ریفرنڈم اور ڈیوڈ کیمرون کا استعفی : تحریر ۔۔۔ رانا ساجد سہیل

3

برطانوی عوام کا ریفرینڈم میں یو رپی یونین سے اخراج کا فیصلہ اور پھر وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا مستعفی ہونے کا اعلان شائد دنیا کی اعلی ترین جمہوریت کا تصو راور نظام پر اعتماد کے مترادف  ہے ریفرینڈم سے پہلے میں بھی اس حق میں تھا کہ بر طانیہ کو یورپی یونین کا ممبر رہنا چاہیے اسکی مختلف وجوہات ہیں جو پچھلے دو کالم میں لکھ چکا ہوں ، میری رائے بھی تھی کہ برطانیہ یورپی یونین سے باہر نہیں جائے گا شائد میں بر طانیہ میں رہتے ہوئے بھی پاکستانی سیاست اور طاقت کے مختلف زاویوں کو سامنے رکھتے ہوئے سوچ رہا تھاکیو نکہ برطانوی حکومت ،اپوزیشن اور خفیہ ایجنسیاں سب یہ چاہتے تھے کہ انھیں یورپی یونین کا ممبر رہنا چاہئے اور مجھے لگتا تھا کہ اسی لئے یہ سب طاقتیں مل کر ملکی مفادات کی خاطر یہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ انھیں کیا کرنا ہے لہذا نتائج پہلے سے طے ہو چکے ہیں کیو نکہ پاکستان میں تو آج تک ایسے ہی ملکی مفاد میں فیصلے ہوتے ہیں اسکا سہرا چاہے کسی سیاسی جماعت پر ہو یا کسی طاقتور ادارے پر لیکن بہر حال میں غلط ثابت ہوا۔ ریفرینڈم کے نتائج کے بعد جو کچھ ہوا اس میں کوئی اچمبے کی بات نہیں ہے یہ تو ہونا ہی تھا ، پا وٗنڈ کی قیمت تیس سال کی کم ترین سطح پر آگئی ، سٹاک مارکیٹ میں نمایاں کمی نظر آئی ، سکاٹ لینڈ نے بھی دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ کر دیا، کیونکہ انکی اکثریت نے یورپی یونین کے حق میں ووٹ دیا، لندن میں بھی اکثریت کا انکے حق میں فیصلہ تھا اس لئے کسی نے لندن کو الگ سے یورپی یونین کا ممبر رہنے کی آن لائن پٹیشن کر دی جسے ہزاروں لوگوں نے دستخط کیا لیکن اسکا تو دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے ہاں البتہ سکاٹ لینڈ کا مطالبہ حکومت کو مسائل سے دو چار ضرور کرے گا، پھر ایک اور پٹیشن دائر کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ مجموعی ٹرن آوٗٹ کم تھا اس لئے دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے جسے چند ہی گھنٹوں میں دس لاکھ سے زائد لوگوں نے دستخط کیا اور امید ہے کہ پیر کو پارلیمنٹ میں اس پر بات ہو گی کیونکہ برطانوی روائت کے مطابق اگر کسی پٹیشن پر ایک لاکھ سے زیادہ لوگ دستخط کریں تو اس پر پارلیمنٹ میں بحث ہوتی ہے لیکن حکومت کے لئے اسطرح کا کوئی بھی اقدام ممکن نہیں کہ دوبارہ ریفرنڈم کا سوچا جائے، ابھی بھی بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو طعنہ زنی کا کام کر رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اب فیصلہ ہو چکا ہے اب لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں اور مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھے ۔
جب نتائج سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تو مجھے اسی وقت یقین ہو گیا تھا کہ برطانیہ کو کوئی خاص نقصان نہیں ہونے والا اس کے کچھ محرکات ہیں ایک یہ کہ تمام تر بڑی لیڈر شپ ایک طرفہ ہونے کے باوجود کسی حکومتی مشینری یا کسی خفیہ طاقت نےاعلی ملکی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے عوام کی حق رائے ناجائز طریقے سے تبدیل کر نے کی کوشش نہیں کی حالانکہ کچھ دن پہلے سے یہ شور بھی ہونا شروع ہو گیا تھا کہ ریفرنڈم میں دھاندلی ہونے والی ہے مخالف گروپ لوگوں کو تلقین کر رہا تھا کہ اپنا پین ساتھ لے کر جائے تاکہ سیاہی مٹائی نہ جا سکے، حالانکہ عام طور پر یہاں ایسا نہیں ہوتا اور پھر ہوا بھی نہیں ، میرے یقین کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی تھی ریفرنڈم نتائج کے بعد بہر حال اس بات سے انکاری نہیں کہ اس وقت بر طانیہ پر مشکل ترین حالات ہیں بے شک وقتی طور پر ہیں لیکن پھر بھی وزیر اعظم کا مستعفی ہونے کا اعلان برطانوی نظام پر اعتماد کا اظہار کرتا ہے حالانکہ آئندہ چار سے پانچ سال برطانیہ کو مختلف مشکلات کا سامنا رہے گا اور شائد دو سے تین سال تو یورپی یونین سے علیحدہ ہونے میں ہی لگ جائے کیونکہ برطانیہ پہلا ملک ہو گا جو الگ ہونے جا رہا ہے اس لئے پہلے سے قوا نین واضح نہیں ہیں، موجودہ صورتحال میں اس وقت حکومتی جماعت کے پاس ڈیوڈ کیمرون سے اچھی قیادت نظر نہیں آتی ،حقیقت تو یہ بھی ہے کہ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے لیکن برطانیہ کی جمہوریت اور نظام ایسے ہی مظبوط ہوتا ہے کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس وقت ملک مشکل حالات میں ہے تو اس کے علاوہ ملک میں متبادل قیادت نہیں ہے اور اسی نظام کے تسلسل کی وجہ سے قیادت کا فقدان بھی پیدا نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک مالی طور پر ہونے والا نقصان قابل فکر نہی ہے کیو نکہ یہ شائد چند سال میں کنٹرول ہو جائے لیکن اسکا ایک اور خوفناک اور پریشان کن پہلو نسل پرست اور دائیں بازوں کی جماعتوں کا برطانیہ اور یورپ میں تیزی سے پروان چڑھنا ہے جس سے نفرت کا عنصر بڑے گا ہے جس کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں