کسے زندہ رکھنا ہے ۔۔انسان یا نظریہ۔۔۔۔ تحریر رانا ساجد سہیل

3

داغ سجود اگر تیری پیشانی پر ہوا تو کیا
کوئی ایسا سجدہ بھی کر کہ زمیں پر نشاں رہیں

بلا شبہ عبدلستار ایدھی صاحب کی وفات نہایت ہی افسوس ناک اور قومی المیہ ہے جس پر پورا پاکستان اور بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی افسردہ اور غمگین دیکھائی دیتے ہیں اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ ایدھی صاحب کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھے الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ کیسے اور کیا لکھا جائے مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ انکو خراج تحسین پیش کرنے کی میری اوقات نہیں ، کیونکہ ہم اتنا کچھ پاس ہونے کے با وجود بھی نا شکری کی زندگی گزارتے ہیں انکی خدمات ساری دنیا کے سامنے عیاں ہیں اور جسطرح انھوں نے سادگی ،ایمانداری اور عزت و توقیر کے ساتھ زندگی گزاری وہ بھی، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایدھی صاحب جیسی عظیم شخصیت 8 جولائی 2016 بروز جمعہ اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے اسکے بعد انکی تدفین جس عزت و احترام سے کی گئی وہ ایک چھوٹا سا نظرانہ تھا انکی خدمات کے سلسلے میں اور ہمیں اس سے کہیں زیادہ کرنا ہے انکے لئے اور پاکستان کے ہزاروں یتیموں ، بیواؤں ، بوڑھوں اور بے سہارا لوگوں کے لئے۔ لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا پر جسطرح باتیں اور ہمدردیاں جتائی جا رہی ہیں اچانک دل میں وسوسہ سا پیدا ہو گیا جس نے مجھے ایدھی صاحب کے بارے میں لکھنے کی ہمت دی اور میں نے فیصلہ کیا کہ اس کار خیر میں اپنی حیثیت کے مطابق اپنا حصہ ضرور ڈالوں گا ہمیں اب سوشل میڈیا اور جذبات سے نکل کر عملی اقدام اٹھانے ہیں ایدھی ایک سوچ اور نظریے کا نام ہے جس نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی ایسا کام ہو سکتا ہے اور وہ بھی وسائل نہ ہونے کے باوجود لیکن آپکا نظریہ اور ایمانداری پختہ ہونی چاہئے لیکن اس کے بر عکس اسی سندھ میں ایک اور بھی لیڈر گزرے ہیں جو کہ 5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ بومبے پریذ یڈینسی برطانوی راج میں پیدا ہوئے اور اعلی تعلیم یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے حاصل کی اسکے علاوہ وہ 1957 میں پاکستان کی وفاقی کابینہ کے سب سے پہلے نوجوان ممبر تھے جنھیں صدر سکندر مرزا نے کامرس کی وزارت دی جو کہ 1960 میں انکو پانی و بجلی اور انڈسٹری کی وزارت دے دی گئی اور اسطرح بھٹو جنرل ایوب خان کے چہیتے بن گئے اور بہت سے بیرون ملک جانے والے اہم وفود کا حصہ رہے پھر 1963 میں بھٹو صاحب وزیر خارجہ مقرر ہوئے اور انھوں نے چائنہ کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اسی دوران خارجہ پا لیسی پر سخت اختلافات کی بنا پر بھٹو کے تعلقات ایوب خان سے بگڑنے لگے اور بالآخر انھوں نے جون 1966کو استعفی دے دیا اسکے بعد 30 نومبر 1967 کو لاہور میں مبشر حسین کے گھر پر اکٹھ میں پاکستان پیپلز پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا جس کا منشور تھا کہ
طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں ۔
اسلام ہمارا ایمان ہے۔
جمہوریت ہماری پالیسی ہے۔
سوشلزم ( سماجیات) ہماری معیشت ہے
پھر بھٹو صاحب پاکستان کے صدر بھی رہے ، وزیراعظم بھی ، ملک کے دو ٹکڑے بھی کئے اور پاکستان کے مستقبل کو مظبوط اور محفوظ بنانے کے لئے نیو کلئیر ہتھیار کی بنیاد بھی رکھی ، سیاست کا آغاز فوجی آمریت سے کیا اور جمہوریت کی جنگ میں تختہ پھانسی پر لٹکے پاکستان کو آئین اور لوگوں کو حقوق بھی دیے اور اسطرح 4 اپریل 1979 کو انکا دنیاوی باب بند ہو گیا یہ انکی زندگی کا مختصر قصہ ہے لیکن ہم نے مرے ہوئے شخص کو بھی زندہ رکھا اور انکے نظریے کی پیروی کرنے والے انکے خاندانی غلام بنتے گئے لیکن انکے نظریے کا گلا دبانے والے آج بھی کہتے ہیں کہ بھٹو کل بھی زندہ تھا بھٹو آج بھی زندہ ہے۔
یہاں بھٹو کا ذکر اس لئے کرنا پڑا کہ ایدھی صاحب کے لئے بھی آج اسی طرح کی مہم چل رہی ہے میرے دل میں اچانک خوف پیدا ہوا کہ بھٹو تو آج بھی زندہ ہے لیکن انکے نظریے اور سوچ کو زندہ درگور کر دیا گیا ہے کہیں ایسا ہی ایدھی صاحب کے نظریے کے ساتھ نہ ہو ایسا نہ ہو کہ چند سال بعد ایدھی ایمبو لینس کے لئے تیل درکار نہ ہو اور مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ایدھی صاحب کے پیچھے کوچ کر جائے ، ایدھی چائلڈ سنٹر میں کوئی ان لا وارث بچوں کو نام دینے والا اور ننھی معصوم جانوں کو دودھ پلانے والا نہ ہو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ بوڑھے اور مفلوج لوگ سڑکوں پر پڑے کسی ایدھی کے انتظار میں تڑپتے رہے ، زمانہ جہالت میں تو صرف بچیوں کو زندہ دفنا تے تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس دور میں بھی کنواری مائیں اپنے گناہ چھپانے کے لئے بچوں کو زندہ درگور کرنے لگے،

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ، عام دیدار یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جسکا ، وہ راز اب آشکار ہو گا

اگر ہمیں ایدھی صاحب کو زندہ رکھنا ہے تو در حقیقت انکی سوچ اور نظریے کو زندہ رکھنا پڑے گا نہیں تو خدا کے لئے انکے نظریے کا گلہ گھو نٹنے والے یہ نہ کہیں کہ ایدھی تو آج بھی زندہ ہے کیونکہ اس سے بہتر تو انکو حقیقی دنیا میں سر بسجود ہونے دے اور انکی روح کو کھینچ کر جھنجھوڑ نے کی کوشش نہ ہی کرے تو اچھا ہے۔ اللہ تعالی نے جتنی بھی توفیق دی آج تک میں صدقہ ، خیرات ، اور زکوتہ ضرور دیتا ہوں اگر ہو سکے تو کسی کی مدد کرنے کی کوشش بھی کرتا ہوں لیکن میں یہ بھی سر خم تسلیم کرتا ہوں کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اگر کبھی ایدھی فاؤنڈیشن کو کوئی عطیہ دیا ہو لیکن اب انشااللہ میں ایدھی صاحب کے اس مشن کو زندہ رکھنے میں اپنا حصہ ضرور ڈالوں گا کیونکہ مجھے ایدھی صاحب کو نہیں بلکہ ان کے نظریے کو زندہ رکھنا ہے ۔فیصلہ آپکا اپنا ہے کہ آپ اس عظیم شخص کی سوچ ، نظریے ، زندگی بھر کی محنت اور بے حد تکالیف کی بنیاد پر خدمت خلق سے سرشار جذبے کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں یا ان کی روح کو دنیا کی زنجیروں سے جکڑ کر ذلیل و رسوا کرنا چاہتے ہیں۔

تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائیں ۔۔۔۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں