کرکٹ، سیاست اور غلاظت : مجیب الرحمان شامی

mujeebپی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہوا، اور اس شان سے ہوا کہ بد خبریاں اور بدشگونیاں بانٹنے والے اپنا سا مُنہ لے کر رہ گئے۔ کھسیانی بلی تو کھمبا نوچ لیتی ہے، لیکن کھیسانے بلّوں، بلکہ باگڑ بلّوں کے ہاتھ تو کوئی کھمبا بھی نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس ہی پر غصہ نکال لیں۔ نتیجتاً انہوں نے اپنے آپ ہی کو نوچ لیا… ”چاند‘‘ نکلا تو ہم نے وحشت میں… جس کو دیکھا اسی کو ”نوچ‘‘ لیا۔
اِس سے قطع نظر کہ کس نے کیا کِیا اور کیا کہا، کس کو کیا کہنا چاہئے تھا، اور کیا نہیں کہنا چاہئے تھا، کیا کر گزرنا چاہئے تھا، اور کیا کرنے کا سوچنا بھی نہیں چاہئے تھا، بنیادی اور بڑی حقیقت یہی ہے کہ پاکستانی قوم نے اپنے آپ کو منوا لیا۔ قذافی سٹیڈیم میں پشاور اور کوئٹہ کی ٹیموں کے درمیان جو میچ کھیلا جا رہا تھا (اور جس میں پشاور کو شاندار فتح نصیب ہوئی) وہ تو محض ایک منظر تھا، ایک جزوی و محدود حقیقت۔ اصل میچ تو وہ تھا جو پاکستان کے ہر گلی کوچے میں یا یہ کہیے کہ ہر گھر میں یا یہ کہیے کہ ہر دِل میں جاری تھا۔ مقابلہ خوف، دہشت اور بے یقینی سے تھا، ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر کوئی تیار نہیں تھا۔ ڈر ڈر کر جینے سے انکار کیا جا رہا تھا اور پھر دُنیا نے دیکھ لیا کہ قوم جیتی اور دہشت گردی ہار گئی۔ اس کے سہولت کار اپنا سا مُنہ لے کر رہ گئے۔ پاکستانی ریاست نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ کوئی چیلنج درپیش ہو تو وہ سپر پاور بن کر دکھا سکتی، اور معجزے برپا کر سکتی ہے۔ دیکھنے والوں نے ایک بار پھر اس کی اِس صلاحیت کا اعتراف کیا، اس کی پیٹھ تھپکی اور اسے شاباش دی کہ خطروں کے سامنے گھبرا جانے، اور دِل کی حفاظت کے نام پر اس کو پکڑ کر بیٹھ جانے کا نام زندگی نہیں ہے۔ سارے ریاستی ادارے یک جان دو قالب بنے ہوئے تھے، وزیر اعظم ہوں یا وزیر اعلیٰ، وفاقی انتظامیہ ہو یا صوبائی، فوج ہو یا پولیس، کوئی تفریق نہیں تھی، کسی کو خود نمائی کا شوق نہیں تھا، کوئی کریڈٹ لینے کے مرض میں مبتلا نہیں تھا۔ ہر شخص اور ہر ادارہ دوسرے کو داد کا زیادہ مستحق قرار دے رہا تھا۔ نجم سیٹھی ہوں یا شہریار، کسی نے اپنے آپ کو ہار پہنانے کی کوشش نہیں کی۔ قوم کو اُبھارتے اور اُسی کے سامنے کورنش بجا لاتے رہے۔ یہاں تک کہ افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سٹیڈیم میں (فاتحانہ) داخلے کی تجویز کو رد کر دیا۔ وہ بیرون مُلک دورے پر چلے گئے کہ کریڈٹ لینے کی کوئی رمق کہیں نظر نہ آئے۔ وزیر اعظم نے بھی یہی روش اپنائی کہ قوم کا کریڈٹ قوم ہی کو ملے۔ افراد اور اداروں میں وصولی کی دوڑ نہ شروع ہونے پائے۔
پاکستانی قوم کی یہ صلاحیت خداداد ہے کہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی کارکردگی دکھا سکتی ہے۔ جب پاکستان قائم ہوا، تو بے سروسامانی کا عالم دیدنی تھا۔ کام کے لیے دفتر تھا، نہ آرام کے لیے بستر۔ درختوں کے نیچے بیٹھ کر، فائلوں کو ببول کے کانٹوں سے جوڑ کر، پیٹ پر پتھر باندھ کر دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی بنیادیں مضبوط کر دی گئیں۔ حریف کہہ رہے تھے یہ چند ماہ کے اندر اندر ہاتھ جوڑ کر واپس آئیں گے۔ دہلی کے تخت سے ”مہاراج‘‘ کہہ کر مخاطب ہوں گے، ناک رگڑیں گے اور کئے دھرے کی توبہ کریں گے کہ ان کے پاس تو کچھ بھی ایسا نہیں ہے جس سے گھر چلایا جا سکے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا، جو مخالف سوچ رہے تھے، اور ایسا سب کچھ ہو گیا جو اہل ہمت کرنے کا ارادہ کر چکے تھے۔
1965ء میں اپنے سے کئی گنا بڑے حریف کے ساتھ جنگ لڑنا پڑ گئی۔ اُس وقت بھی پسینے چُھٹ جانا چاہئیں تھے، لیکن آسمان کو ایک اور ہی منظر دیکھنا پڑا۔ قلت نے کثرت کے دانت کھٹے کر دیے تھے۔ ممولوں نے مبینہ شہبازوں کو مار بھگایا تھا۔ دشمنی پر اُترے ہوئے ہمسایے نے جب ایٹم بم بنانے کا اعلان کیا، فضائوں پر اپنی مستقل حکومت قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، تو اس کا جواب دینے کی بھی ٹھان لی گئی۔ چپکے چپکے وہ کچھ حاصل کر لیا، دشمن کھلم کھلا جس کی تیاریاں کر رہا تھا۔ جب اُس نے اپنی ایٹمی طاقت کو واشگاف کیا، تو اسے حیرت کے کنوئیں میں ڈوبنا پڑ گیا۔ اُس کے نہلے پر دہلا مار دیا گیا تھا، اس سے زیادہ دھماکے کر کے اُس کو نیچا دکھا دیا گیا تھا۔ نچلا بٹھا دیا گیا تھا۔
دہشت گردوں نے آٹھ سال پہلے اِسی شہر لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کر کے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا (بزعمِ خود) خاتمہ کر دیا تھا۔ اُن دِنوں پنجاب میں گورنر راج تھا، مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کر کے صدرِ پاکستان (جناب آصف علی زرداری) براہِ راست انتظامیہ کو اپنے دستِ شفقت میں لے چکے تھے، اپنے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے مشورے پر احکامات صادر فرما رہے تھے۔ وزیر داخلہ جناب رحمن ملک براہ راست صوبائی امن و امان کے ذمہ دار بن گئے تھے، اور اپنی مہارت کے اظہار میں آزاد تھے… کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کو فراہم کردہ سکیورٹی پاش پاش ہو گئی۔ اُس پر ہونے والے حملے نے پاکستانی کرکٹ کو تنہائی اور ویرانی کے صحرا میں دھکیل دیا…
خدا خدا کر کے 9 سال بعد قذافی سٹیڈیم آباد ہوا۔ امید کے چراغ جلے کہ افسردگی اور تنہائی کا دور ختم ہونے کو ہے۔ پاکستانی ریاست نے اپنا کھویا ہوا اعتبار اور وقار بحال کرنے کی کامیاب کوشش کر ڈالی ہے۔ کرکٹ شاداں و فرحاں اچھے مستقبل کا خواب دیکھنے میں مصروف تھی کہ سیاست پھر آپے سے باہر ہو گئی۔ اس کے پہلوان پھر گتھم گتھا نظر آئے۔ قومی اسمبلی کے ایک نوجوان رکن نے اپنے ایک بزرگ ساتھی کو مُکّہ جڑ دیا۔ یہ بڑے میاں اس طرح آپے سے باہر ہوئے کہ سننے والوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ (شاید پہلی بار) الیکٹرانک میڈیا کو بھی اتنی شرم آئی کہ وہ ادا شدہ الفاظ ٹیلی کاسٹ نہ کر سکا۔ بصد جبر و اکراہ معافی تو مانگ لی گئی ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت یعنی وزیر اعظم نواز شریف کی طرف دیکھا جا رہا ہے کہ وہ کوئی تادیبی کارروائی بھی کریں گے۔ جس طرح کا الزام لگایا گیا اور جس طرح کی گالی دی گئی، اگر اُس کی اتنہائی سختی سے گوشمالی نہ کی گئی تو پاکستانی سیاست میں غلاظتوں کا ایک ایسا تبادلہ شروع ہو سکتا ہے، جس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے۔
یہ درست ہے کہ جب کوئی اپنے تجاوز پر معافی مانگ لے تو اُسے معاف کر دینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولؐ کے نزدیک یہی احسن طریقہ ہے، لیکن معافی کسی پر ”مسلط‘‘ نہیں کی جا سکتی۔ کسی کو اسے قبول کرنے پر مجبور کرنا ایک اور طرح کی زیادتی ہے۔ جو تہمت لگائی گئی، وہ اس قدر شرمناک ہے کہ محض معافی کا اعلان اس کے مداوے کے لیے کافی نہیں۔ مسلم لیگی زعما کو اعلان نشر کر کے مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے۔ اکابرین کا جرگہ نشانہ بننے والے ایم این اے (مراد سعید) کے گھر جائے اور ان کو منائے۔ وہ اپنے مخاطب (جاوید لطیف) کو گھونسہ مار کر ظالم بن گئے تھے۔ بات یہاں رُک جاتی تو سارا دبائو ان کے خلاف ہوتا اور وہ اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہوتے، لیکن الزامی جارحیت نے ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا ڈالا۔ الزام اور دشنام سے مجروح ہونے والے سے اس طرح معذرت طلب کرنا پڑے گی، جس سے وہ مطمئن ہو جائے، غلاظت کو فلش کرنے کا یہی طریقہ ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں