روشنی کے شہر میں اِک چراغ بجھ گیا: منا حنان

image

16 رمضان المبارک کی ڈھلتی شام تھی سورج کی تپش دھیمے دھیمے مانند پڑرہی تھی یوں بھی کراچی کاموسم پنجاب کی نسبت ان دنوں ٹھنڈا اور قدرے بہتر ہے ۔ ہم بھی شہر قائد میں گزشتہ چند دنوں سے ڈیر ے ڈالے ہوئے تھے ۔ سیل فون پہ آنے والے ٹیکسٹ میسج نے پاؤں تلے زمین کھینچ لی ۔ نامور قوال امجد صابر ی لیاقت آباد میں نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ۔ گویا خبر تھی کہ بجلی بن کہ گری سارا وجود غم سے شل ہو گیا اضطراب اور بے چینی کی سی کیفیت ہو گئی کہ اے ایسا بے ضرر اور عاشق رسول ﷺ انسان بھی کسی کیلئے خطرہ یا نقصان دہ ہو سکتا ہے آؤ دیکھا نا تاؤ کراچی میں موجودگی کو غنیمت جانتے ہوئے لیاقت آباد کی طرف نکل دوڑے اور وہاں کیا مناظر تھے شاید الفاظ اور جذبات بیان نہ کر سکیں ہر طرف آہ و بکا سسکیاں نالہ و شیواء دھاڑیں مار ما ر کر روتے ہوئے مردوخواتین بچے اور شہید امجد صابری کا وہ ایک بو سید ہ سا چھو ٹا سا گھر سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ امجد صابری آج ہم سے بچھڑ گیا ہے ۔ آنسووں کاسیل رواں تھا کہ تھمنے کا نا م نہیں لے رہا تھا الفاظ تو کب سے ساتھ چھوڑ چکے تھے بس اب فقط اشک تھے کہ شہید صابری کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے چھم چھم بر س رہے تھے ۔لوگ ایک دوسرے کے گلے لگ کہ یوں رو رہے تھے جیسے آج ان کا کوئی گھر کا فرد با پ بھائی یا اپنا جدا ہو گیا ہو ۔ لوگ روتے بھی کیوں نہ شاید ہم لوگوں جنازوں کے انتظار میں ہی ہوتے ہیں کہ کب خبر سنیں اور کب سر پٹ دوڑیں وہ تو یا ر ایک مرد درویش تھا جو سار ی زندگی صدائیں لگا تا رہا ۔ بھر دو جھولی میری یا محمد ﷺ ۔ لوٹ کر نہ جاؤں گا آپ کے در سے خالی
جس نے قوالی کو جد ید شکل دی جو صوفی ازم کا پیر وکار تھا جو محبتوں کا چراغ تھا جو امن و آشتی کا سفیر تھا ۔ وہ تو دوسروں کا غم کھانے والا تھا اگر چاہتا تو کراچی کے کسی پو ش ایریا ڈیفنس کلفٹن میں گھر بنا لیتا اگر چاہتا تو سیکورٹی گارڈز کی فوج ساتھ رکھتا ا گر چاہتا تو بیرون ملک سیٹل ہو جا تا مگراس نے اپنی جنم بھو می کو نہیں چھوڑا۔ اپنی مادروطن کو نہیں چھوڑا اپنے لوگوں کو نہیں چھوڑا اپنے گھر اور اس محلے اس شہر اور اس ملک کو نہیں چھوڑا۔ جس نے اسے عزت و توقیر رفعت و شوکت سے نوازا و ہ سیکورٹی گارڈز رکھتا تو بھی کس کیلئے اس نے تو ہمیشہ اس علاقے اور اس شہر کو اپنا سمجھا وہاں کے باسیوں کو اپنے گھر کا فرد سمجھا ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھا ہر مشکل وقت میں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوا ۔ شاید یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہوں شہید امجد صابر ی کی زیر کفالت اڑھائی سو 250 خاندان تھے۔ دنیا تو اس پر اپنی محبتیں مال وزر نچھاور کرتی تھی مگر وہ سب کچھ اپنے علاقہ کے مفلس و نادار لوگوں میں لٹا دیتا تھا ایسا درد دل رکھنے والے انسان کو کسی سے کیا خطرہو سکتا تھا اس نے تو کبھی سو چا بھی نہ ہو گا کہ یوں بھی ہم کبھی ان گلیوں میں بے جرم مارے جائیں گے ۔ آج الفاظ بھی تنگی داماں کا شکو ہ کررہے ہیں لکھوں بھی تو کیا لکھوں ایسے عظیم آدمی کیلئے جس کی ذات کا ہر پہلو جس کی ذات کا ہر گو شہ ایک نئی جہت ایک نئی صفت اور ایک نئی روشنی سے مزین تھا ۔
احادیث میں آتا ہے کہ ایک نو عمر لڑ کا سید دو عالم ﷺ کو ٹکٹکی باند ھ کر دیکھا کرتا آپ کی راہوں کی پلکوں سے جاروب کشی کرتا کچھ دن تواتر کیساتھ یہی سلسلہ چلا اچانک وہ لڑکا غائب ہو اکریم مصطفی ﷺ کو فکر ہو ئی کہ وہ لڑکا کدھر چلا گیا صحابہ کرام ؓ سے استفسار کیا تو پتہ چلا کہ وہ ساتھ ہی مضا فات میں رہتا ہے اور ایک یہودی کا بیٹاہے ۔ سید دوعالم ﷺ نے اپنے جانثاران کو ساتھ لیا اور اس لڑکے سے ملنے کیلئے نکل پڑے گھر پہنچے تو لڑکے کے والد نے آپ ﷺ کا استقبال کیا اند ر لے گیا خاطر مدارت کی آپ نے بچے کا پو چھا توا س نے بتا یا کہ وہ تو آپ کے عشق کے سحر میں مبتلا ہو کر بیمار پڑگیا ہے ہر لحظہ آپ ہی کے رخ والضحی ٰ کو چشم تصور میں تکتا رہتا ہے آپ ہی کے حسن و جمال پہ فریفتہ ہوگیا ہے اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ قریب المرگ ہے چند گھڑیوں کا مہمان ہے ۔میرا بیٹا ہے میں یہودی ہوں مجھے اس بچے کی بے قرار ی دیکھی نہیں جاتی۔ اب یہ آپ کے سراپا ء نور کا سوالی و شیدائی بن گیا ہے آپ کرم نوازی فرمائیں اور اسے ساتھ لے جائیں کریم مصطفی ﷺ نے ایک نظر بچے کی طرف دیکھا تو اس بچے کو یوں لگا جیسے جان میں جا ن آئی چند لمحے رخ والضحیٰ کو دیکھا اور الم نشرح کے سینے والے کریم نبی ﷺ کے ہاتھوں میں جان دیدی ۔ لڑکے کے والد سے آپ نے میت لیجانے کی درخواست کی جو اس نے بخوشی مانتے ہوئے اپنے لخت جگر کو شفیق ورحیم نبی ﷺ کے دامن رحمت میں دے دیا سید دو عالم ﷺ کا شانہ ء نبوت پہ لیکر حاضر ہوئے خو دغسل دیا جنازہ پڑھا یا جب محبوب خدا ﷺ جنازہ کے ساتھ جارہے تھے تب آپ ایڑیاں اٹھا کر چل رہے تھے صحا بہ ء کبارؓ یہ منظر مجسمہ ء حیرت بنے ہوئے دیکھ رہے تھے جب آپ ﷺ نے اپنے یدا للہ والے ہاتھوں کیساتھ اپنے عاشق صادق کو لحد میں اتارا قبر سے باہر تشریف لائے تو سراپا ء نور مصطفی ﷺ پسینے سے مشکباراور شرابو رتھا ۔ یاران مصطفی ﷺ تجسس میں تھے کہ آج یہ سب منفر د کیسے ہو رہا ہے رحمتہ اللعالمین ﷺ سے فارغ ہوتے ہی دل کا مد عا عرض کرڈالا ۔ رخ مصطفی ﷺ پر تبسم کی لہر آئی میرے آقا نے فرما یا جب میں اس عا شق صادق کے جنازے کیساتھ چل رہا تھا ایڑیاں میں نے اس لئے اٹھائی ہوئی تھیں کہ اس قدر انسا ن نہیں تھے جس قدر اللہ نے فرشتے اس جنازہ میں شرکت کیلئے بھیج دیئے تھے اور تو اور ان کی تعداد اس قدر تھی کہ میں پاؤں بچا بچا کر رکھتا کہ کہیں میرا پا ؤں کسی فرشتے کہ پاؤں پر نہ آجائے جب میں لحدمیں اس عاشق صادق کو اتارنے کیلئے اترا تو مجھ سے پہلے فرشتوں کی فوج اتنی بڑی تعداد میں تھی کہ ہمارے کاندھے اور سینے ایک دوسرے سے مَس ہو رہے تھے یہی وجہ تھی کہ میں پسینے سے شرابور ہو گیا ۔اب ذرا چشم تصور میں جایئے اور ذرا سوچئے کہ وہ دن جب لیاقت آباد کی گلیوں سے شہید امجد صابر ی کا جنازہ اٹھا اس قدر جم غفیر کہ لیاقت آباد کی گلیاں تنگ پڑ گئیں اس قدر خلق خدا امڈی کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی لیاقت آباد سے باہر نکال کر جب ارم بیکر ی کے سامنے جسد خا کی لا یا گیا تو اس قدر جم غفیر تھا کہ نا قابل یقین نا قابل تصور اب ذرالمحہ فکریہ کہ سوچئے ہمارا نبی ﷺ کس قدر شفیق کریم اور رحیم اور وہ اپنے پیار کرنے والوں سے کس قدر پیا ر کر تا ہے کس قدر ان پر مہر بان ہے مگر ہم نے اس نبی کے ایک عا شق صاد ق ﷺ کو خو ن میں نہلا کر سید دوعالم ﷺ کو کس قدر رنجید ہ کیا ۔ ہم نے اسی نبی ﷺ کے نام لیواؤں اور اس پر تن من دھن نچھاور کرنے والوں کو بھی نہ بخشا کیا جرم تھا امجد صابری کا کہ وہ میر ی نبی کی ثناء تو صیف کر تا تھا ۔ کون بھول سکتا ہے و ہ سحری کی آخری ٹرانسمیشن جس میں امجد صابر ی شہید رو رو کر اپنے آقا ومولا ﷺ سے التجا کر رہے ہیں وہ دل کو موہ لینے والا منظر جو کروڑوں ذہنوں پر نقش ہو گیا جب صابری نے اشکبار وجو د کے ساتھ تاجدار شہہ بطحا ﷺ سے منا جات کیں کہ
جب قبر اندھیر ی میں گھبراؤں گا میں تنہا
امدا د میر ی کرنے آجا نا یا رسول اللہ ﷺ
روشن میر ی تربت کو للہ ذرا کر نا
جب وقت نزع آئے دیدار عطا کر نا
مجرم ہوں زمانے بھر کا محشر میں بھرم رکھنا
رسوائے زمانہ ہوں کملی میں چھپا لینا
منظور دعا میر ی مقبول خدا کر نا
جب وقت نز ع آئے دیدار عطا کرنا
میرے آقا ﷺ نے تو شہید صابری کو اپنے دامن رحمت یا اییھاالمزمل والی کملی میں چھپا لیا ہو گا اور اس سے بڑھ کر میرے آقا و مولا ﷺ نے شہید صابری کی قبر کو بھی منور اور روشن کر دیا ہو گا مگر سوال ہے تو فقط ان ذہنوں اور فکروں کیلئے جو جنازہ پہ بھی ایمبو لینس سے نکال کر اپنی ایمبو لینس میں ڈالنے کیلئے گتھم گتھا ہوتے رہے جو وہاں بھی یہ بکواس کرتے ہوئے نظر�آئے کہ یہ ہمارے قائد کا وفا دار تھا ۔ ارے احمقو کی جنت کے مکینوں امجد صابری شہید تو مکین گنبد خضرا ﷺ کا وفا دار تھا جو سار ی زندگی میر ے شہنشاہ کے نا م کی مالا جپتا رہا ۔جو سارے زندگی میرے آقا ﷺ کے سہرے پڑھتا رہا ۔مگرمیرا سوال ہے تو فقط ان درندوں ظالموں اور سفاکوں سے جنہوں نے روشنی کا گلہ گھو نٹا جو خوشبو کے مسافر کے رستے میں دیوار بنے وہ کل شافع روز جزا کو کیا منہ دکھائیں گے ۔ مگر ارباب اقتدار کیلئے ایک تلخ اور کڑوا سچ ضرور ہے کہ سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکامی کے قریب تر ہوتے ہوئے نظر�آرہے ہیں اگر ہمارے یہ دُرِ نایاب یہ روشن ستارے ہی محفوظ نہیں تو عام آدمی کے تحفظ کی ضمانت کون دیگا رہی بات وزیراعلیٰ سند ھ کی وہ توخیر سے بادشاہ آدمی ہیں موصوف تو مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے امجد صابری کی جگہ جنید جمشید ہی کہہ گئے ۔ میں کس کے نا م لکھوں یہ الم یہ نوحہ یہ گریہ کون ذمہ دار ی لے گا عوام حکمران یا کوئی اور۔ کوئی بھی نہیں صرف چند دن کی لفظی جنگ اور شعلہ بیانیاں اور پھر کیا ہو گا سب بھو ل جائیں گے مگر نہیں بھولے گا تو مجد د صابری اور اس کے پانچ چھوٹے چھوٹے بہن بھائی وہ امجد صابری کی بیوہ یا وہ بوڑھی ماں جو ابھی چند دن پہلے کہہ رہی تھیں میں امجد کو آج بھی ڈانٹ دیتی ہوں جب وہ بات نہیں ما نتا ابھی پرسوں ہی توڈانٹا میں نے یہ لوگ نہیں بھو لیں گے ان کے آنسو کبھی خشک نہیں ہو نگے نہیں بھوسلیں گے تو ہ اڑھائی سو خاندان جن کا مسیحا چھن گیا جن کے چو لہے امجد صابر ی شہید کے دم سے روشن تھے ۔

میں کس کے نام لکھوں یہ جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میر ے لو گ مر رہے ہیں
کوئی اور تونہیں پس خنجر�آزمائی
ہمی قتل ہو رہے ہیں ہمی قتل کر رہے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں