کواچلا ہنس کی چال

image

ایک وقت ہوتا تھا کہ شوہرکونام لے کر مخاطب کرنا گستاخی تصور کیا جاتا تھا 80 ء کی دہائی تک بیوی اپنے شوہرکو بلانے کیلئے ، بِلو کے ابا ، کہہ کر ہی پکارتی تھی ۔بچیوں کو بھی تمیز سکھائی جاتی تھی کہ شوہرسمیت کسی غیرمحرم مردکو بھی نام لیکر مخاطب نہیں کرنا ۔خاوندکے علاوہ دیگر افراد سے گھونگٹ کیا جاتا تھا خاندانوں میں یہ سب سے بڑی بدتمیزی سمجھی جاتی کہ بیوی بغیر دوپٹہ لئے شوہر کے سامنے آجائے۔خاندانوں کی ان پرانی مشرقی روایتوں میں ایک عجیب طرز کی اپنائیت تھی شرم و حیاء جھجک تھی مگر جوں جوں شرم و حیا ء کے حجاب ہم سے اٹھتے گئے سکون اور چین بھی ہم سے رخصت ہوتے گئے اگردیکھا جائے تو اس دور میں میاں بیو ی کے درمیان تنازعات سمیت گھروں کے ٹوٹنے کی شرح بھی انتہائی کم تھی ۔مگر آج 2016 ء میں حکومت پاکستان نے حقوق نسواں بل پاس کر دیا جو خاندانوں کے بکھر ے ہوئے شیرازوں کو مزید بکھیردے گا اس آرڈیننس کے مطابق اگر شوہر کی عورت کے ساتھ تلخ کلامی ہوجائے تو عورت تھانہ میں رپورٹ کروا کے مخصو ص مدت کیلئے شوہر کا گھر میں داخلہ ممنوع کرواسکے گی ۔اس قانون کا پہلا بھیانک ردعمل گزشتہ دنوں لڈن کے علاقہ میں نظر آیا جہاں میاں بیو ی کے درمیاں کسی بات پرتنازعہ پیدا ہو ا اہلیہ نے تھانہ میں رپورٹ درج کروائی اور دلہے میاں سلاخوں کے پیچھے چلے گئے اور اگلے روزضمانت پر رہا ہوکر گھر پہنچے گھر پہنچتے ہی اہلیہ محترمہ کو طلاق کی صورت میں رخصتی کر پروانہ تھما یا اور چلتا کیا ۔ چونکہ یہ شادی وٹہ سٹہ کی تھی تو اس کے نتیجے میں شوہر کی بہن کو اس کی اہلیہ کے بھائی نے گھر کی راہ دکھائی یوں دو ہنستے بستے گھر ہماری غلامانہ ذہنیت اور مغرب نوازی کی بھینٹ چڑ ھ گئے ۔پتا نہیں میاں صاحب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لبرل اور سیکولر نظام نافذ کرنے کے کیوں درپے ہیں حالانکہ ہمارامشرقی خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات میں عائلی زندگی کو انتہائی اہمیت فضیلت اور عورت کو عزت سے نوازا گیا ۔اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے یہ زندگی کے تمام پہلووں کا احاطہ کر تا ہے دین اسلام تو رشتہ داروں پڑوسیوں اعزاء و اقرباء کے حقو ق کی پاسداری کو بھی یقینی بنا نے کا درس دیتا ہے اسلام تو حقوق العباد کے معاملے میں اس قدر سختی سے حکم دیتا ہے کہ اللہ کے حقوق نماز روزہ حج زکوٰۃ اگر اللہ چاہے گا تو معاف ہوسکتے ہیں مگر حقوق العباد یعنی بندوں کے گھروالوں دوستوں عزیزوں کے حقوق اللہ معاف نہیں کریگا جب تک وہ متاثرین معاف نہ کردیں ۔ہماری تو کتاب مقدس میں پروردگار کاحکم ہے تمہارے والدین ماں یا باپ بڑھاپے تک پہنچ جائیں تو ان کے سامنے اُف تک نہ کہو بلکہ ان کی خدمت کرو جس طرح انہوں نے پیاراور لاڈ کیساتھ تمھیں پالا۔افسو س کے ہمارے مغرب نواز دانشور سیاستدان حکمران آج حقوق نسواں میں رول ماڈل مغرب کو سمجھتے ہوئے میں ہمیں ان کی تقلید سکھا رہے ہیں مگر یہ ضمیر فروش ٹولہ یہ کیوں بھول گیا کہ ہمارے ہاں اولڈ ہومز نہیں ہیں ہم اپنے بوڑھوں کو مرنے کیلئے گھروں سے نہیں نکال دیتے ہمارے یہ نہیں چلتا کہ ساتھ والے فلیٹ میں برسوں رہنے والے کا نام پتا تک معلوم نہ ہو اور جب وہ مر جائے تو تین دن بعد جب بد بو آئے تو پولیس والے آکر دروازہ توڑ کر نعش نکالیں اور پھروہ ڈیڈ باڈی تین دن کیلئے ضروری کاروائی کے بعد گھر لائے بغیر ایمبولینس میں لیجا کر دس بارہ بندے جنازہ پڑھیں اور دفنادیا جائے ۔ سابق وزیر قانون حفیظ پیرزادہ چند ماہ پہلے لندن میں انتقال کر گئے ٹیلی ویژ ن پر جنازہ دکھا یا جا رہا تھا میں سوچ رہا تھا ۔ مو ت تو وہی ہے جو اپنے گھر اپنے پینڈ اور اپنے شہر میں اپنی مٹی پر آئے۔ پیرزادہ جیسا ماہر قانون دان اور جنازہ میں چند درجن لو گ یا ر کس قدر مادہ پرستی کہ ساتھ والے گھر میں رہنے والے پڑوسی کو معلوم نہ ہو کہ کیا شب غم گزری ہے ۔مجھے پیرزادہ کا جنازہ دیکھ کر اپنے شہر اور اپنے دیس میں مرنے والے یاد آگئے جن کے جنازوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اور سینکڑوں آنکھیں اشکبار کئی دن تک مرحوم کی یادوں کا ذکر یار مجھے بتائیں مغرب کی شہریت کیلئے ہمارے کمی کمین دانشو رسیاستدان اور خودساختہ لیڈر کئی کئی سال ایڑیاں رگڑتے ہیں کبھی خود کو پاکستان میں غیر محفوظ ثابت کرواتے ہیں تو کبھی سیاسی پناہ تو کبھی کوئی تو کبھی کوئی ڈرامہ کرتے ہیں مگر اپنی جنم بھومی پر وہ پہچان وہ شناخت وہ اپنائیت چاہت ہر رشتہ کا سودا کرتے ہوئے گوشہ گمنام میں چلے جاتے ہیں ۔ مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں اسلام ہی گوشہ ء عافیت ہے یہی انسانی حقوق کا علمبردار اور محافظ ہے انسانی تاریخ آج بھی ایسی مثال دینے سے قاصر جب انسانیت کے سب سے بڑے اما م ﷺ نے ہجرت فرمائی تو مہاجرین اور انصار کوا یک دوسر ے کا بھائی بنا دیا جس کے بعد اخوت و مساوات کا وہ باب رقم ہوا جس کی نظیر آج تک نہ مل سکی ۔ جس انصاری کے پاس دو بیویاں تھیں اس نے ایک مہاجر کو دے دی جس انصاری کے پاس دو مکان تھے اس نے ایک انصاری کو دے دیا یہ اسلا م ہی کا خاصہ یہ اسلام ہی کا طُرہ امتیاز ہے مغرب آج چودہ سوسال کے بعد بھی ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔آج یورپ جنسی ہوس کے بھوکوں کی آماجگاہ بن چُکا ہے کیا یہ حقیقت نہیں کہ کتنی غیرشادی شدہ لڑکیاں مائیں بنتی ہیں ہزاروں زبردستی جنسی ہوس کا شکار ہوتی ہیں ۔گزشتہ سال یورپ میں سینکڑوں عورتیں تیزاب گردی کا شکارہوئیں مگر افسوس وہاں کوئی وطن فروش شرمین عبید چنائے نہیں تھی جو حقائق کا چہر ہ مسخ کرکے مغرب کے سامنے پیش کرکے معقول اجرت وصول کرتی ۔ہاں مگر پروین شاکر نے ٹھیک کہا تھا ۔

تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مرجانا چاہئے
شاید محترمہ چنائے صاحبہ خوشامدِمغرب یا تاریخی حقائق سے نافہمی کے سبب مادروطن کا چہرہ خوب دلجمعی سے داغدارکر گئیں کاش کہ وہ حقائق بھی سامنے لیکر آتیں جو یورپ میں سینکڑوں عورتیں تیزاب گردی کا شکار ہوئیں جنسی زیادتیوں کا نشانہ بھی بنیں عورت مزید عدم تحفظ کا شکارہوئی۔ اب ایک ڈاکومنٹری چنائے صاحبہ اپنے ضمیر کی آواز پر بنائیں جس میں مشرق اور مغرب کا تقابل کریں اور پھراصل منظر کشی کریں اور بتائیں دنیا کو حقوق نسواں کی پامالیاں سب سے زیادہ کہاں ہوتی ہیں اور پھر میں دیکھوں گاکہ مادروطن کا سودا کرکے دو دو آسکر لینے والی کیساتھ مغرب کیا سلوک کرتا ہے ۔عجیب تماشاہورہا کچھ کٹھ پتلی فکرودانش نے یہ وطیرہ ہی بنا لیا کہ مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا جو بھی کارہائے نمایاں سر انجام دیئے وہ سب مغرب ہی کی مرہون منت ہیں مگروہ یہ کیوں بھول گئے ۔دنیائے جدید سرجری میں پہلا نام مسلمان سائنسدان الزہروی کا تھا ۔جس نے موجودہ دور میں سرجری میں استعما ل ہونے والے آلات ایجاد کئے ۔ آج مریض کو بے ہوش کر نے کیلئے جو ایتھینزیا دی جاتی ہے اس کا بانی ایک مسلمان زکریاالرازی تھا ۔دنیا بھر کو پہلے منصوعی دانت دینے والاابوالقاسم الزہروی تھا ۔کشش ثقل کی درست پیمائش کا طریقہ متعارف کروانے والا ایک مسلمان عمر خیام تھا ۔ہائیڈروکلورک ایسڈ، نائٹرک ایسڈ اور سفید سیسہ تیار کرنے کا طریقہ دینے والاابن سینا بھی مسلما ن تھا ۔ الجبراء کا بانی موسیٰ الخوارزمی بھی مسلمان تھا ۔ ہماری کتاب مقدس میں سینکڑوں جگہ پر کارخانہ قدرت میں غور وفکر اور تعلیم و تحقیق کاحکم دیا گیا ۔ اسلام تو سلامتی اور امن کادین ہے پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جس کا قیام اسلام کے نام پر عمل میں لا یا گیا۔ لوگوں نے اسی اسلام کے نام پر جانوں کے نذرانے پیش کئے ۔آج یہ کالے انگریز دیسی دانشور انگریز کے ٹاؤٹ یہ ثابت کرنے کی کو شش کرتے ہیں کہ اسلام یا مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا سوائے جنگیں لڑنے کے تو یہ پہلے تاریخ کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ امت مسلمہ نے سائنس طب سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میں کارہائے نمایاں سر انجام دیئے رہی بات پاکستان کی تو پاکستان میں آئے روز جمہوریت کی پامالیوں عوام کو انتخابی اور سیاسی شعور نہ ہونے سمیت مغربی غلامانہ فکر کے حامل دانشوروں سیاستدانوں اور حکمرانوں نے مادروطن میں حقیقی باصلاحیت ٹیلینٹد لوگوں کو کبھی آگے نہ آنے دیا ۔ خداکیلئے ہمارے یہاں مشرق کا نظام رہنے دیں جس میں احساس ہے، اپنائیت ہے ، ایثار ہے ۔باہمی ہمدردیاں ہیں خدا کیلئے مشرق کو مشرق اور مغرب کو مغرب رہنے دیں ۔کہیں پھر یہ نہ ہوکہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا ۔۔۔۔

اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خاک ہو جاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤگے
اپنے ہی مٹی کے فرش پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مر مر پہ چلو تو پھسل جاؤ گئے

اپنا تبصرہ بھیجیں