آوے کا آوا ن: ہارون الرشید

 قبالؔ نے کہا تھا ؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے، قوموں کا ضمیر
آزادی کے بعد ہماری ذہنی غلامی اور بے حسی کیا اور بھی بڑھ نہیں گئی ؟ 
خبر آئی کہ گاڑی ایک ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر سے روانہ ہو گی۔ کچھ دیر میں خبر ملی کہ پنوّں عاقل ابھی پہنچی ہے چھ بجے رحیم یار خان میں آمد اس کی متوقع ہے۔ پھر نوع بہ نوع اطلاعات۔ تاخیر ہی کی‘ کبھی کم کبھی زیادہ۔
ادھر کچھ دن سے ریل پہ سفر کا آغاز کیا تھا۔ اگرچہ کم ہی پڑھ پاتا ہوں‘ مگر کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ایرک مارگلوس میرے پسندیدہ اخبار نویس ہیں۔ غیر متعصب‘ معتدل مزاج‘ ہنرمند اور دانا۔ ایک بار انہوں نے کہا تھا : ہوائی جہاز اڑتا ہوا جیل خانہ ہے۔ کار سے سفر کرنے میں آزادی کا احساس زیادہ ہوتا ہے مگر یہ تھکا دینے والا ہے۔ سڑک کے ساتھ ٹائروں کی رگڑ‘ اعصاب پہ پیہم اثرانداز ہوتی رہتی ہے۔ رحیم یار خان کے لیے ‘ جہاں دو عدد شادیوں میں شرکت کرنا تھی اور بہت سے لوگوں سے ملنا تھا‘ پی آئی اے کی پرواز باقاعدہ نہیں۔ گنا پیلنے کا موسم ہے۔ ساڑھے تین سو کلومیٹر کا راستہ ٹرالیوں سے اٹا رہتا ہے۔ رفتار کبھی ایک تہائی اور کبھی اس سے بھی کم ہو جاتی ہے۔ آخری بار تیرہ گھنٹے لگے تھے۔
تاثر یہ تھا کہ خواجہ سعد رفیق کی کوشش سے بہت کچھ بہتری آ چکی۔ دو برس ہوتے ہیں ‘ جب دنیا ٹی وی پروگرام ”خبر یہ ہے‘‘ صبح سات بجے ہوا کرتا۔ ایک شام ناچیز رحیم یار خان میں تھا۔ ڈائریکٹر آپریشنز اور اپنی پیاری بھتیجی مریم گیلانی سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا‘ صبح چھ بجے گاڑی کو لاہور پہنچنا ہے۔ آپ اس پہ بھروسہ کر سکتے ہیں۔ تاخیر ہرگز نہ ہو گی۔ ہوئی بھی تو دس پندرہ منٹ سے زیادہ بالکل نہیں۔ 
صادق آباد کے ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو انتظامات دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ عزیز دوست میر فضلی کا ملازم بستر تھامے ہوئے آیا۔ ٹفن کیریئر میں کھانا اور ایک ٹوکری۔ ٹوکری میں کیا ہے؟ میر صاحب سے میں نے پوچھا : بتایا کہ کچھ تازہ پھل ہیں۔ بستر نیا تھا‘ نئی چادر‘ گدا اور تکیہ بھی۔ اس طرح کے تکلف سے میں گھبراتا بہت ہوں۔ ایک بے تکلف اور مہربان دوست سے آدمی مگر کتنا احتجاج کر سکتا ہے۔ اس گزارش پر کہ ایسی زحمت سے میں شرمندہ ہوں ‘ جو تفصیل انہوں نے بتائی‘ وہ حیران کن تھی۔ ساٹھ ستر برس سے خاندان میں رواج تھا کہ مہمان کی ضروریات کابندوبست کیا جائے‘ راہ میں جو درپیش ہو سکتی ہیں۔یادش بخیر‘قرآن کریم نے ابن السبیل یعنی مسافر کو مجبور لوگوں میں شمار کیا ہے۔ مفلس اور درماندہ کے ساتھ ساتھ اس کی اعانت لازم قرار دی ہے۔ میر فضلی کے مرحوم والد میر زاہد تحریک پاکستان کے ایک بے لوث کارکن تھے۔ اخلاص‘ وفا اور بے غرضی کا ایک نمونہ۔ ان نوجوانوں میں سے ایک جو قائداعظم سے متاثر ہوئے اور ان کے رنگ میں رنگے گئے۔ صادق آباد‘ کراچی اور لاہور کے وسط میں واقع ہے۔ اکثر گاڑیاں صبح سویرے پہنچتی ہیں یا شام ڈھلے۔ تحریک پاکستان کا کوئی بھی رہنما‘ کوئی بھی کارکن جب اس دیار سے گزرتا تو کھانے کا بندوبست اس کے لیے کیا جاتا۔ غالباً خواجہ ناظم الدین اور حمید نظامی مرحوم کے نام بھی انہوں نے لیے۔ ذاتی نجابت اور وضع داری کے علاوہ‘ میر صاحب کی غیر معمولی شہرت‘ ان کی لائبریری کے طفیل تھی۔ قرآن کریم کے نادر قلمی نسخے‘ جس میں رکھے ہیں۔ بے شمار دوسری کتابیں‘ چھ سات عشروں کے تمام اخبارات اور جرائد کی فائلیں بھی۔ اس اہتمام کو ان کے فرزند نے قائم رکھا۔ باپ بیٹے سے میرے بڑے بھائی مقبول احمد طاہر نے مجھے روشناس کرایا تھا‘ جو اس طرح کے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بعد ازاں قرآن کریم کے دو قدیم قلمی نسخے بھی عنایت کئے۔ جن میں سے ایک پروفیسر احمد رفیق کو پسند آیا۔ دوسرا میری لائبریری کے لیے باعث برکت ہے۔
آٹھ بجے روانہ ہونے والی گاڑی‘ اگلی صبح ساڑھے چھ بجے لاہور پہنچی تو نصف گھنٹہ پروگرام میں باقی تھا۔ آغاز بہار کا موسم سنسان سڑک سے گزر کر‘ پانچ منٹ میں اپنے پسندیدہ فلیٹیز ہوٹل میں جا پہنچا۔ اطمینان سے غسل کیا۔ پھر دو منٹ کی مسافت پر واقع دفتر میں جا داخل ہوا۔ اس سفر کی دلکش یاد ہمیشہ باقی رہے گی۔ وہ بستر اب بھی کہیں رکھا ہے اور ٹفن کیرئیر جناب حبیب اکرم کی خدمت میں پیش کر دیا گیا ایک یادگار بن کر محفوظ ہے۔
ایسے ہی بلکہ اس سے بہتر ایک سفر کی امید پر ریلوے سٹیشن پہنچا۔ بڑے بھائی میاں محمد خالد حسین اور سابق سینیٹر طارق چوہدری ہمراہ تھے۔ سیاست کے حقیقت پسندانہ تجزیے میں طارق اپنا جواب نہیں رکھتے۔ تحریک انصاف کا جب وہ حصہ نہ تھے‘ تب بھی اپنی مجلس عاملہ سے خطاب کے لیے عمران خان نے انہیں مدعو کیا تھا۔ میاں محمد خالد حسین کی رفاقت ایک نعمت ہے۔ پروردگار انہیں اپنی امان میں رکھے۔ ایک درویش نے کہا تھا : شیطان کو اس آدمی سے کیا لینا دینا۔ بہت سے لوگ ان سے ملاقات کے مشتاق رہتے ہیں۔ میاں عامر محمود کے مرحوم والد میاں ظہور الحق جب تک حیات رہے‘ ہر جمعرات کو گیارہ بجے صبح خالد صاحب کا انتظار کیا کرتے۔ کبھی کبھار اس کی مختصر سی روداد وہ مجھ سے بیان کرتے۔ع
چہ خوشا حرفے کہ گوید آشنا بہ آشنا
یہ مصرع، برصغیر میں فارسی کے آخری عظیم شاعر مولانا عبدالقادر گرامی کے انتقال پر اقبالؔ نے لکھا تھا۔ہفتوںجو ان کے ہاں قیام کیا کرتے۔ مفہوم اس مصرعے کا یہ ہے: ان باتوں کی یاد، جو ایک دوسرے کوخوب جاننے والے ہم نفس، ایک دوسرے سے کیا کرتے ۔
طارق چودھری کی فرمائش پر، ایک نہیں دو عدد میزبانوں نے، سفر کے لیے کھانے کا اہتمام کیا تھا۔ دیسی گھی کے پراٹھے،چپڑی ہوئی روٹیاں، آلو مٹر اور مونگرے کی بھجیا اور شامی کباب۔ حد یہ ہے کہ چار عدد پلیٹیں تھی، جو آخری وقت پہ اصرار کرکے میں نے واپس کیں۔ شالیمار ٹرین کے مہربان منیجر نے جو خیریت پوچھنے آیاازراہ کرم عشائیے کے وقت برتنوں کا بندوبست کردیا۔ ایک بار پھر طارق چودھری کی فرمائش پر۔تامل نام کی کوئی چیز عالی جناب میں پائی نہیں جاتی۔ پچاس برس کے تجربات اور مشاہدات پر پھیلی، اپنی روداد اگروہ لکھ دیں تو شاید یہ ایک تہلکہ خیز کتاب ہو۔ ہفتہ وار کالم وہ لکھتے ہیں ۔ حیرت سے کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ کوئی اخبارمستقل طور پر لکھنے کی دعوت انہیں کیوں نہیں دیتا۔جوہر کی تلاش، ہمارے ہاں اہتمام سے نہیں ہوتی۔ کتنی ذہانت اور کتنے قیمتی لوگ ضائع ہو جاتے ہیں۔ پہل کاری سے محروم، ایک مقلد معاشرے کا یہ بھی ایک المیہ ہوا کرتا ہے۔
تجربہ تکلیف دہ ثابت ہوا۔ اول تو سیٹیں دیکھتے ہی دل بجھ گیا۔بھدے رنگ ، سیٹوں کے عقب میں ٹی وی کے لیے لگی سکرینیں نوچ لی گئی تھیں۔ تاریں جھول رہی تھیں‘ گویا کہ ماتم کناں۔ فرش‘ دیواروں اور چھتوں پر رنگ ناتراشیدہ اور بے رحم ہاتھوںنے چپکائے تھے۔ پردے اور بھی بے رنگ اور بھی زیادہ برے ذوق کے مظہر ۔ پورے ماحول میں ایک گنوارپن، لاتعلقی اور بے رحمی کارفرما تھی۔ پہلا تاثر یہ تھا کہ اولین برس میں خواجہ نے ترقی و تزئین کا جو عزم صمیم کیا تھا، اس کا زور ٹوٹ چکا۔ ایک بار پھر وہ نالائق اور بے حس ملازمین کے رحم و کرم پر ہے۔ شاید اس لیے کہ وزیرصاحب پورے وقت کا ایثار نہیں کرسکتے۔ ذتی کاروبار انہیں کرنا ہے اور سیاست بھی۔ خالد صاحب سے میں نے پوچھا: کوئی انگریز وائسرائے یا اس عہد میں کسی محکمے کا سربراہ ذاتی کاروبار کا تصور بھی کرسکتا ؟ قائداعظم کے اقتدارمیں؟ بعد کے برسوں میں بھی نہیں، یہ تازہ ایجاد ہے۔ شریف اور زرداری خاندان کی اور اس پر شاید انہیں فخر بھی ہے۔قوموں پر ادبار کے دن آتے ہیں تو ان کی عنان ادنیٰ لوگوں کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے۔چل نہ رہی تھی گاڑی رینگتی تھی۔ ساڑھے چار گھنٹے کی تاخیر سے لاہور کے ریلوے سٹیشن پر پہنچی ”آوے کا آوا ہی بگڑ گیا‘‘ خالد صاحب بڑبڑائے۔ رنج پالنے سے کیا ہوتا ہے۔ لڑنا ہو گا اور ساری قوم کو‘ مسلسل اور متواتر ۔ طرز احساس سنوارنا اور میدان میں اترنا ہو گا۔ زوال کا موسم آسانی سے ٹلا نہیں کرتا ۔
اقبالؔ نے کہا تھا ؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے، قوموں کا ضمیر
آزادی کے بعد ہماری ذہنی غلامی اور بے حسی کیا اور بھی بڑھ نہیں گئی ؟ 

اپنا تبصرہ بھیجیں