14 اگست کا دلسوز واقعہ ۔۔۔ تحریر : ارم غلام نبی (الہ آباد)

14 اگست 1947 کو جب سب لوگ اس جستجو میں تھے کہ سب قافلہ در قافلہ پاکستان کی طرف روانہ ہو جائے تو یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ اس وقت جو ظلم کی داستان رقم کی گئی شاید ہم میں سے کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کئی ماؤں کے لال ان کی آنکھوں کے سامنے بے دردی سے شہید کر دیے گئے، کئی بہن کے بھائی اور کئی عورتوں کے شرکِ حیات موت کی گھاٹ اتار دیے گئے۔
ان سب میں ایک درد ناک اور بہت زیادہ غمگین کر دینے والی داستان موجود ہے، وہ داستان ہے ایک ماں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“دنیا کی محبتوں میں سب سے زیادہ پُر خلوص محبت ایک ماں کی محبت ہی ہے۔”
جب رات دن کی جدوجہد کے بعد آزادی کا دن نصیب ہوا تو اسی رات ایک قافلہ ہندوؤں کے ظلم سے بچتا بچاتا رات کی تاریخی میں پاکستان کی جانب روانہ ہوا۔قافلے میں بوڑھے ،بچے اور نوجوان سب شامل تھے۔ وہ اپنے دلوں میں قتل ہو جانے اور اپنے پیاروں سے بچھڑ نہ جانے کا خوف لیے اپنی منزل کی طرف چل رہے تھے کہ اچانک انہیں کچھ ہندوؤں اپنے جانب آتے محسوس ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کا وقت تھا تو سب نے گنے کے ایک کھیت میں پناہ لے لی۔ رات گہری تھی کیونکہ آج چاند بھی اپنی روشنی لیے چھپا ہوا تھا۔
ہندوؤں کا گروہ ہاتھوں میں تیزدھار شمشیریں لیے اسی کھیت کے پاس سے گزر رہا تھا تو قافلے والوں نے اپنی سانسیں تک بند کر لی کہ کہیں ان کی موجودگی ظاہر نہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سانسیں تو صرف وہ بند کر سکتے تھے ناں جو وقت کی نازکت کو سمجھتے تھے مگر دودھ پیتے بچوں کو کیا معلوم تھا ؟ کہ وہ ہمیں آزادی دلوانے کی خاطر پیدا ہوئے ہیں ، اس لیے اپنی سانسیں چند لمحوں کے لیے روک لیں۔”
اب جب موت کا خوف لیے اپنی سانسیں بند کرنے کی جنگ جاری تھی تو ایک ماں کا لال جو صبح سے بھوکا پیاسا تھا نے رونا شروع کر دیا۔ اس کو چپ کروانے کے لیے اس کی ماں جلدی سے لپکی مگر وہ ناکام رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قافلے میں موجود لوگوں کی زندگی اس معصوم بچے کی وجہ سے اور زیادہ خطرے میں آ گئی۔ماں پریشان تھی کہ اس کو کیسے چپ کروائے ،اسے کیسے بتائے کہ یہاں زندگی ، موت اور آزادی کی جنگ جاری ہے اس لیے چپ کر جا میرے لال۔
اپنے جگر کے ٹکڑے کی بھوک مٹا کر چپ کروانے میں آج ایک ماں ناکام تھی۔
آج ایک ماں کو یا تو اپنے بچے کی قربانی دینی تھی یا قافلے والوں کی۔ ایک زندگی کی خاطر سینکڑوں زندگیاں بچانے کا جذبہ ایک ماں پر غالب آگیا۔
درد کی اس داستان میں ایک ماں نے اپنے دودھ پیتے بچے کو اپنے ہاتھوں سے موت کی گھاٹ اتار دیا۔ ایک ماں نے اپنے جگر کو اپنے ہاتھوں سے دبوچ کر اپنے سینے کو چھلی کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کس قدر تکلیف گزری ہو گی اس کا اندازہ شاید آپ اور میں نہیں لگا سکتے”
مگر اس وقت قیامت سے پہلے ایک قیامت گزری ہو گی۔
ایسی سینکڑوں نہیں ہزاروں داستانیں رقم کی گئی تب جا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔
یہ قربانیاں کیوں دی گئی ؟ کس کی خاطر دی گئی؟ اس کا مقصد کیا تھا ؟ یہ سوال ہم سے پوچھا جائے تو ہم سب اس کی وضاحت میں گھنٹوں بول سکتے ہیں اور سینکڑوں داستانیں سنا سکتے ہیں۔مگر ہم میں سے کسی نے کبھی اس عظیم مقصد کو پورا کرنے کی تھوڑی سی بھی کوشش نہیں کی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک واضع فرق اسلام کا تھا نا۔ دیکھا جائے تو ہماری زندگیوں میں اسلام کہاں ہے؟ ہم اسلام کو کتنا فالو کرتے ہیں؟ ہندوستان میں مسلمان مسجدوں میں جانے کی خاطر اپنے گردنیں تک کٹوا دیتے تھے مگر یہ ایسی آزادی ملی ہے کہ اب مسجدیں گردنیں نہیں مانگتی مگر ہمارے پاس مسجد جانے کی فرصت ہی نہیں ہے۔
ہمارے دلوں کو ایمان کی روشنی سیراب نہیں کرتی۔۔۔۔۔۔ایمانداری ہمیں آتی نہیں اور قرآن کو سمجھنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔
کیا اسی لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا؟ کیا یہی مقصد تھا اس کے پیچھے؟ ہماری نسلیں مغرب کے رنگ ڈھنگ میں پھسلتی جا رہی ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے کسی بے حیائی کے اڈوں سے کم نہیں۔ محرم ، غیر محرم کا کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
اسی تہذیب کی خاطر آزادی حاصل کی گئی تھی نا ؟
خدارا ہوش کے ناخن لے آزادی کو منانے کے ساتھ ساتھ اس کے پیچھے کے مقصد کو پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اب ہم کہے گے پاکستان کی 32 کروڑ عوام میں سے ہمارا کیا کردار ہو سکتا ہے ؟ ہم کیا کریں؟ جی تو آپ نے کرنا کچھ نہیں ہے بس آپ نے اسلام کی تعلیمات کو فالو کرنا ہے اور ان ہی پر عمل کر کے اپنی زندگی بسر کرنی ہے تا کہ پاکستان کی خاطر قربانی دینے والوں کی قربانی ضائع نہ ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں