سلاجیت بنا کر بیچنے والے کو ڈاکٹر اور حکیم کہا جاتا ہو۔جس قوم میں ہاتھ دیکھنے والا اور سڑک پر طوطے سے فال نکالنے والا پروفیسر اور عامل کا بورڈ لگائے بیٹھا ہو۔جس قوم میں پانی کے ٹیکے لگانے والا اپنی کلینک کے ماتھے پر اسپیشلسٹ کا اشتہاری بورڈ لگائے ہوئے ہو۔جس قوم میں خون کی بوتلوں میں نارمل سلائن ملا کر حرام خوری کی جاتی ہو۔۔جس قوم میں ویگو، پراوڈ، جیسی گاڑیوں کو دیکھ کر ووٹ ڈالے جاتے ہوں اور سائیکل والے کو دھتکارا جاتا ہو۔جس قوم کے عوامی نمائندگان جعلی ڈگریاں لے کر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہوں۔جس قوم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری قابلیت کی بجائے سفارش اور رشوت کی بنیاد پر دینے کا رواج ہو۔جس قوم کے فراڈئیے، بہروپیے عالم دین کا ٹائٹل سجائے ہوئے ہوں۔جس قوم کے ملاں عیداورشب برات کے چاند پر ایک دوسرے کی لتریشن کرتے ہوں۔جس قوم میں جوان بیٹیوں والے”غریب بھوکے“ کے گھر کی دیوار کے ساتھ کروڑوں کی مساجد بنائی جاتی ہوں۔جس قوم کی اداکارہ/ ماڈلزدینی مسائل سمجھانے کے لیے ٹی وی پر بٹھا دی جاتی ہوں اور نام نہاد عالم آن لائن لوگوں کے ایمان کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوں۔جس قوم کے دہشت گرد خود کو مجاہدقرار دیتے ہوں۔جس قوم کے حکمران پیسہ لگا کر اقتدار خریدتے ہوں۔جس قوم کے منصف انصاف کے ترازو میں دولت کے وزن کے مطابق انصاف کرتے ہوں۔جس قوم کے تاجر، دکاندار سو فیصد حرام کی کمائی سے حج اور عمرے کرتے ہوں۔جس قوم میں بھوک اور افلاس ناچتے ہوں اور حکمران تماشہ دیکھتے ہوں وہاں آپ جیسے لوگ چوری کا ارتکاب کرکے بھی چیف ایڈیٹر/ ایڈیٹر کہلائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔جب تک آپ جیسے لوگوں کا وجود قائم ہے صحافت بدنام ہوتی رہے گی، صحافت”زرد صحافت“ کہلاتی رہے گی،جہالت راج کرتی رہے گی لیکن یاد رکھیں

سوچوں کے بدلنے سے نکلتا ہے نیا دن،
سورج کے چمکنے کو سویرا نہیں کہتے۔

اللہ سے دعا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے(آمین)

اپنا تبصرہ بھیجیں