کیا رسول پاک ﷺکا درس یہی ہے

image

رسالتماب ﷺ نے جب دعو ت توحید کا اعلان فرما یاتو سب سے پہلے اپنے اہل وعیال کو جمع فرمایا اور خاندان بنوقریش سے مخاطب ہوئے اے اہل قریش اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونا چا ہتا ہے تو کیا تم مان لو گے سب نے کہاکہ لات وعزیٰٰ کی قسم ہم تصدیق کرنے کے بجائے مقابلہ کرنے کیلئے نکلیں گے اس کے بعد سرورکون ومکان ﷺ نے فرمایا للہ ایک ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں وہ لم یلد ولم یولد وہ احد واحد اور صمد ہے اس کے سوا کوئی عباد ت کے لائق نہیں میں اس وحدہ لاشریک کا آخری رسول ﷺ ہوں بت پرستی اور کفروشرک چھوڑ دو اللہ کو ایک مان لو اس کی وحدانیت اور میری رسالت کا اقرار کرلو یہی نجات اور بھلائی کا راستہ ہے ۔ آپ ﷺ کے اس اعلان کے بعد خاندان بنو قریش کے زعماء پر سکوت چھا گیا ۔ مگر خاندان بنو قریش میں سے اس وقت سب سے کم سن سیددوعالم ﷺ کے چچا زاد علی ابن ابی طالب بیٹھے تھے آپ کھڑے ہوئے اور فرما یا اگرچہ میں کمزور ہوں میر ی ٹانگیں دبلی اور پتلی ہیں مگر میں اس وحدانیت کے مشن میں آپ کے ہمیشہ شانہ بشانہ رہونگاعلی ابن ابی طالب کا جوش اور وارفتگی دیکھ کر اہل قریش ششدر رہ گئے اورانہیں خوف لاحق ہوگیا کہ اب ہماری یہ سرداریاں نہیں بچیں گی تو وہ سب متفق ہو کر بولے ۔ اے محمد ﷺ ہم آپ کو صادق و امین مانتے ہیں ہم آپکے پاس اپنی امانتیں رکھواتے ہیں اورہم نے آپکو آج تک کسی کے ساتھ جھوٹ بولتے یاخیانت کرتے ہوئے نہ دیکھا اور نہ ہی سُنا ۔مگر آپ جوپیغام توحید دے رہے ہیں ہم اس مشن میں آپکا ساتھ نہیں دے سکتے اور ہم اس مشن میں آپ کی مخالف کر یں گے یہ کہہ کر خاندان بنو قریش کے عمائدین رخصت ہو گئے یہ واقعہ عرض کرنے کا مقصد شہنشاہ کون و مکانﷺ کا فرمان کہ جب بھی بھلائی کی بات کروتو ابتداء اپنے گھر سے کرو: بات کچھ یوں ہے نذرونیاز بحضور سرورکونین و مقدس شخصیات کا سلسلہ تو سارا سال ہی جاری رہتا ہے مگر ماہ پُرنور ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی اس میں تیز ی آجاتی ہے چارسو چراغاں روشنیاں اور مسرتوں کا سماں ہوتا ہے مسلم و غیر مسلم اپنے اپنے انداز میں اپنی عقیدتوں کاخراج پیش کرتے ہیں اسی طرح چنددن پہلے محلے کے نوجوانوں نے جشن مولود رسول ﷺ کی خوشی میں چائے کی نیاز پیش کر نے کا اہتمام کیا اور ایک دوسر سے سے آگے بڑھ کر باہمی اشتراک وتعاون سے بھاگ دوڑ میں لگے رہے بڑی ہی عقیدت و محبت کے ساتھ نو جوانوں نے کریم آقا ﷺ کے نام پر چائے کی سبیل لگادی مگر جو نہی سبیل لگ گئی تو اس کے بعد جو ہوا اور اسے بیان کرنے میں اتنے دنوں کا توقف کا مقصد فقط یہی تھا کہ میری نیتِ اصلاح کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنے سب سے پہلے سبیل ایک ایسی جگہ پر لگا ئی گئی جو ایک مصروف گزرگاہ تھی ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے ایک لگژی گاڑی ٹھیک اسی جگہ پر سڑک کے بیچوں بیچ رش کی وجہ سے پھنس چکی تھی ڈرائیورنے ہارن دیا مگرراستہ نہ ملا ۔چارونا چار وہ صاحب گاڑی سے اترے اور نو جوانوں سے راستہ دینے کی اپیل کی مگر نیاز کی تقسیم ہر تکلیف سے بے نیاز نوجوانوں نے راستہ دینے سے انکار کرتے ہوئے بدتمیز ی کا مظاہر ہ کیا ۔میں تھوڑا دور کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا میں حواس پر قابو پاتے ہوئے بڑے بڑے قدم اٹھاتے گاڑی تک پہنچا ابھی میں نے ڈرائیور سے بات کرنے ہی والا تھا کہ اس نے ایک ایسی بات کی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے موصوف ایک پڑے لکھے اور مہذب انسان تھے کسی دوسرے شہر سے کسی عزیز کے ہاں آئے تھے میں نے کہا آیئے آپ کو میں رستہ لیکر دیتا ہوں اور آپ گزرجایئے ابھی میں یہ بات کر بھی نہ پا یاتھا کہ موصوف نے جو بات کی شاید آپ کو وہ بڑی نہ لگے مگر میر ی پاؤں تلے زمین سِرک گئی ۔انہوں ے کہا ۔ کیارسول پاک ﷺ کا درس یہی ہے۔ میں خاموش رہااور گاڑی کی دوسر ی جانب جا کر رست بنا نے لگا اسی اثناء میں نے جب انہیں دوبارہ کہا کہ گز ر جائیے آہ رستہ بن گیا ہے تو ایک بار پھر وہی صداآئی کہ میرے رسول پاک ﷺ کا در س یہی ہے اتنا سُنتے ہی میں تصورات کی دنیا میں چلا گیا اور میرے ذہن میں باربار وہ واقعہ آرہا تھا جب انسانیت کے سب سے بڑے امام مسجد نبوی میں صحابہ کے درمیاں بیٹھے تھے اورا یک اعرابی آیا اور سید الانبیا ﷺ کے گلے میں ڈالی ہوئی چادر اس زور سے کھینچی کہ آپ کے گلے میں نشان پڑ گیا اور بولا کہ اے محمد ﷺ آپ وعدے کے پکے نہیں آپ کا لین دین میں لوگوں سے برتاؤ اچھا نہیں یہ جارحانہ اور گستاخانہ رویہ دیکھنا تھا کہ حضرت عُمرؓ نے تلوار میان سے نکا ل اور کہا کہ میرے آقاﷺ حکم دیں میں اس گستاخ کا تن سر سے جدا کردوں مگر ساری دنیا کیلئے عفوودرگزر کے پیکر نے حضر ت عمر کو روکا اور ان کی سرزنش کی اور فرما یا اے عمرؓ تمھیں چاہئے تو یہ تھا کہ تم اس اعرابی کو حسن اخلاق کا درس دیتے اور مجھے وقت پرادائیگی ء قرض کی تلقین کرتے ۔آپ نے حضرت عمر سے فرمایا کہ فوری اس کی کھجوریں بھی ادا کرواور جو تم نے اس کو ہراساں کیا اس کے جرمانے کے طور پر کچھ زائد کھجوریں دو ۔یہودی نے سارا ماجرا دیکھاکچھ دور گیااور واپس آگیا کہنے لگا میں یہودی مذہب کا عالم ہوں میں نے اپنی کتاب میں پڑھا تھا کہ نبی آخرالزمان ﷺ کا نزول اولاد ابراہیم سے ہوگا اور اس کا حِلم اس قدر وسیع ہو گا کہ وہ اپنے سخت سے سخت دشمن سے بھی معافی صلہ رحمی درگزر کا برتاؤ کریگا میں نے اس خاتم النبین ﷺ کی حیات طیبہ کا مختلف پہلو ؤں سے مطا لعہ کیا اور آپ میں ان تمام نشانیوں کی موجودگی پائی ایک آخری نشانی رہتی تھی جس کا عملی مظاہر ہ دیکھنے کیلئے میں نے آپ کے ساتھ ایک معاہد ہ کیا اور پھر وقت سے پہلے واپسی کا تقاضا بھی کردیا اور تقاضا بھی ایسی سختی سے کیا کہ میں آپ کے حلم اور درگزر کو دیکھ سکوں پس میں نے اپنی تحقیق میں آپ ﷺ کی ذات مبارکہ ہی کو خا تم النبین ﷺ پا یا میں ایمان لاتا ہوں کہ اللہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ کے آخری رسول ہیں کریم آقا ﷺ نے اس کو سینے سے لگا یا اور ایمان کی دولت سے مالا مال کردیا میں انہی خیالوں میں گم تھا کہ گاڑی جا چکی تھی میر ادل چاہ رہا تھا کہ میں اس بزرگ کے آگے ہاتھ باند ھ کر کہتا میرے آقا و مولا ﷺ کادرس یہ نہیں یہ اُن پیشہ ور مُلاؤں کا درس ہے جو حجر ہ شاہ مقیم کے نواحی گاؤں 3/Dمیں 13 جنوری کو دیکھنے میں آیا جب ایک محفل میلاد میں غلطی سے نوجوان نے ہاتھ بلند کیا تو مولانا نے کہا تو گُستاخ ہے نو جوان گھر گیا چارہ کاٹنے والی مشین سے ہاتھ کاٹا اور پلیٹ میں رکھ کر مولانا کے آگے پیش کر دیا اور کہا کہ مولانا میں گُستاخ نہیں ہوں یقین مانئے جب میں نے یہ خبر پڑھی اور اس کے بوڑھے باپ کوغم والم کی تصویر بنے ہو ئے دیکھا تو میر ی روح کانپ اُٹھی کہ گستاخ یہ مولانا ہے یا وہ نو جوان جس کا ہا تھ غلطی سے بلند ہوا اور پھر وہ ہاتھ اس کے وجود کا حصہ نہ رہا میں ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبو رہو گیا کہ کیا میرے رسول پاک کا درس یہی ہے یہ جا ہل ملائیت کبھی تحفظ ناموس رسالت ﷺ کبھی تحفظ ناموس صحابہؓ کبھی تحفظ ناموس صحابہؓ کے نام پر کُنتم خیر اُمتہ : کے بکھیڑے اتارتی رہیگی آج ہم تباہی وبربادی کے اس دہانے پر پہنچ چُکے ہیں کہ ہم ان مقد س ہستیوں کو بھی متنازعہ بنا دیا جو ایثاروقربانی کا پیکر تھیں آ ج شُہدائے کربلا کے ماننے والوں نے پیغام کربلا سے مُنہ موڑ لیا آج ناموس صحابہ کیلئے کٹ مرنے والوں نے سیرت صحابہ کو فراموش کر دیا آج عشق رسول ﷺ کے نعرے لگانے والے یہ بھول گئے کہ میرے آقا ﷺ نے تو ابو سفیان کیلئے بھی دروازے کھول دیئے تھے حبیب خدا ﷺ نے تو امیر حمزہ کے قاتل کو بھی معاف کر دیا آج جاہل ملائیت یہ کیوں نہیں بتا تی کہ کربلا کے تپتے نخلستان پر شہزادہ کونین اپنا ساراخاندا ن لٹا کر بھی کہہ رہا تھا کہ آجاؤ اب بھی وقت ہے میں تمہیں معاف کردونگا روز قیامت تمھاری شفاعت کی ضمانت دیتا ہوں ۔آج پیسے کا پُجاری مُلا یہ کیوں نہیں کہتا کہ بلا ل حبشی اورابوبکر صدیق نے فتح مکہ سے پہلے مظا لم کرنے والوں سے بدلہ نہیں لیا تھا ۔ ہم یہ بھول گئے آج ہم فرقوں میں بٹ گئے ہم نے دین اور قرآن و سنت کو چھوڑ دیا ہم مُلاؤں کو پیچھے لگ گئے اور پھر خوب تگنی کا ناچ نا چے اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹے انتہا پسند ی اور دہشتگردی کا خطاب پا یا آج رحمت اللعا لمین کی امُت پر وہ وقت آگیا کہ ہاتھ کا ٹ کر طشت میں رکھ کر مُلاؤں کے سامنے پیش کئے جارہے ہیں ہم سب خاموش ہیں اور ہمیں خاموش ہی رہنا چاہئے ہم تب ہی بو لیں گے جب یہ آگ ہمارے گھر تک پہنچے گی اور اس کا شکار کوئی ہمارا اپنا ہو گا ۔اقبال نے سچ کہا تھا ۔

اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کیلئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

اپنا تبصرہ بھیجیں