دنوں، ہفتوں اور مہینوں کے اخبارات میں سِول ملٹری کارکردگی

image

پاکستان میں دو ادارے اہم فیصلے کرسکتے ہیں جن میں سے ایک سِول ادارہ جبکہ دوسرا ملٹری ادارہ کہلاتا ہے۔ سِول ادارے کو سیاست دان رونق بخشتے ہیں اور جمہوریت کی چادر اوڑھ کر حکومت چلانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف ملک کے دفاع، اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے اور حساس سٹریٹیجک معاملات پر پروفیشنل اِزم کے باعث ملٹری ادارے بھی اہم فیصلے کرتے ہیں۔ حساس معاملات پر کس کو منصوبہ بندی کرنی چاہئے یا کس کو سٹریٹیجک فیصلے کرنے چاہئیں، حتمی فیصلے کس کے ہوں یا اہم ہدایات کون دے، ملک کو کس ملک کے قریب کرنا ہے یا کس ملک سے بچانا ہے وغیرہ جیسے غیرمعمولی ایشوز پر پاکستان کی تاریخ سِول اور ملٹری اداروں میں کھینچا تانی کی داستانوں سے بھری پڑی ہے جن کے باعث ملک ناقابلِ تلافی نقصانات بھی اٹھا چکا ہے مگر نہ تو کبھی کوئی مجرم ٹھہرا اور نہ ہی کبھی کسی کو سزا ملی۔ البتہ الزام تراشیوں اور بہتان بازیوں کا بازار گرم رہا۔ اس بازاری مفاد میں دانشوروں، صحافیوں اور تاریخ دانوں نے اپنے اپنے نظریاتی قیدی ذہن کے مطابق اپنے اپنے کیمپ کو ہمیشہ سپورٹ کیا۔ کسی کے نزدیک ملک چلانے کے لئے حتمی فیصلہ ساز ادارے صرف سِول ادارے ہیں جبکہ دوسروں کے نزدیک سِول اداروں کی نااہلیت، شارٹ سائیٹڈ اور معمولی مفاد پرستیوں کے باعث اہم ترین ضروری فیصلے نہیں ہو پائے۔ اِسی لئے ملک کے نقشے پر کئی چھوٹی بڑی تباہیوں کے نشانات موجود ہیں۔ دونوں کیمپوں کے فریقین اپنی اپنی گواہی میں اُس وقت کے سِول اور ملٹری اداروں کے رویوں اور واقعات کو سامنے لاتے ہیں۔ ہمارا آج کا موضوع ماضی کے سِول اور ملٹری اداروں کے فیصلوں یا رویوں کے بارے میں ججمنٹ دینا نہیں ہے اور نہ ہی سِول یا ملٹری دونوں اداروں میں سے کسی ایک کو آگے یا پیچھے کرنا ہے۔ سِول اور ملٹری اداروں کی اپنی اپنی جگہ کا تعین دنیا بہترین انداز سے کرچکی ہے کہ جمہوریت ہی کسی ملک کا شاندار پہناوا ہے۔ البتہ ہمارا آج کا موضوع وہ کام ہیں جو اِن دنوں ہمارے سِول اور ملٹری ادارے اپنے اپنے طور پر کررہے ہیں۔ پہلے سیاسی اداروں کے کاموں کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں، چند ہفتوں یا چند مہینوں کے اخبارات لیں تو ایک جیسی ہی خبریں پڑھنے کو ملیں گی۔ اگر اخبار کے اوپر سے ڈیٹ والی لائن ہٹا دی جائے تو تازہ یا پرانے اخبار میں فرق محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ جو خبریں پرانے اخبارات میں چھپی تھیں تقریباً ویسی ہی خبریں نام اور چہرے بدل کر تازہ تاریخ والے اخبارات میں بھی موجود ہوں گی۔ ایک دوسرے پر کرپشن اور دھاندلی کے الزامات پہلے بھی تھے اب بھی ہیں۔ مخالف کے لئے گالی گلوچ یا جگت بازی پہلے بھی تھی اب بھی ہے۔ پانامہ لیکس پر ٹی او آرز کے ذریعے اپوزیشن کو مزہ چکھانے کی کوشش حکومت پہلے بھی کررہی تھی اب بھی کررہی ہے۔ ٹی او آرز کا قانون نہ بننے دے کر حکومت کو بلاسٹ تک پہنچانے کی اپوزیشن کی خواہش پہلے بھی تھی اب بھی ہے۔ آپ کو چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کے کسی اخبار میں بے روزگاری ختم کرنے کے سنجیدہ اقدامات نہیں ملیں گے۔ لوگوں کی برباد ہوتی ہیلتھ کو بچانے کی کوئی عملی منصوبہ بندی نظر نہیں آئے گی۔ فلاحی ریاست کے سہانے خواب دکھانے والا کوئی سیاست دان روز بروز بڑھتی خودکشیوں کی وجہ تلاش کرتا نظر نہیں آئے گا۔ پاکستان کو جنت نظیر بنانے کاخواب دکھانے والے سیاست دان عوام کو جہنم زدہ زندگی سے چھٹکارہ دلانے کے لئے مل کر کام کرنے کی بجائے اسمبلیوں میں مل کر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ اپنی سیاست چمکانے اور دوسرے کی سیاست کو اڑنگہ دینے کے لئے ٹی وی سکرین پر عوام کے دکھ میں اکثر سیاست دان اتنا غمگین چہرہ بنا لیتے ہیں کہ اِن کی اداکاری دیکھ کر ہالی ووڈ کے اداکار بھی انہیں اپنا استاد مان لیں۔ سیاست دانوں کی چھلیاں بھوننے والی اس انگیٹھی کو اکثر میڈیا بھی خوب پنکھا جھلتا ہے۔ آئیے اب فوجی اداروں کے کاموں کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں، چند ہفتوں یا چند مہینوں کے اخبارات اٹھائیے تو پڑھنے کو ایک جیسی خبریں نہیں ملیں گی۔ اگر اخبار کے اوپر سے ڈیٹ والی لائن ہٹا دیں تو تازہ یا پرانے اخبار میں خود بخود فرق محسوس ہو جائے گا۔ ہر نئے اخبار میں فوجی اداروں کی دہشت گردوں کے خلاف کاروائی، بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف ایکشن، خطرناک اسلحے اور گولہ بارود کو قبضے میں لینا، دشمنوں کے جاسوسوں اور ایجنٹوں کو پکڑنا، سی پیک کو سیکورٹی دینا، سرحدوں پر حملہ آوروں کو موت کے حوالے کرنا، اپنے سپاہیوں اور افسروں کے شہید خون سے وطن کی مٹی کو مضبوط بنانا جیسی تازہ خبریں پڑھنے کو ملیں گی۔ ضربِ عضب کی دوسری سالگرہ پر فوجی اداروں کی کارکردگی کے ڈیٹا کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردوں سے 4ہزار 3سو4 کلومیٹر کا علاقہ کلےئر کرایا، 253ٹن دھماکہ خیز مواد اور 35ہزار سے زائد راکٹ اور مارٹر بم برآمد کئے، آئی ای ڈیز اور دھماکہ خیز مواد تیار کرنے کی 7ہزار فیکٹریوں کو ختم کیا اور 35سو دہشت گرد مار دےئے گئے۔ یہ سب وہ سامان تھا جس سے ملک آگ اور خون میں نہا رہا تھا۔ دہشت گردوں کی یہ وہی بندوقیں تھیں جن سے ہمارے سیاست دان بھی ہلاک ہو رہے تھے۔ گزشتہ دو برسوں میں پاک فوج کے 500 افسران اور جوانوں نے شہید ہوکر ملک میں لگی آگ کو ٹھنڈا کیا اور سیاست دانوں کو بھی محفوظ بنایا۔ ملک کے دشمن اپنی سابقہ منصوبہ بندیوں کی تباہی کے بعد نئی منصوبہ بندیاں کرنے جارہے ہیں جن میں بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان اور ایران کوبھی پاکستان کا ایکٹو دشمن بنانا اور امریکہ چین کی باہمی مخالفت کے چکر میں پاکستان کو چین دوستی کی سزا دلوانا وغیرہ شامل ہیں۔ پاک افغان تازہ خطرے پر چھوٹی جماعتوں کے سربراہان سراج الحق، حامد موسوی اور اسفند یار ولی نے سنجیدہ بیانات دےئے جبکہ بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور ق لیگ اس حساس ایشو پر بھی سیاست بازی کررہی ہیں۔ طاہر القادری اور شیخ رشید تو دھرنا لگانے کے لئے بھی فوج کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا بڑے سیاست دان حساس اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے ان خطرات سے نمٹنے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھے ہیں؟ کیا ان خطرات کا نوٹس لینا صرف پاک فوج کا ہی کام ہے؟ گزشتہ چند دنوں، چند ہفتوں اور چند مہینوں کے اخبارات فوجی اداروں کی کارکردگی بتا رہے ہیں جبکہ گزشتہ کئی دنوں، کئی ہفتوں، کئی مہینوں اور کئی سالوں کے اخبارات بتاتے ہیں کہ سیاست دان گزشتہ 43برسوں میں چند صفحات کے آئین پر بھی پوری طرحعمل نہیں کرسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں