سروس پرسن والی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگا ۔۔۔ تحریر : سید سردار احمد پیرزادہ

میں اس لفظ سے اتفاق نہیں کرتا کہ پاکستان کا افغانستان میں اپنا کوئی کردار تھا بلکہ میں یہ کہوں گا کہ پاکستان نے شروع سے ہی افغانستان میں امریکہ کے مفاد کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ افغانستان کے حوالے سے امریکی ٹاسک کے پورا ہو جانے کے بعد افغانستان میں اُس کی دلچسپی کا ایک بڑا Portion ختم ہوگیا لیکن افغانستان میں آنے والے غیرملکی اور مقامی وہ افراد جنہوں نے امریکہ کے لیے تاریخی کارنامہ سرانجام دیا اب امریکہ کے لیے ایک بوجھل Obligatory Stock بنتے جارہے تھے جن سے پیچھا چھڑانے کا ایک اور بڑا Portion ابھی باقی رہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے افغانستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے نام پر 9/11 کے بعد Huge Activity کی گئی۔ اس میں بھی پاکستان نے اپنی خدمات فراہم کیں۔ لہٰذا خدمات فراہم کرنے والے کا اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا، وہ صرف Service Person ہوتا ہے۔ اب Peace Process کی بات کریں تو وہاں بھی امریکہ پاکستان کی خدمات حاصل کرکے Exit ہونا چاہتا ہے۔ لہٰذا Peace Process میں پاکستان کے بظاہر عمل دخل سے Indirectly امریکہ کو ہی فائدہ حاصل ہورہا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے افغانستان میں 80ء کی دہائی والی Afghan War اور 2000ء کی دہائی والی War on Terror کے دوران اپنی Shrewd Diplomacy کے ذریعے واقعات سے خوب فائدہ اٹھایا اور افغانیوں کو یہ یقین دلا دیا کہ اُن کے تمام مسائل کی جڑ پاکستان ہے جبکہ امریکہ اور مغرب نے بھارت کے اس پراپیگنڈے کو غلط جانتے ہوئے بھی اپنی زبان بند کرلی کیونکہ اب انہیں ایک دوسرے بڑے مقصد کے لیے بھارت زیادہ عزیز ہے۔ لہٰذا بھارت نے افغانستان میں اپنی خدمات کی بجائے اپنا کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں دوسرے ڈپلومیسی معاملات کے علاوہ بھارت نے افغانستان میں تعلیم کے میدان اور سیکورٹی کے معاملات میں بہت Investment کی جس کے اثرات دور رس ہیں جبکہ پاکستان نے افغانستان میں کنسٹرکشن کے ٹھیکوں اور روایتی تجارت کو فوکس کیا۔ جہاں تک معاملہ مڈل ایسٹ کا ہے وہاں بھی پاکستان نے مڈل ایسٹ کی سیکورٹی کی کمزوری کو پورا کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں جبکہ بھارت نے Shrewd Diplomacy اور Skillful Manpower کے ذریعے مڈل ایسٹ کے سول اداروں میں اپنا قبضہ جمالیا۔ اب جبکہ مڈل ایسٹ اور اسرائیل کے معاملات بہتر ہو رہے ہیں تو مڈل ایسٹ میں سیکورٹی کا مسئلہ زیادہ اہم نہیں رہا۔ مڈل ایسٹ میں سیکورٹی کا مسئلہ کم اہم ہو جانے سے وہاں پاکستان کی خدمات بھی کم اہم ہوتی جارہی ہیں اور مڈل ایسٹ کے سول اداروں میں پہلے سے موجود بھارت ابھرکر سامنے آگیا ہے۔ نیز سول اداروں میں اہمیت کی بنیاد پر بھارت مڈل ایسٹ کا اہم سیاسی پارٹنر بھی بنتا جارہا ہے۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ وہ طلسماتی نغمہ ختم ہوگیا ہے جسے پاکستان افغانستان اور یو اے ای میں اپنے اہم کردار کے نام سے گنگناتا ہے لیکن اُس طلسماتی نغمے کی دھنیں چھیڑنے والا دراصل امریکہ تھا۔ دوسری طرف اب پاکستان میں ایک ایسی سوچ بھی جنم لے رہی ہے کہ اگر ایران چین اور امریکہ کے درمیان پاکستان رابطہ کار کا کردار ادا کرے تو پاکستان کو امریکہ کی نظروں میں دوبارہ اہمیت مل سکتی ہے۔ یہاں ہم ایک مرتبہ پھر اُسی غلط پالیسی کی خواہش کررہے ہیں جس کی بنیاد پر 73 برس گزر جانے کے بعد آج ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان امریکی خارجہ پالیسی میں کم اہم ہوگیا ہے۔ یعنی ایک مرتبہ پھر ایران چین اور امریکہ کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے پاکستان کی خدمات پیش کرنے کا سوچا جارہا ہے۔ فرض کریں ایسا ہو جائے تو کچھ عرصے بعد جب امریکہ کے ایران اور چین سے معاملات براہ راست ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر سے امریکی خارجہ پالیسی میں کم اہم نہ ہو جائیں گے؟ لہٰذا اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ امریکہ کے تعلقات دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ جیسے بھی ہوں ہوتے رہیں ہمیں اپنی خدمات Broker کے طور پر پیش نہیں کرنی بلکہ اپنی شناخت کے سفر کا آغاز کرنا ہے۔ بیشک اس سفر کا آغاز Single Penny کی قیمت کے برابر کا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر ہم نے کچھ عرصے بعد دوبارہ کم اہم ہونا ہے تو کیوں نہ ابھی کم اہم ہوکر اپنی شناخت کے فلفسے پر اہم ہونے کے سفر کا آغاز کریں۔ اس کے علاوہ یہ بات یاد رکھنا پڑے گی کہ ایران پاکستان پر کتنا اعتماد کرتا ہے۔ جہاں تک چین کا معاملہ ہے پاکستان چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی بہتری کے حوالے سے کچھ دہائیاں قبل اہم کردار ادا کرچکا ہے جس پر امریکہ نے پاکستان کے لیے Temporary Obliging Behavior ضرور Show کیا تھا لیکن امریکہ نے پاکستان کی اس مہربان کوشش کو مستقل یاد رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہاں اب خاص بات یہ ہے کہ چین کو پاکستان کی ضرورت امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات سے زیادہ چین کے One Belt One Road منصوبے میں ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں پاکستان چین کا اسرائیل بن سکتا ہے۔ اس بات میں بہت بڑا مفہوم پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ اسرائیل نے امریکہ کی پشت پناہی پر ہر طرح کی مان مانی کی، امریکہ سے بہت مفادات اٹھائے اور امریکہ کی آنکھ کا تارا بھی بنا ہوا ہے۔ لہٰذا اس مثال کو رول ماڈل بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ تعلقات میں صرف اپنی خدمات پیش نہ کرے بلکہ اپنا کردار حاصل کرے۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نفسیاتی مسئلہ بھی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ نفسیاتی مسئلہ ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک State کا ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان کو شروع سے ہی بھارت کی طرف سے جارحیت کے سیکورٹی خطرات کا احساس رہا ہے جس کی ناقابل تردید مثالیں پاک بھارت جنگیں اور بنگلہ دیش کے قیام میں بھارتی کردار کی صورت میں موجود ہیں۔ پاکستان نے اپنے آپ کو تحفظ دینے کے لیے Powerful & Effective Military کی طرف شروع سے ہی توجہ مرکوز رکھی لیکن اس میں بڑی کامیابیوں کا آغاز 80ء کی دہائی کی Afghan War کے دوران ہوا جو مسلسل بتدریج بڑھتا رہا اور اب یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں ایک Effective اور Powerful Military رکھتا ہے اور ایسا کرنا ضروری بھی تھا کیونکہ 1971ء کے واقعے نے پاکستان پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں کردی کہ Effective اور Powerful Military ہی پاکستان کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ Pakistan has traditionally exploited all opportunities when sought alliance to build its military capability زمینی حقائق سے مختلف ہوگا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اب معاشی خوشحالی کی منصوبہ بندی کرنا بھی ممکن نہ ہوتا۔ یہ بات Universal Truth ہے کہ ریاستی سیکورٹی کے بغیر کسی قسم کے تحفظ کا تصور بھی خام خیالی ہی ہوگا۔ اسی لیے Effective اور Powerful Military کی تعمیر کی کوششوں کو Traditional Exploitation نہیں کہا جاسکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں