امامِ دشنام اور ان کے’’ مقتدی: عطا الحق قاسمی

atta-ul-haq-qasmi

عمران خان کا ایک گناہ پاکستانی قوم کبھی معاف نہیں کرے گی کہ اس نے منفی ذہن کو پاکستان میں پروان چڑھایا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ نسل پاکستان میں پہلے موجود نہیں تھی، یہ لوگ پہلے سے موجود تھے اور آئندہ بھی رہیں گے عمران خان کا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ اس نے انہیں بد زبان اور بد تہذیب بھی بنا دیا ہے۔ یہ ذہن اب بہت متعفن ہو گیا ہے اور بدبو چھوڑنے لگا ہے۔ ان کے نزدیک ہر وہ شخص قابل گردن زدنی ہے جو ان کے سیاسی نظریات، معافی چاہتا ہوں، سیاسی نظریات رکھنا تو بہت اچھی چیز ہے، جو ان کے تراشے ہوئے بت کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا کہ اس گروہ کا کسی دلیل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہ صرف گالی گلوچ کرنا جانتا ہے۔ یہ جسے چاہتے ہیں کرپٹ، چور، لٹیرا اور ڈاکو وغیرہ قرار دے ڈالتے ہیں، اس پر گندے سے گندہ الزام عائد کرتے ہیں، قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اگر ہماریہاں سائبر کرائم پر کارروائی کا’’ رواج‘‘ ہوتا اور عدالتیں ہتک عزت کے مقدمات کا جلد فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتیں تو ان کی ایک بڑی تعداد اس وقت جیل میں نظر آتی۔ ان کی ایک معقول بلکہ نامعقول تعداد بیرون ملک مقیم ہے۔ جو شام کو ’’گلاس ‘‘سامنے رکھ کر سوشل میڈیا کو اینٹی سوشل میڈیا بنانے میں لگ جاتی ہے۔ آپ اگر کبھی تحقیق کریں تو پتہ چلے گا کہ ان کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جو ان اپنوں کیلئے بھی دل میں حسد، نفرت اور بغض رکھتے ہیں جو اپنی محنت، لگن اور دیانت و امانت کے بل پر زندگی کی دوڑ میں ان سے آگے نکل گئے۔ دوسروں پر کرپشن کا الزام لگانے والے ان لوگوں کی بہت بڑی اکثریت خود بہت بری طرح کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہے یا کرپشن کا موقع ملنے کی خواہش میں زندگی کے دن گزار رہی ہے۔ میں ان میں سے ایک’’ مفتی صاحب ‘‘کو جانتا ہوں جو نام نہاد کالم نگار بھی ہیں یورپ کے ایک ملک میں مقیم ہیں خود کو عمران خان کا حامی کہتے ہیں مگر اینٹی پاکستان ہیں۔ خاکم بدہن ہندوستان اور پاکستان کو ایک بار پھر ’’متحدہ ہندوستان‘‘ دیکھنے کے خواہشمند ہیں،بے بال وپرسرپر کیپ پہن کر پاکستان آتے ہیں تو انکے سوٹ کیس میں سیل پر خریدی چار چار یورو کی ٹائیاں ہوتی ہیں جو وہ ٹافیوں کی طرح بانٹتے ہیں، یہاں اپنی ابن الوقتی کے سبب موجودہ حکومتی جماعت کے حامیوں سے محبت کی پینگیں بڑھاتے اور اپنی فیس بک پر اس جماعت پر ہر طرح کے الزامات بھی عائد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں سے وہ سیدھا ہندوستان جاتے ہیں اور پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ یہ صاحب زندگی میں جو بننا چاہتے تھے، وہ نہیں بن پائے اور اس کا سارا غصہ پاکستان پر اور اس کے قابل احترام افراد پر نکالتے ہیں اور خیر سے عمران خان کے حامی ہیں۔
اور یہ صرف ایک مثال نہیں ہے۔ خود پاکستان میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں، جو عمران خان کی بدقسمتی سے، سارے کے سارے اس کے بینر تلے جمع ہو گئے ہیں۔ ان کا واحد مشغلہ کردار کشی ہے۔ انہوں نے تو اپنی ہی جماعت کی رہنما شیریں مزاری کو بھی نہیں بخشا تھا اور ان کی صاحبزادی کے حوالے سے ناگفتہ بہ باتیں کہی تھیں۔ پاکستان کے تمام سیاسی رہنما اور تمام اہم اور قابل احترام میڈیا پرسنز ان کی گالیوں کی زد میں رہتے ہیں، نجم سیٹھی، حامد میر، سلیم صافی، طلعت حسین، عارف نظامی، مجیب الرحمان شامی، جاوید چوہدری، نصرت جاوید، غرضیکہ آپ کوئی بھی ایسا نام ذہن میں لائیں جس نے ان کے امام دشنام سے اختلاف کیا ہو اور انہوں نے اس پر گندے الزامات کی بوچھاڑ نہ کی ہو۔ اپنے حلق اور قلم سے گٹر اگلنے والوں میں کچھ لولے لنگڑے ادیب، شاعر اور صحافی بھی شامل ہیں۔ ایک صاحب جنہیں ساری عمر یہ حسرت رہی کہ انہیں کوئی ہڈی ڈالے اور وہ یہ ہڈی چچوڑتے ہوئے اسکے قصیدے گائیں، اس قدر ڈسپریٹ ہو گئے کہ انہوں نے اپنی ایک ویب سائٹ بنا ڈالی اور پاکستان کے صف اول کے تمام اینکرز اور دانشوروں کو بزعم خویش کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا اور جب پاکستان کے ذی شعور افراد نے ان صاحب کا پیچھا کیا اور ان کے بنیاد اور مضحکہ خیز جھوٹ کا پردہ چاک کیا تو اب یہ خود منہ چھپاتے پھرتے ہیں اور معافی تلافی کے طلب گار نظر آتے ہیں۔
اس طبقے کی سفاکیت کا بدترین نمونہ وزیراعظم پاکستان کی حالیہ علالت کے دوران سامنے آیا۔ اس طبقے کے افراد نے فیس بک پر کیسی کیسی بددعائیں پوسٹ نہیں کیں اور کیسی کیسی ننگ انسانیت باتیں نہیں کیں اور یہ سب کچھ اس شخص کے حوالے سے کیا جس کی ان کے لیڈر کے اسٹیج سے گرنے پر پریشانی دیدنی تھی۔ عمران خان سے میری درخواست ہے کہ وہ خود سے اختلاف رکھنے والوں کے بارے میں خود ہی تہذیب اور شائستگی کا مظاہرہ کریں اور ان بچونگڑوں سے بھی کہیں کہ وہ ان کے ساتھ دوستی کے روپ میں دشمنی کا رویہ نہ اپنائیں انکے یہ دوست انہیں لے ڈوبیں گے مجھے تو عمران خان کی تبدیلی والا نعرہ بھی سمجھ نہیں آتا وہ جن لوگوں کے خلاف تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ سب ان کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے ہوتے ہیں خان صاحب کومعلوم ہونا چاہئے کہ یہی لوگ کل کسی اور کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے نظر آئینگے۔ وجہ یہی کہ عمران خان اپنے اور اپنے پیروکاروں کے رویئے کے سبب حکومت میں آتے نظر نہیں آتے اور اس کی گواہی حالیہ ضمنی انتخابات کے حوالے سے بھی سامنے آئی ہے۔ خاں صاحب صبر اور تحمل سے کام لیں، شائستہ رویہ اپنائیں، شوکت خانم اور ورلڈ کپ کو وہ کافی بیچ چکے، خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت ہے، اسے مثالی حکومت بنائیں تاکہ ان کی سیاسی سی وی میں کوئی سیاسی کامیابی تو دکھائی دے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں