نو برس پہلے سعودی سہارا، نو برس بعد قطری سہارا: سید سردار احمد پیر زادہ

ہمارے کالم نگار : پاکستان کے پہلے نا بینا صحافی
ہمارے کالم نگار : پاکستان کے پہلے نا بینا صحافی

ٹھیک آج ہی کے دن نواز شریف سات سالہ جبری جلاوطنی کو توڑ کر 25 نومبر 2007ء کو لاہور ایئرپورٹ اترے تھے۔ اس سے تقریباً ایک ماہ قبل بینظیر بھٹو خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آچکی تھیں۔ نواز شریف کی زبردستی وطن واپس آنے کی کوشش کو روکنے کے لئے پرویز مشرف نے پانچ دن پہلے یعنی 20 نومبر 2007ء کو سعودی عرب کا اچانک دورہ کیا جس میں انہوں نے سعودی حکام سے منت کی کہ وہ نواز شریف کو دس برس کی مدت ختم ہونے سے پہلے پاکستان واپس آنے سے روکیں۔ اس پر سعودی حکام نے پرویز مشرف کو روکھا سا جواب دیا کہ ”اگر ڈیموکریٹک سوشلسٹ وومن لیڈر بینظیر بھٹو کو واپس آنے کی اجازت مل سکتی ہے تو کنزرویٹو شریف کو بھی واپس آنے کی اجازت ہونی چاہئے“۔ نواز شریف کی یہ واپسی ایک نئے نواز شریف کی آمد تھی۔ ان کی سیاسی شخصیت میں چند بنیادی خصوصیات کے علاوہ بہت کچھ تبدیل ہوچکا تھا۔ انہوں نے مفاہمت کی سیاست کی روش اختیار کی جس کا اظہار پہلے بینظیر بھٹو اور پھر آصف علی زرداری کے ساتھ تعاون کی شکل میں ہوا۔ نواز شریف 2008ء کے عام انتخابات میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے آخری دن سے ایک دن پہلے پاکستان پہنچے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن چند گھنٹوں کے مختصر وقت میں اپنے بہتر امیدواروں کو ترتیب نہ دے سکی، اس لئے پیپلز پارٹی انتخابات میں اکثریتی جماعت بن گئی جبکہ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کی سیاست کا راستہ اختیار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو مرکزی حکومت بنانے کا راستہ دیا ہو۔ اپنی واپسی کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف نے سیاست کے پتے ٹھیک ٹھیک پھینکنے شروع کئے۔ پہلے پیپلز پارٹی کی مشترکہ حکومت سے اتحاد ختم کیا پھر ججوں کی بحالی کی وکلاء تحریک کی قیادت میں شامل ہوئے۔ ساتھ ساتھ پرویز مشرف کو سیاسی ذلت کی گہرائیوں میں گرایا۔ پرویز مشرف کے استعفے کے بعد نواز شریف نے زرداری حکومت پر ججوں کو بحال کرنے کا پریشر بڑھانا شروع کیا جس کے نتیجے میں بالآخر جج بحال ہوئے۔ نواز شریف نے مزید سمجھداری سے سیاست کھیلتے ہوئے زرداری حکومت سے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر آئینی پابندی کو ختم کرایا جس کا براہِ راست فائدہ اُس وقت صرف نواز شریف کو ہی ہوا۔ مسلم لیگ ن نے 2008ء سے 2013ء تک نواز شریف کی قیادت میں پاپولر اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ کبھی زرداری حکومت کو لوڈشیڈنگ کے حوالے سے سڑکوں پر گھسیٹا، کبھی پیپلز پارٹی کو کرپشن کے حمام میں ننگا کیا، کبھی حکومت کے خلاف میموگیٹ سکینڈل میں وکیل بن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ گویا نواز شریف آہستہ آہستہ اپنے طے شدہ قدم اقتدار کی طرف بڑھاتے گئے۔ 2013ء کے انتخابات زیادہ دور نہ تھے اور نواز شریف کو کوئی تشویش بھی نہ تھی کہ اچانک مضبوط ہاتھوں نے عمران خان کو سٹیج پر لابٹھایا۔ عمران خان نواز شریف کی مستقبل کی آسان سیاست میں راستے کا پتھر بن گئے۔ ن لیگ 2013ء کے انتخابات جیت گئی مگر عمران خان ابھی بھی نواز شریف کے لئے نوکیلے پتھروں کی سڑک بنے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں اب تک کوئی سہ ماہی ایسی نہیں گزری جب عمران خان نے نواز شریف کو سکون کی نیند سونے دیا ہو۔ عمران خان کی جانب سے نواز شریف کے گرد کھینچا گیا پانامہ پیپرز کا حالیہ دائرہ پینتیس پنکچروں والے دھاندلی کے دائرے سے زیادہ گہرا ہے۔ اس مقدمے کی خالی جگہوں کو نواز شریف نے کاغذی پرزے جوڑ کر پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر مخالف وکلاء ان کاغذی پرزوں کو ہوا میں نہ اڑا سکے تو ایک مرتبہ پھر نواز شریف کی خوش قسمتی ثابت ہو جائے گی لیکن شاید سکون کی نیند اُن سے پھر بھی روٹھی ہی رہے کیونکہ عمران خان کے علاوہ ملک کے اندر اور باہر کچھ ایسی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جن کا الٹیمیٹ اثر سِول حکومت پر آئے گا۔ اِن میں امریکہ میں ٹرمپ کا جیتنا اور پاک فوج کے نئے چیف آف آرمی سٹاف کا آنا شامل ہے۔ بیشک چیف آف آرمی سٹاف مکمل طور پر پروفیشنل اور باصلاحیت ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ایک نئی کمان کو اپنے معاملات ترتیب دینے میں کچھ وقت لگ جاتا ہے جو عموماً سیاسی حکومت کے لئے پسندیدہ وقت ہوتا ہے۔ اسی دوران نئے منتخب امریکی صدر ٹرمپ کی سوچ اثر دکھانا شروع کردے گی۔ ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں میں بھارتی نژاد امریکی ہیں جنہوں نے انتخابی مہم میں بھی ٹرمپ کو بھارت کی طرف مائل رکھا۔ ان بھارتی نژاد امریکیوں کی موجودگی اور ٹرمپ کے اپنے مزاج کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بھارت خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے پوری طاقت کا استعمال کرے گا۔ بھارت کی بالادستی کے سامنے پاکستان سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بھارت کی بالادستی کے نظریئے کو پاک فوج کسی طرح قبول نہیں کرتی اور دشمن کے طاقتور عزائم کا جواب طاقت سے دینے کے لئے تیار رہے گی جبکہ سِول حکومت کی نمائندگی کرنے والا فارن آفس اور سفارت کاری پہلے کی طرح کوئی خاص میدان نہیں مار سکے گی۔ دوسری طرف ٹرمپ کے ساتھیوں کا رویہ پاک فوج کے لئے تلخ ہوگا جس کے اثرات سِول حکومت پر آئیں گے۔ اس نازک صورتحال میں سِول ملٹری ریلیشن میں پہلے کی نسبت بہت جلد مدوجزر آسکتے ہیں جوکہ سِول حکومت کے لئے بہت کٹھن ہوں گے۔ نواز شریف اب تک وہ پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے تین مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے کے دوران پانچ چیف آف آرمی سٹاف مقرر کئے اور اب چھٹے چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر کرنے جارہے ہیں۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اقتدار کے حوالے سے نواز شریف کی خوش قسمتی جوان رہتی ہے لیکن کیا خوش قسمتی بھی بوڑھی ہوکر مدھم نہیں پڑسکتی؟ سابقہ ریکارڈ بتاتا ہے کہ نواز شریف کی ذات کو عرب ممالک کا سہارا رہا ہے۔ نوبرس پہلے وہ سعودی عرب کے سہارے وطن واپس آئے۔ کیا اب نوبرس بعد قطری شہزادے کا خط اُن کا سہارا ہوگا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں