اسلامی بلاک بنانے کی طرف پیش رفت

ڈاکٹر شیخ ولی خان
ڈاکٹر شیخ ولی خان

سعودی عرب کی قیادت میں بننے والا اسلامی ملکوں کا عسکری اتحاد بعض حلقوں کا وہ دیرینہ مطالبہ ہے جس کے جانب شاہ سلمان بن عبد العزیز نے گذشتہ دنوں ایک جرأتمندانہ اور دانشمندانہ قدم اٹھایا ہے،افغانستان پر روسی جارحیت سے پورےعالم اسلام کا جغرافیائی نقشہ لرزنے لگاتھا،چنانچہ تمام اسلامی ممالک نے ملکر اور اپنے دیگر دوستوں کو ملاکر اس مشکل کاانتہائی مردانہ وار مقابلہ کیاتھا،جس میں اموال،املاک اور جانوں کے وہ نذرانے پیش کئے گئے،جسکی مثال ملنا دنیا کی تاریخ میں مشکل ہے،وہ صحیح معنوں میں جہاد تھا،اس میں شریک ہونے والے بھی حقیقی مجاہدین تھے،اسی لئے اس کی برکت سے دشمن (سوویت یونین) نیست ونابود ہوگیا،اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سےمٹھی بھر مجاہدین کو فتحِ مبین نصیب فرمائی،وہ بہت سے وسط ایشیائی اسلامی ممالک جوعرصے سے روسی استبداد واستعمار کے پنجے میں تھے،آزاد ہوگئے،کچھ کو اندرونی خودمختاری ملی،اب ہوایہ کہ وہ امریکہ ومغرب جو خود بھی زمینی میدانوں میں روسی افواج کے مقابلے سے لرزہ براندام تھے،اسلامی بیداری اور جہاد سے خوف کھانے لگے،چیچن مجاہدین بالخصوص جوہر داؤدیف جنہوں نے سرخ ریچھ کو ناکوں چننے چبوائے تھے،ان کی پیٹھ میں چھرا امریکہ نے ہی گھونپاتھا،افغان مجاہدین کو بھی آپس میں لڑوایا،اپنی من مانی کی حکومت وہاں قائم کرنے کی کوششیں کیں،پھر پتہ نہیں کیا ہوا،کیسے ہوا،وہ آگ جو افغانستان میں جل رہی تھی،اس کے شعلے اچانک امریکہ میں بھڑکنے لگے،اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،اپنے فرنٹ لائن کےاُن افغان مجاہدین پر پل پڑے، جنہوں نے انہیں سرخ ریچھ کے خوف سے آزاد کرایاتھا، شاید ان کا خیال تھا وہ ریچھ مرگیا ہے،جبکہ حقیقت میں وہ صرف زخمی اور بھوکاہوچکا تھا،اس کے زندہ اور دوبارہ روبصحت ہونے کو اس وقت محسوس کیاگیا،جب اس نےپہلی بار جارجیا پھر یوکرائن اور گویا کل ہی کی بات ہے،جب اس نےشام میں مار دھاڑ شروع کی،یوکرائن میں اس کی خونخواری دیکھ کر مغربی طاقتوں کو اندازہ ہو گیاتھا کہ پوتن کی شکل میں اس ریچھ کی جان میں نئی اور انتقامی جان آگئی ہے،انہوں نے خوف کے مارےخود اس کا مقابلہ کرنا مناسب نہیں سمجھا،اب پتہ نہیں داعش خود پیدا ہوئی یا کسی نے تیار کی،جو بھی ہوا،پرمیدانی مقابلے کے لئے شام اور اسلامی لڑاکا لوگوں کا انتخاب کیاگیا، سرخ ریچھ کو وہاں گھسیٹ کر لایاگیا یاوہاں آنے پر مجبور کیاگیا،اب اس ریچھ کی دم وہاں پھنسی ہوئی نظر آرہی ہے’’نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘ کی صورت حال سے یہ ریچھ اس وقت دوچار ہے،کیونکہ روس دنیا میں خونخواری میں جو نمبرون تھا داعش کے سامنے وہ نمبر ٹو پر آگیا ہے،دنیا مان چکی ہے کہ پہلا نمبر اس حوالے سے داعش کا ہی ہے،ان کی نظر میں القاعدہ کے لوگ اگر غُلاۃ(غلوّ کرنے والے)تھے،تویہ داعش والے غُلاۃ الغُلاۃ ہیں۔

اِدھروہ مجاہدین جن کی بیخ کنی کے لئے امریکہ ونیٹو لاؤ ولشکر کے ساتھ آئے تھے،سچی بات یہ ہے کہ وہ مجاہدین آج غالب اور یہ حملہ آور طاقتیں مغلوب و شکست خوردہ ہیں،نکلنے کی راہیں ڈھونڈ رہی ہیں،مودی کی اچانک پاکستان آمد اسی لئے ہے کہ انہیں بتایا گیا،پاکستان کو اِن دنوں نہ چھیڑو،آپ کوسلامتی کونسل میں سیٹ اور ہمیں یہاں سے نکلنے کا راستہ درکارہیں،جس کی چابیاں پاکستان کے پاس ہیں،ورنہ مودی جیسا احمد آباد کا مجرم کبھی بھی مسلمانوں یا پاکستان کا دوست نہیں ہوسکتا۔

اُدھرشام کے اس اکھاڑے کے ساتھ ساتھ یمن میں بھی ایک اوراکھاڑا تیار کیاگیا،منتخب حکومت کا تختہ اُلٹایا گیا،خلیج جو عالم اسلام کا قلب ہے اس کے تمام ممالک کو سنگین خطرات کا سامناہوا،حرمین شریفین حوثیوں کے نشانے پر آگئے،اس شر انگیزی کا راستہ روکنے کے لئے سعودی عرب نے دس عرب ملکوں کا اتحاد بناکر یمن میں اس کی فوجیں اُتاردیں،کافی حد تک شر پسندوں کو کنٹرول کرلیاگیا،مزید کام تندہی سے جاری ہے،لیکن شام،لبنان،عراق، مصر اور لیبیا میں کچھ حکومتوں(بشاری رجیم)اور بے لگام لڑاکا قوتوں نے خون کی لکیریں جو کھینچی تھیں،وہاں انہوں نے خون کی ندیاں بہانی شروع کیں،اب شاہ سلمان اور سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان آل سعود نے ان تمام خطرات اور مشکلات کے سامنے 34اسلامی ملکوں پر مشتمل ایک عسکری اتحاد کا اعلان کردیا،جو لڑاکا گروپوں اور ملکوں وحکومتوں کی دہشت گردی کا سد باب کرےگا،اسلام کے نام پر خود ساختہ گروپوں کے نظریات کا ابلاغی توڑ بھی اس اتحاد کے بڑے اہداف میں سے ہے،جہاد کے حوالے سے باقاعدہ تسلیم شدہ متفقہ فتویٰ کے بغیرسویلین نوجوانوں کو ’’مناصحہ‘‘ پروگرام کے ذریعے شرکت سے روکا جائے گا۔

جب سےترکی کے اتا ترک نے عالم اسلام کے بوجھ کو الغائے خلافت کے ذریعے اپنے کندھوں سے اتاراتھا، اس کے بعد سے عالم اسلام کی مرجعیت ومرکزیت بہت متأثر ہوئی تھی، ایرانی انقلاب سے شروع میں سمجھا جارہاتھا کہ اس کمی کی تلافی ہوجائیگی، مگر بعد میں یہ واضح ہواکہ وہ ایک فرقے کی نمائندگی کرر ہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا،سب کو لے کر چلنا چاہیئے تھا،پر ایسا نہیں ہوا،اس لئے وہ خلا باقی تھا،اب سعودی عرب نےاس بارِ گراں کواپنے کندھوں پےعملی طورپر اٹھایا ہے،اپنی حیثیت کی وجہ سےسعودی عرب کو یہ بوجھ بہت پہلے ہی اٹھانا چاہیئے تھا،چلیں دیر آید درست آید۔

کہتے ہیں ایران اس اتحاد میں شامل نہیں ہے،یہ باتیں بہت ہورہی ہیں،لیکن ہماری معلومات کے مطابق الجزائر کے توسط سے کچھ ہی دنوں میں ایران سعودی عرب مذاکرات ہونے جارہے ہیں،ایران نے شام وعراق اور دیگر عرب ملکوں میں مداخلت سے باز رہنے کا عندیہ دیا ہے،پُرامن بقائے باہمی ہی ان مسائل کا حل ہے، سب کی سمجھ میں یہ بات اب آگئی ہے،گویاایک دوسرے کو فتح کرنے کے بجائے سب اس اتحاد میں آرہے ہیں۔

یہ معروضی حالات بھی ہیں اوراسلام بھی دنیا میں نہایت تیزی کے ساتھ پھیل رہاہے،اس لئے اب پوری دنیا نے یہ محسوس کیا کہ دہشت گردی ہو یا تشدد اس کا حل اس میں ہے کہ اسلامی دنیا کو ایک مرکز پر اکھٹا کیاجائے،وہی مرکز مسؤل اور ذمے دار بھی ہو،ورنہ موجودہ حالات میں کس سے بازپرس کی جائے،تمام مسلمانوں سے لڑنا بھی مناسب نہیں،امریکی صدارتی امیدوارٹرمپ کی طرح سب کو دہشت گرد ٹہرانا بھی نا معقول ہے،پھر جوبڑے ممالک اسلام اور مسلمانوں سے خائف ہیں،ان کی اپنی سوسائٹیز میں اہل اسلام کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہواہے اور روز افزوں ہے،اس لئے شاید یہ عسکری اتحاد مستقبل میں عالم اسلام کی وحدت کا ضامن ہو،اللہ کرے ایسا ہی ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں